Topics

ظل ثناء

محترم و مکرم حضور مرشد کریم

          السلام علیکم

          میں نے کتاب لوح و قلم پڑھنا شروع کی ہے اور تیسرے سبق لوح اول پر ہوں۔ اس میں فنائے ذات کے مراقبہ کاذکر ہے۔ اگر کتاب میں مراقبہ یا عمل و ذکر کا تذکرہ آئے تو کیا یہ قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ کا حکم سمجھا جائے کہ مراقبہ کرنا ہے اور مراقبہ شروع کیا جائے۔۔۔۔ لوح اول کو سمجھنے کے لئے کیا کیا جائے؟۔۔سمجھے بغیر آگے پڑھنا صحیح نہیں لگ رہا۔

          ابا جی، آپ کی زندگی علم اور خدمت خلق ہے۔ یہی میری زندگی ہے۔ انٹرنیٹ پر قلندربابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان پڑھا کہ ” علم حاصل کرنے کے لئے استاد کی قربت بہت ضروری ہے“۔ ابا جی، میں تو آپ سے بہت دور ہوں مگر جانتی ہوں کہ نظر کرم ہو تو یہ دوری نہ رہے گی آپ کے لئے نظم لکھی ہے۔ اُمید ہے پسند آئے گی۔

          آپ کی بیٹی

      ظل ثناء 

 

          عزیزہ برخوداری ظلِ ثناء

          وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ

          آپ کا خط پڑھا۔نظم جو آپ نے لکھی ہے سنی۔ جن جذبات کا خط میں اظہار کیا گیا ہے اس پر غور کیا۔ آپ کے ایثار کی نوید دِل خوش کن ہے۔ اپنی مصروفیات اور ناتواں صحت کی بنا پر چند بنیادی باتیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ تفصیلات لکھنے کا وقت نہیں ہے۔ کسی علم کو سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی ABCD سے واقفیت ہو۔پھر حروف سے جملے کس طرح بنتے ہیں اور کئی جملوں کو یکجا کر کے عبارت کس طرح تشکیل پاتی ہے۔ عبارت میں لکھنے والے کا ذہن کس مفہوم کی طرف نشان دہی کر رہا ہے۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کا جاننا، سمجھنا فہم و ادراک کے ساتھ ضروری ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف ”لوح وقلم“ الہامی

تحریر ہے۔اس الہامی تحریر میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ پیغمبرانہ تعلیمات کا عکس ہے۔ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صاحب کے سوالات کے جواب میں مکتوب گرامی تحریر فرمایا ہے جو الحمد اللہ ریکارڈ ہے۔ اس چھوٹے سے خط میں ارشادات گرامی کو جب قرآن کریم کی آیات کے سیاق و سباق میں پڑھا گیا تو ایک خط قرآن کریم کی کم و بیش ۵۰ آیتوں کا خلاصہ بیان ہوا ہے۔

          بہت عزیز بیٹی، علم کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز حصولی ۔۔۔اکتسابی۔۔۔۔۔اور فکشن کا فریم ورک ہے جو اس وقت دنیا میں رائج ہے۔ تصوف میں اس علم کو علم حصولی کہا جاتا ہے۔۔۔ اس علم میں الف ب سے ی تک جتنے الفاظ ذخیرہ ہوتے ہیں وہ سب اکتسابی، حصولی یا فکشن ہیں۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے علم حصولی یا علم اکتسابی کی اتنی شاخیں ہیں کہ ان سب کا احاطہ ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اکتسابی علوم سے مراد یہ ہے کہ علم میں تغیر ہو، عقل و فہم کا دخل ہو ، تشبیہات اور استعارے ہوں اور بالآخر علم کی حیثیت سوالیہ نشان بن جائے۔

          علم کا دوسرا رُخ یا دوسرا مکتبہ فکر ” علم حضوری“ ہے۔ اس علم سے مراد ہے کہ اس میں شعور کی بھول بھلیاں نہ ہوں۔ جو نکتہ ہے بس وہ ہے۔ جو معنی ہیں ان میں کسی  قسم کا تغیر یا تعطل نہ ہو، رات کا نام کچھ بھی رکھ لیں۔۔۔ دو سو زبانوں میں رات کو دو سو ناموں سے متعارف کرایا جاتا ہے لیکن رات، رات ہے۔ دن، دن ہے۔

          علم حضوری کی تعریف یہ ہوئی کہ عقل و شعور اور شعوری دانائی سے ماورا ہو۔ ہم فرشتہ کانام لیتے ہیں لیکن شعوری علم کے مطابق فرشتہ کی تعریف ممکن نہیں ہوئی۔ اسی طرح تاریک رات میں آسمان پر چمکتے دمکتے تاروں کی بارات دیکھتے ہیں لیکن نہیں جانتے ستارے کیا ہیں۔

          ماشاء اللہ آپ کا ذہن کافی حد تک کھلا ہوا ہے۔ جب آپ تفکر کریں گی تو بات زیادہ وضاحت سے سمجھ آجائے گی۔

          آپ نے وہ مثال قائم کی ہے کہ بغدادی قاعدہ پڑھا نہیں اور M.A کی کتابیں پڑھنا شروع کر دی ہیں۔ علم حضوری کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہارے سب سمندروں کا پانی روشنائی بن جائے اور روئے زمین پر جتنے بھی درخت ہیں قلم بن جائیں سب ختم و جائیں گے اللہ کی باتیں پوری نہیں ہوں گی بلکہ اتنے ہی سمندروں سے روشنائی اور لاکھوں زمینوں پر موجود درخت کی ہر شاخ قلم بن جائے، وہ سب ختم ہو جائیں گی۔۔۔ اللہ کی باتیں باقی رہیں گی۔

                   زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر جسے

                   سات مزید سمندر ،  روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔

                   بے مثال اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ لقمٰن : ۲۷

          مجھ فقیر کا مشورہ ہے کہ آپ پہلے ابتدائی کتابیں پڑھیں اور بتدریج پہلی، دوسری، تیسری جماعت کے اعتبار سے روحانی علم کا مطالعہ کریں۔ یہ بات بھی قابلِ تذکرہ اور قابلِ یقین ہے کہ روحانیت کو سمجھنے کے لئے آسمانی کتاب قرآن کریم بہترین قاعدہ اور آخری کتاب ہے۔

          خدمت خلق کے بارے میں آپ کے روشن خیالات پڑھے۔ دل خوش ہوا۔ اگر سوال کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کیا کام کرتے ہیں تو اس کا ایک جواب ہے وہ یہ کہ رب کائنات اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔ خدمت خلق کے پروگرام سے متعلق آپ نے جو نوید سنائی ہے وہ قابلِ تعریف اور انشاء اللہ قابلِ عمل ہے۔

          بات دور اور قریب کی نہیں ہے۔ بہت قریب رہنے والا آدمی بھی بہت دور ہوتا ہے۔۔۔ دور رہنے والا بڑی مسافت حذف کر کے قرب حاسل کر لیتا ہے۔بات مادیت کی ہے۔ مادیت کی دیوار دوری کی علامت ہے اور روشنی میں دوری نہیں ہوتی۔۔۔ آپ کے گھر میں ٹیوب لائٹ ہے اور گھر سے گرڈ اسٹیشن میلوں دور ہے لیکن جب بٹن آن کر دیا جاتا ہے تو میلوں کی مسافت۔۔۔۔۔۔۔

                                                                             دعاگو

                                                                             عظیمی

                                                                             نومبر    ۲۰۱۵  ء

                                                                             ماہنامہ قلندر شعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔