Topics
جناب
الشیخ عظیمی صاحب
السلام
علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاۃ
آپ کی
تحریروں میں ٹائم اسپیس کا تذکرہ عام ملتا ہے اس سے متعلق ایک اور اہم موضوع براہ راست
اور بالواسطہ طرز مشاہدہ بھی ہے۔ اپنی کم مائیگی پر افسوس ہوتا ہے کہ میں آج تک اس
مسئلے کو صحیح طور پر سمجھ ہی نہیں پایا۔
آپ سے
درخواست ہے کہ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اس اہم موضوع کی وضاحت فرمادیں۔
اللہ اور اللہ والوں سے محبت کی روشنی سے معمور برخوردار ارسلان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم باہر دیکھ
رہے ہیں، حالانکہ ہم کسی چیز کو اس وقت دیکھ سکتے ہیں جب اس چیز کا عکس ہمارے ذہن کی
سطح پر نمودار ہوجائے۔ ہم کرسی کو کرسی اس وقت کہتے ہیں جب کرسی کا علم، کرسی کا عکس
کی صورت میں ہمارے دماغ پر منعکس ہوتا ہے۔ اگر کرسی ہمارے سامنے نہیں ہے تو ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ ہم کسی چیز کے تذکرے سے قاصر رہیں
گے جب تک کہ وہ چیز ہمارے سامنے نہ ہو اور ہمارا ذہن اس سے باخبر نہ ہو۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ اپنے دماغ کی
سطح پر دیکھتے ہیں یا اپنے اندر دیکھتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں مفروضہ
کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یہ مفروضہ ہمیں جبلی طور پر ہمارے اسلاف سے منتقل
ہوا ہے۔
ابھی بچہ شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا کہ اس کے اطراف
کا عالم اسے مسلسل اور متواتر یہ اطلاع قبول کرنے پر مجبور کردیتا ہے کہ جو کچھ نظر
آرہا ہے، وہ ہم خارج میں دیکھ رہے ہیں۔ بچہ کو جب چاند سے روشناس کرایا جاتا ہے تو
یہ بات کہی جاتی ہے کہ چندا ماموں آسمان پر ہیں۔ ساتھ ہی ماں یا خاندان کا کوئی فرد
انگلی کے اشارے سے یہ بات بچے کو ذہن نشین کرادیتا ہے کہ چاند ہم سے دور اور بہت دور
نظر آتا ہے۔
جب ہم دوری کا تذکرہ کرتے ہیں تو فاصلہ اور وقت کا علم وجود
میں آجاتا ہے اور Time and Space کا یہ
علم ہماری زندگی کے ہر ذرے میں پیوست اور نقش ہوجاتا ہے، اب ہم وقت کے بغیر کسی چیز
کا تذکرہ کر ہی نہیں سکتے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ ہے تو فی الواقع یہ کہتے ہیں
کہ یہ بچہ اتنی مدت گزارچکا ہے۔ جوانی کے تذکرہ میں بھی یہ بات پوشیدہ ہے کہ بچہ سولہ
یا اٹھارہ سالوں کا وقفہ پھلانگ چکا ہے اسی طرح ادھیڑعمر کا ذکر بھی اس بات کی نشاندہی
کرتا ہے کہ یہ شخص تیس، چالیس سالوں گزرے ہوئے وقفہ کا تمثال ہے۔ یہی صورت بڑھاپے کی
ہے…… ہم آم کے درخت کا تذکرہ اس کے وقت گزارنے کے عمل کے بغیر نہیں کرسکتے۔ جس وقت
آم کے درخت کو آم کہا جاتا ہے تو پہلے ہمارا ذہن اس درخت کے ساتھ چپکے ہوئے وقت کو
ناپتا ہے۔
جب ہم کسی درخت کے بیج کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے ذہن
میں ہوتی ہے کہ یہ بیج کسی وقت زمین میں بویا گیا تھا…… پھر اس کا درخت بنا پھر اس
درخت نے نشوونما میں ایک زمانہ گزارا اور پھر اس درخت سے بیج کا ظہور ہوا۔ یعنی ایک
بیج کو دیکھنے یا بیان کرنے کے لئے ہمیں کم و بیش مہینوں اور بعض اوقات برسوں وقت سے
گزرنا پڑتا ہے۔ بغیر وقت کے محیط ہونے کے ہم کسی بھی حالت میں بیج کو بیج نہیں کہہ
سکتے۔ علیٰ ہٰذا القیاس یہ حال کائنات میں موجود ہر شے کے اوپر محیط اور مسلط ہے۔
ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں، جو کچھ سمجھ ہے یا جس چیز کا تذکرہ
کررہے ہیں اس کی حیثیت صرف اطلاع کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطلاع ہمیں کہاں
سے وصول ہوتی ہے اور اس اطلاع کا ذریعہ (Source) کیا ہے…… کوئی
بھی اطلاع یا کسی شے کا علم ہمیں لازمانیت سے وصول ہوتا ہے اور یہی لازمانیت نت نئی
اطلاعات زمانیت (Time) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہے۔ لازمانیت کائنات
(موجودات) کی بنیاد (Base) ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطہ سے تشبیہ دیں
تو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس نقطہ میں کائنات کی یکجائی کا پروگرام نقش ہے۔
لہروں کے ذریعے اس نقطہ سے جب کائنات کا یہ یکجائی کا پروگرام
نشر ہوتا ہے تو انسان کے حافظہ کی سطح سے آکر ٹکراتا اور بکھرتا ہے۔ بکھرتے ہی ہر لہر
مختلف شکلوں اور صورتوں میں ہنسی بولتی، چلتی پھرتی، گاتی بجاتی تصویر بن جاتی ہے لیکن
چونکہ جبلی طور پر انسان کا حافظہ محدود ہے اس لئے یہ حافظہ یا وقت، ایک دائرہ کے اندر
محدود ہونے کی وجہ سے تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے۔ یہی فاصلہ ہمیں کسی چیز کو
خود سے دور دکھاتا ہے لیکن ہمارا یہ دیکھنا حقیقت کے خلاف اور مفروضہ ہے۔ اگر ہم اس
(Base) یا نقطہ کو تلاش کرلیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام منقوش ہے تو
فاصلہ کالعدم ہوجاتا ہے۔
لازمانیت سے آئی ہوئی ہر اطلاع وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر
ہے۔ اس لئے ہر وہ ذرہ جو زمین پر موجود ہے ارتقاء کے ساتھ ساتھ انحطاط کے ساتھ بھی
وابستہ ہے۔ انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ ذرہ جہاں سے آیا تھا۔ وہاں جانے کے لئے بے قرار
رہتے ہوئے خود کو وقت کے دائرے سے آہستہ آہستہ دور کررہا ہے اور اپنے مخزن کی طرف لوٹ
رہا ہے جیسے جیسے زمانیت سے بعد واقع ہوتا ہے اسی مناسبت سے لازمانیت کے دائرہ سے قریب
ہوتا چلا جاتا ہے۔
مثال: ٹراننزسٹر یا ریڈیو جن ذرات سے مرکب ہے ان کو بھی وقت
سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹرانزسٹر میں کام کرنے والے ذرات وقت
کے دائرہ سے اتنے دور ہوگئے ہیں کہ لازمانیت کی تحریکات قبول کرنے کی صلاحیت ان میں
پیدا ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کا ذرہ ہزاروں میل دور کی آواز سن لیتا ہے اور
سن کر نشر کردیتا ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ٹرانزسٹر کے ان ذرا ت کو اس مقام تک پہنچانے
میں انسان نے اپنی لازمانی صلاحیتوں کو استعمال کیا ہے اور اس کا ثمرہ یہ ہے آج دنیائے
مواصلات میں ضخیم پردے حائل نہیں ہیں۔
جب انسان اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ذرات سے کام لے سکتا
ہے تو پھر یہ کیوں کر ممکن نہیں کہ وہ ذرات سے کام لینے والی صلاحیتوں کو اپنے حق میں
استعمال کرکے براہ راست مستفید ہو لیکن نوع انسانی کی تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے کبھی
اس طرف توجہ نہیں دی۔
یہ بات ہر فرد کے علم میں ہے کہ انسان پیدائش کے وقت جو شعور
رکھتا ہے وہ بالغ شعور سے الگ اور مختلف ہوتا ہے۔ رضاعی دور میں بچے کے اوپر بیداری
سے زیادہ نیند کا غلبہ رہتا ہے اور بچہ نیند کی حالت میں کبھی ہنستا ہے اور کبھی منہ
بناکر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ کوئی چیز ایسی دیکھ رہا ہے جو اس کے لئے ناگوار ہے۔
پھر آہستہ آہستہ اس کے ذہن پر وہ نقوش منتقل ہوتے رہتے وہیں جو اس کے ماحول میں پھیلے
ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو اس کے ماحول میں بولی اور سمجھی
جاتی ہے۔
زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات بھی منتقل ہوتی رہتی
ہے کہ آواز کے سننے میں قرب و بعد کا تعلق ہے۔ قریب سنانے کے لئے آواز آہستہ بولی جاتی
ہے اور دور سنانے کے لئے آواز اونچی بولی جاتی ہے۔
دوری اور قرب کا یہ طریقہ کار کسی بچے کے اندر وقت کی پابندی
پیدا کردیتا ہے اور یہ طریقہ وقت کو اتنا پھیلادیتا ہے کہ انسان کی ہر حس اور صلاحیت
اس کے اندر مقید ہوجاتی ہے اور جیسے جیسے بچہ اس مقید زندگی میں وقت گزارتا ہے اسی
مناسبت سے وہ لازمانیت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
نوع انسانی میں باشعور اور باصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کو
بالواسطہ کارآمد بنانے کی بجائے براہ راست استعمال کریں تو پوری نوع زمانیت کی گرفت
سے آزاد ہو کر لازمانی صلاحیتوں سے آشنا ہوجائے گی۔ اب نوع انسانی اس مرحلے پر پہنچ
گئی ہے کہ وہ اللہ کے اس قانون سے فیض یافتہ ہوکر اپنے اوپر سے مقید، مضطرب اور مغموم
زندگی کا چولا اتار پھینک دے۔
دعاگو
عظیمی
۲۶، مئی۱۹۹۵ء
مرکزی مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔