Topics

محمد عارف (لاہور)

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          خواجہ صاحب! میں نے سلاسل کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں۔ آپ کی تحریروں کا ذخیرہ میرے پاس محفوظ ہے اب تک جو کچھ میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ کا مشن دنیا والوں کو سکون آشنا  زندگی سے واقف کرنا اور سکون بانٹنا ہے۔

          انفرادی حیثیت میں توبات سمجھ آتی ہے مگر اجتماعی طور پر ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں افراتفری کا ایک عالم برپا ہے۔ ہر شخص کسی نہ کسی الجھن میں گرفتار ہے، ذہنی سکون ختم ہو گیا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس نے آدمیوں کی اکثریت کو زہرناک بنا دیا ہے۔اخبارات  آئے دن حادثات اور انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہونے کی خبریں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں کبھی بموں کے دھماکے کبھی فلک  بوس عمارتوں کے سرنگوں ہونے اور ان کے نیچے بندگان خدا کے ہلاک ہونے کی دل سوز اور وحشت اثر خبریں ہمارے سامنے آتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

          آپ سے گزارش ہے کہ ان اجتماعی تباہ کاریوں کا عقدہ بھی کھولئے شاید قوموں کے افراد کو آپ کی بات سمجھ آجائے اور دنیا میں پیار و محبت  اور یگانگت جگہ لے لے اور اس طرح اجتماعی سکون مل سکے۔

     محمد عارف (لاہور)

 

          وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ ہم آفات ارضی و سماوی یلغار کی زد میں ہیں بظاہر ان المناک واقعات کے ہونے کی یہ توجہیہ پیش کی جا سکتی ہے کہ تعمیر ہوس زر کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہے یا زمین کے اندر ردوبدل اس کا سبب ہے۔

          یہ باتیں بظاہر کتنی ہی معقول اور وزنی ہوں لیکن اگر ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق انسانی معاشرہ میں آباد لوگوں کے جرائم اور خطا کاریاں ارضی و سماوی آفات اور ہلاکتوں کو دعوت دیتی ہیں۔

 

جب کوئی قوم قانون خداوندی سے انحراف و گریز کرتی ہے اور خیر و شر کی تفریق

کو نظر انداز کر کے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو افرادکا یقین کم سے کم ہو

 جاتاہے پھر آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی قوت معدوم ہو جاتی ہے اور عقائد

میں شک و وسوسہ غالب آجاتے ہیں۔ بے یقینی کی بنا پر قوم توہمات میں مبتلا ہو جاتی

ہے۔ اس کی وجہ سے آدمی میں طرح طرح کے اندیشے اور وسوسے پیدا ہوتے ہیں

حرص و ہوس انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں بے یقینی اور توہماتی قوتیں مکمل

طور پر اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔

          یہی وہ مقام ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے  محروم ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی کا محور اللہ تعالیٰ کی بجائے ظاہری اور مادی وسائل بن جاتے ہیں اور جب کسی قوم کا انحصار در وبست مادی وسائل پر ہو جاتا ہے تو آفات ارضی و سماوی کا لامتناہی سلسلہ  عمل میں آنے لگتا ہے۔۔۔ نتیجتاً افراتفری کا عالم برپا رہتا ہے۔۔۔ قوموں کے افراد کسی نہ کسی شکل میں الجھنوں کا شکار رہتے ہیں ۔۔عدم تھفظ کا احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بھائی بھائی سے خوف کھانے لگتا ہے۔۔حتیٰ کہ اپنا سایہ بھی اسے ایک ڈراؤنا ہیولا نظر اتا ہے۔

          خون کی رنگت میں سفیدی آ جاتی ہے اور بھائی ، بھائی کی قیمتی جان ضائع کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے۔ نتیجہ میں ذہنی سکون کی جگہ خوف لے لیتا ہے۔

          ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ شک و بے یقینی کو دماغ میں جگہ دینے سے منع فرماتے ہیں۔ یہ وہی شک اور وسوسہ ہے جس سے آدم علیہ اسلام کو باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جس کے سبب ہمارے باپ آدم علیہ السلام کو جنت کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑا۔ شکوک و وسوسے ہی در اصل انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی تباہ کاریوں کا سبب ہیں۔

                                                                                      دعاگو

                                                                                      عظیمی

                                                                                      جنوری ۲۰۱۴ ء

                                                                                      ماہنامہ قلندرشعور، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔