Topics

عزیزی عرفان بساطیہ عظیمی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          دنیا میں یہ جو چوبیس گھنٹے گانا بجانا، غضب، حق تلفی ،قتل و غارت گری، تعصب، بد دیانتی ، اقربا نوازی ، خویش پروری ، حرص ولالچ ، دھوکہ اور فریب دہی کے اعمال ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سب اعمال کہاں جاتے ہیں۔۔۔۔۔بلا شبہ دعا میں اگر صدق نہ ہو، گداز نہ ہو، ایسا گداز جو وجدان کو حرکت میں لے آئے تو ایسی دعا کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو آپ کے غیر حقیقی اعمال کا ہوتا ہے۔ اس قسم کی جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ سب  بے کار اور ند نصیبی پر محمول کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان بد نصیبی اور پھٹکار کے شکنجے میں اس طرح جکڑ گیا ہے کہ اب مسلمان کو قرون اولیٰ مسلمان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمان بڑی ہی مصیبت اور بد حالی کا شکار ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے۔۔۔۔۔ایک طرف  واعظ اور اس کی مصلحتوں کا پھند ا پڑ ا ہوا ہے اور دوسری طرف سرمایہ دار حضرات نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ 

          ہم اللہ سے دعا مانگتے ہیں تو ہمارا ذہن روٹی ، کپڑے سے باہر قدم ہی نہیں رکھتا۔ ہمیں مصیبتوں ، پریشانیوں اور بیماریوں ہی سے کب فرصت ملتی ہے کہ ہم ذہنی سکون کے ساتھ دعا کرنے کے قابل ہوں۔

           اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیئجے کہ قوم نام ہے افراد کا ۔ افراد جب اپنے نبی کے مشن سے دور ہوجاتے ہیں تو ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے اور احساس کمتری صلاحیتوں کو نیست و نابود کردیتا ہے ۔ شیطانی گروہ اللہ کی  مخلوق کی  اس کمزوری سے وا قفیت کی بناء پر ہمیشہ اس بات کو کوشش کرتا ہے کہ جس طرح بھی ہو ان کو اس احساس سے نہ نکلنے دیا جائے۔

          اللہ کا ارشاد ہے کہ

                   اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے پر خرچ نہیں کر ڈالتے پس ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔

          صاحب اختیار لوگ اپنے مخصوص رہن سہن اور اپنے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے ذریعہ اللہ کی مخلوق  کو اتنا ہراساں کر دیتے ہیں کہ ان کا ذہن ماؤف ہوجاتا ہے اور دماغ تعطل کا شکار ، یکسوئی اور آزاد ذہن کی نشوونما نہیں ہوتی اور یہ احساس کمتری کا وہ درجہ ہے جہاں پوری قوم انسانیت کے دائرے سے نکل کر بھیڑ اور بکریوں کو صف میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس آیت کو پڑھئے اور غور کیجئے

                   جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر تغیر نہیں چاہتی، اللہ اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں فرماتے۔

                    جب قوم اپنے اندر تبدیلی چاہتی ہے تو گروہ ملائکہ اس قانون کے تحت اس امر پر کار بند رہتے ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ فرشتے ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق ان کے دائیں بائیں، آگے پیچھے رہ کر شیطانی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں اور جو حشر شیطانی طاقتوں کا ہوتا ہے، اس سے آپ کی زمین کی تاریخ بھری پڑی ہے۔

          دعاؤں کے ساتھ عمل نہ ہو، کردار نہ ہو ، اخلاق نہ ہو تو یہ دعائیں بھی زمین کے کناروں سے باہر نہیں نکلتیں ۔ اللہ کے قانون کے مطابق  وہ دعائیں مقبول بارگاہ ہوتی ہیں جن کے ساتھ مسلسل اور پیہم عمل ہو۔ سیدنا حضور کی مقدس اور مطہر زندگی ہمارے سامنے ہے۔ حاصل کائنات ، اللہ کے پیارے نبی نے محض زبانی جمع خرچ کا درس نہیں دیا، مسلسل حرکت اور جووجہد سے تعبیر زندگی کا اعلیٰ و ارفع نمونہ پیش کیا ہے۔

          ہم زبانی دعویٰ تو بہت کرتے ہیں مگر عمل کے میدان میں ہماری حیثیت برگ و بار کی نہیں ، کانٹوں کی ہے۔ کون نہیں جانتا جھوٹ ، اقربانوازی ، ذخیرہ اندوزی، غیبت ، آپس میں پھوٹ ڈالنا ، دوسروں کو کمتر جاننا ، زندگی کے بلند معیار کے فسوں میں خود کو گرفتار کر لینا کربناک عذاب ہے۔ہم دوزخ کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ہاتف غیبی آوازیں دے رہا ہے کہ جدھر تمھارا رخ ہے وہ ہلاکت کی راہ ہے مگر افسوس سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود ہم نے اپنی زندگی کو عقوبت خانہ بنا لیاہے۔

                              دعا گو                                                                                                                              عظیمی                                                                                                                               دسمبر  ۱۹۸۶    

                              1-D-1/7، ناظم آباد ۔کر اچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔