Topics
عظیمی صاحب نے حضور قلندر با با ولیا ء کی پیر وی میں لا تعداد خطوط تحر یر فر ما ئے ہیں ۔ آ پ مختلف حا لا ت سے ہو تے ہو ئے تحر یر کی طر ف راغب ہو ئے ہیں ۔ جس کی ابتدا ء معا ش کے حصو ل کے دوران ۱۹۶۸ء میں حور ما رکیٹ ، نا ظم آبا د ، کرا چی میں کرایہ کی ایک دکا ن میں پرا نے کو ٹ اور سویٹروں کے کا م سے شروع ہو ئی جس میں فارغ اوقات میں آپ مختلف کتب کا مطا لعہ فرما تے تھے ۔ مطا لعہ کے ذوق کے ساتھ ساتھ کتا بوں میں اضا فہ ہو تا رہا ۔ یہا ں تک کہ دکا ن میں کپڑے کم ہو گئے اور چند ہفتوں میں دکا ن ایک چھو ٹی سی لا ئبریری بن گئی ۔
ایک دن عظیمی صا حب نے "عا لم تما م حلقہ دام خیا ل ہے " کے عنوان سے ایک مضمون تحر یر فرما یا ۔ اس زما نے میں آپ کے ایک عزیز روزنامہ ڈا ن میں ایڈیٹر تھے ۔ انہوں نے جب یہ مضمو ن دیکھا تو انہوں نے فرہا دزیدی صاحب ( ایڈیٹر روزنا مہ حریت) سے اخبا ر میں اس مضمو ن کی اشاعت کے لئے با ت کی ۔ دوران ملا قا ت فرہا دزیدی صاحب نے عظیمی صاحب سے استفسا ر کیا کہ اخبا ر میں آپ کس موضو ع پر کا لم لکھیں گے ۔ آپ نے بتا یا کہ آپ پیرا سائیکا لوجی پر کا لم تحر یر کرنا چا ہتے ہیں ۔
فرہا د زید ی صاحب نے کہا کہ کا لم شروع کر نے سے پہلے آ پ کا امتحا ن لیں گے ۔ وہ اس طر ح کہ آپ فزکس، سا ئیکا لوجی اور پیرا سا ئیکا لوجی کی ۱۲ سطروں میں وضا حت کردیں کہ یہ کیا ہیں ۔ جب عظیمی صاحب نے تحریر کرنا شروع کیا تو ۹ سطروں میں با ت مکمل ہو گئی ۔ آپ پریشا ن ہو گئے کہ مجھے فیل کردیا جا ئے گا۔ آپ کے قلم کو رکا ہوا دیکھ کر فر ہا د زیدی صاحب نے ازراہ مذا ق کہا، عظیمی صاحب ! کیوں پریشا ن ہیں ، کیا دما غ نہیں چل رہا۔ آپ نے فرمایا
جی ! دما غ چل کے رک گیا۔۔۔۔۔۔ آ پ نے ۱۲ سطروں میں لکھنے کو کہا تھا ، یہ تو ۹ سطروں میں با ت مکمل ہو گئی ۔
فرہا دزیدی صاحب بہت خو ش ہو ئے اور کہا ، یہ تو اور زیا دہ اچھا ہوگیا۔ عظیمی صاحب نے فرما یا۔۔۔۔ توپھر تحریر دیکھ لیں ۔ آپ نے تحریر فرما یا تھا
فزکس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زندگی میں جو کچھ اس کے جذبا ت ، احساسات کا تعلق ہو تا ہے اسے طبیعا ت کہتے ہیں ۔ وہ جو کچھ اپنی زندگی میں کررہا ہے ، نشیب و فراز سے گزررہا ہے ، اس نشیب و فراز سے گزرنے میں اس کے ذہن میں تبدیلیا ں آتی ہیں ۔ کبھی خو ش ہوتا ہے ، کبھی غمگیں ہوتا ہے اور اس کا کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا ہے ، اسے نفسیا ت کہتے ہیں ۔ فزکس اور نفسیا ت کے مسا ئل کو جو چیز حل کر رہی ہے ، جہاں سےمسا ئل آرہے ہیں ، اسے پیرا سا ئیکا لوجی کہتے ہیں ۔
فرہا د صاحب نے تحریر پڑھنے کے بعدکہا آپ کا اس ہفتہ سے کا لم چھپے گا۔
اٹھتے اٹھتے فرہا دزید ی صاحب نے پو چھا کہ آپ مضمون کیسے لکھتے ہیں ، مضمو ن کی آمد کا سلسلہ کیسے ہوتا ہے ، کیا آپ پہلے کو ئی پلان بناتےہیں ، کیا آپ مضمون لکھنے سے پہلے الفا ظ کا انتخا ب کر تے ہیں ۔ یہ سوال عظیمی صاحب کے لئے حیر ت کا با عث بنا، اس لئے کہ انٹرویو کے وقت آپ کو اس با ت کا علم نہیں تھا کہ آپ کا امتحا ن کس طر ح ہوگا۔ آپ سے لکھنے کو کہا گیا ، آپ نے اللہ سے دعا کی اور لکھنا شروع کردیا۔ جو مضمون ۱۲ سطروں میں لکھنے کے لئے کہا گیا تھا وہ ۹ سطروں میں پور ا ہو گیا۔
قصہ کوتا ہ عظیمی صاحب نے عرض کیا کہ
فرہا د صاحب ! میرے دما غ میں ایک خیا ل آتا ہے ۔ وہ خیا ل پھلجھڑی کے پھو لوں کی طر ح دما غ کی اسکرین پر پھیل جاتا ہے ۔ میں ان پھولوں کو چن کر ایک لڑی میں پرودیتا ہوں ، وہ لڑی جملے بن جا تی ہے ، جملوں سے پیرا بن جا تا ہے اور پیرے سے مضمون بن جا تا ہے ۔
فر ہا د زیدی صاحب بو لے ! اگر آپ کے ذہن میں خیا ل نہیں آیا تو ہم آپ کے مضمون کے انتظا ر میں بیٹھے رہیں گے ۔ کا پی لیٹ ہو جا ئے گی ۔ ۔۔با ت ہنسی مذا ق میں گزر گئی ۔ آپ خوشی خو شی مر شد کریم حضو ر قلندر با بااولیا ء کی خدمت میں حا ضر ہو ئے ، سار ی روئداد آپ کے گوش گزار کی ۔ ۔ حضو ر قلند ر با با اولیا ء مسکرا ئے اور فرما یا ۔
خوا جہ صاحب ! آپ سا ری عمر لکھتے رہیں گے اور
ہر مضمون تھیم (Theme) ایک ہو نے کے با وجود نیا ہو گا۔
آپ کے اوپر اللہ کا فضل سایہ فگن ہے ۔
اور اس طر ح ۱۹۶۹ ء میں روزنا مہ حریت سے با قا عدہ نشرو اشا عت کا آغا ز ہوا ۔
قا رئین نے سا ئیکا لوجی اور پیرا سا ئیکا لوجی کے ان مضا مین کو نا صر ف پسند کیا بلکہ اپنے مسا ئل کے حل کے لیے خطو ط بھی لکھنے شروع کر دیئے جن میں زیا دہ تر خطوط خواب کے متعلق ہو تے تھے ۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چا ر خط موصول ہو تے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔
حریت کے بعد نومبر ۱۹۷۱ ء میں روزنا مہ جسا رت میں آپ کے کا لم کا آغا ز ہوا ۔ اب تک جن اخبا را ت و جرا ئد میں آپ کے کا لم شا مل اشا عت ہو تے رہے ہیں ان کی فہر ست کچھ اس طر ح ہے ۔
۱۔ روزنا مہ حریت
۲۔ روزنا مہ جسا رت
۳۔ روزنا مہ ملت (گجراتی)
۴۔روزما نہ مشرق
۵۔ روزنا مہ اعلا ن
۶۔ روزنا مہ جنگ ۔ کراچی
۷۔ روزنا مہ جنگ ۔ لندن
۹ ۔ ما ہنا مہ مشعل ڈائجسٹ
۱۰۔ ماہنا مہ سیا رہ ڈا ئجسٹ
آپ نے ان اخبا رات و جرا ئد میں عوا م کے ان گنت معا شی ، معاشر تی ، نفسیا تی مسا ئل اور الجھنوں کا حل پیش کیا ہے اور مظا ہر قدرت کے پچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابا ت دیئے ہیں۔
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔
عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔
آپ خط کے ایسے سادہ اور فطری انداز مکا لمت میں تحریر فرما تے ہیں کہ آپ کی تحر یر برا ہ راست دل پر اثر کر تی ہے ۔ آپ کے مکتو با ت اپنے مندرجا ت کی بنا ء پر ایک ایسا آئینہ ہیں جن میں ان مکتوبا ت کا مطا لعہ کر نے والا نہ صر ف مکتوبا ت نگا ر بلکہ مکتوب الیہ کے کردار، شخصیت اور ذہنی رحجا ن کا عکس بھی دیکھ لیتا ہے ۔
عظیمی صاحب کے مکتوبا ت کی ایک بڑی تعداد اخبا رات، رسا ئل اور نجی ذخا ئر میں مو جو د ہے یا پھر دست بردزما نہ کے ہا تھوں تلف یا ضا ئع ہو چکی ہے ۔ دستیا ب مکتوبا ت میں سے چند کا انتخا ب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔ عظیمی صاحب کے مکتوبا ت کا یہ مجمو عہ موضوعات کے اعتبا ر سے متنوع ہے ۔ اگرچہ یہ خطو ط اشا عت کے مقاصد سے نہیں لکھے گئے لیکن جو موضو عات زیر بحث آئے ہیں وہ مطا لعۂ عا م کے موضو عات بھی ہیں ۔
اجتما عی اور انفرا دی تربیت کے لئے آپ کے لکھے ہو ئے مکتوبا ت ایسی بار ش ہے جو روحا نی پیاسوں اور متلا شیا ن حقیقت کو ابد تک سیرا ب کر تی رہے گی۔
شعبہ حضر ت خوا جہ شمس الدین عظیمی کے کا رکنا ن کے لئے یہ امر با عث مسرت ہے کہ انہیں حضور مر شد کریم کے مکا تیب کی تحقیق و تلا ش کی خدمت انجا م دینے اور اس کا وش کو "فقیر کی ڈاک" کے عنوا ن سے بصد احترا م و ادب پیش کر نے کی سعا د ت حا صل ہو ئی ۔
میں اپنی اہلیہ اور بچوں سمیت احبا ب کا تہہ دل سے مشکو ر ہوں کہ انہوں نے میر ی کو تا ہیوں سے صر ف نظر کر تے ہو ئے میر ی بھر پور حوصلہ افزا ئی فرما ئی ہے ۔ میں بالخصوص اراکین سلسلہ عظیمیہ ، نگراں مراقبہ ہا لز، لا ئبریرین برا ئے عظیمیہ روحا نی لا ئبریرز کا ممنو ن ہوں کہ انہوں نے مرشد کریم کے حوا لے سے معلو ما ت کی فراہمی میں میرے ساتھ بھر پور تعا ون کیا۔
دنیا میں بہت کم مواقع ایسے ہو تے ہیں جب کچھ کا م کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ یہ مرشد کریم حضر ت خوا جہ شمس الدین عظیمی کی نظر کرم ہے کہ آپ نے مجھے یہ سعا دت بخشی ہے کہ میں شعبہ حضر ت خوا جہ شمس الدین عظیمی پر کا م کرسکوں لہٰذا میں اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ مجھے یہاں اور وہاں مر شد کریم کی رفا قت نصیب ہو۔ آمین
شہزا د احمد عظیمی
۲۷ جنوری ۲۰۲۰ ء
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔