Topics
السلام علیکم
یقین ہے آپ خیریت سے ہیں۔ سوال یہ
ہے کہ زندگی میں بہت کچھ میسر ہونے کے باواجود آدمی ان باتوں کی طرف زیادہ متوجہ
کیوں رہتا ہے جو میسر نہیں ہوتیں۔ جبکہ ضروریات سب کی پوری ہو جاتی ہے ۔ منفی سوچ
عام اور آدمی مثبت سوچ سے دور کیوں ہے؟
شکریہ
عزیزہ برخوادری غوثیہ احمد
وعلیکم
السلام ورحمتہ اللہ
یہ ایسے
سوالات ہیں جو ہر زی فہم اور باشعور آدمی کے ذہن میں گشت کرتے رہتے ہیں اور جب ان کا شافی و کافی جواب نہیں
ملتا تو بہت سے لوگ گم کردہ راہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ نہ سمجھنے کی پاداش میں خود
فراموشی ان کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے اور وہ اس ہستی سے دور ہو جاتے ہیں جو کائنات
مین موجود سارے کارخانوں کی مشینوں کے ایک ایک پرزہ کو انرجی بخش رہی ہے۔
منفی سوچ
اتنی زیادہ عام ہے کہ آدمی ان چیزوں سے خوش نہیں ہوتا جو اسے حاصل ہیں۔ ان
خواہشات کے پیچھے سرگرداں ہے جن کے حصول
میں وہ اعتدال کی زندگی سے روگردانی پر مجبور ہیں۔ ہر شخص خیالات میں غلطاں و پیچاں،
ارد گرد سے بے نیاز، چہروں پر غم و آلام کی تصویریں سجائے اپنی دنیا میں مگن ہے۔
یہاں وہ بھی پریشان ہے جس کے پاس سونے چاندی کا ذخیرہ ہے، وہ بھی دل گرفتہ ہے جس
کے پاس کچھ نہیں ہے۔
بیماریوں
پریشانیوں، خود نمائی اور احساسِ کمتری کے دبیز سایوں نے اپنی گرفت میں لیا ہوا
ہے۔ جتنے لوگ ہیں ان کے اتنے ہی مسائل ہیں مگر ایک بات سب میں مشترک ہے کہ سکون
کسی کو حاصل نہیں۔ سب کے ماتھوں پر بے اطمینانی ، عدم تحفظ اور محرومی کی شکنیں
پڑی ہوئی ہیں۔ سب شکست خوردہ اور نفرت و حقارت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ دولت کی ہوس
اور معیار ِ زندگی بلند ہونے کے تقاضوں نے اولاد آدم کے لئے دنیا کو دوزخ بنا دیا
ہے۔ وجہ تلاش کی جائے تو ایک ہی بات سمجھ میں اتی ہے کہ ہم صبر و استغنا کی نعمت
سے محروم ہیں۔ اللہ کارشاد ہے۔
اللہ
صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ البقرہ : ۱۵۳
مفہوم یہ
ہے کہ جو لوگ صابر و شاکر نہیں ہیں وہ خود اپنے ارداہ سے مشیت سے دور ہو جاتے ہیں۔
اللہ سے دوری سکون و عافیت اور اطمینان قلب سے محرومی ہے۔ یہ محرومی صبر و استغنا
کی لذت سے نا آشنا کر دیتی ہے۔
صبر و استغنا وہ
تلوار ہے جس سے ہم مسائل و مشکلات اور عدم تحفظ کی
زنجیریں کاٹ کر پھینک
سکتے ہیں۔ جب کسی فرد کو صبر و استغنا کی دولت
مل جاتی ہے تو اس پر
مصائب و مشکلات کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔
من حیث القوم صبر و استغنا
کسی قوم کے مزاج میں رچ بس جاتا ہے تو
معاشرہ سدھر جاتا ہے۔
قومیں حقیقی فلاح و بہبود کے راستوں پر گامزن
ہو جاتی ہے۔
یاد
رکھیئے! سکون دل اور خوشی کوئی خارجی شے نہیں ہے، یہ ایک اندرونی کیفیت ہے۔اس
اندرونی کیفیت سے وقوف حاصل ہوتا ہے تو ہمارے اوپر اطمینان و سکون کی بارش بسنے
لگتی ہے۔ بندہ اس ہمہ گیر طرز ِ فکر سے آشنا ہوتا ہے تو حقیقی مسرت و شادمانی سے
ہم کنار ہو جاتا ہے۔۔۔ اسے سکون کی دولت مل جاتی ہے۔
دعاگو
عظیمی
دسمبر
۱۹۹۸ ء
مرکزی
مراقبہ ہال، کراچی
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔