Topics
آدم کی اولاد میں زندگی
گزارنے کے لئے یہ دونوں رخ موجود ہیں۔ ہرانسان روزانہ ان دونوں رخوں میں رد و بدل
ہوتا رہتا ہے۔ ان دونوں رخوں کے تجربات ہی انسان کی پوری زندگی ہے۔
ایک رخ کا تجربہ ہمیں دن کے
وقت بیداری میں اور دوسرے رخ کا تجربہ رات کے وقت خواب میں ہوتا ہے۔ ان دونوں رخوں
کو شعوری حواس اور لاشعوری حواس کہا جاتا ہے۔
روحانی علوم کے مطابق
شعوری حواس یعنی حواس خمسہ والا دماغ انسان کو مادی دنیا میں قید رکھتا ہے اور
لاشعوری حواس کا دماغ انسان کو لامحدود غیب کی دنیا سے متعارف کراتا ہے۔
سائنسی ماہرین کے مطابق
دماغ کے دونوں حصے یعنی دایاں اور بایاں دماغ مختلف قسم کے حواس بناتے ہیں۔
دائیں دماغ کا تعلق
لاشعوری حواس سے ہے اور بائیں دماغ کا تعلق شعوری حواس سے ہے۔ دایاں دماغ وجدانی
دماغ ہے اور بایاں دماغ منطقی اور تنقیدی دماغ ہے۔ دائیں دماغ میں لامحدود علوم
ہیں اور بائیں دماغ میں محدود علوم کا ذخیرہ ہے۔
انسانی دماغ اور یاداشت
پر کام کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم ۸۰۰ یادداشتیں فی
سیکنڈ کے حساب سے اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتے جائیں تو اس میں اتنی گنجائش ہے کہ ہم
لگاتار بغیر کسی وقفہ کے ۷۵
سال تک یادداشتیں ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ اگر انسانی دماغ کی صلاحیتوں کے برابر کوئی
کمپیوٹر بنایا جائے تو اس کا سائز ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ جس کی بلندی ۱۲۵۰ فٹ ہے، کے برابر
بنے گا اور اسے چلانے کے لئے ایک ارب واٹ (Watt) بجلی درکار ہو گی۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذہن ترین آدمی
اپنی پوری زندگی میں ۵
سے ۱۰
فیصد دماغ کا استعمال کرتا ہے اور ۹۰ فیصد دماغ استعمال کئے بغیر مر جاتا
ہے۔
مشہور سائنس دان آئن
سٹائن جسے دنیا جینئیس مانتی ہے اس کا دماغ امریکہ کی لیبارٹریوں میں محفوظ ہے۔
بڑے بڑے محققین نے اس پر عمیق ریسرچ محض اس غرض سے کی ہے کہ وہ کسی طرح یہ جان لیں
کہ آئن سٹائن کی دماغی ساخت میں ایسی کون سی صلاحیت تھی، جس نے اسے جینئیس بنایا تھا۔
لیکن ابھی تک انہیں ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی جو عام آدمی کے دماغ اور جینئیس
آدمی کے دماغ میں امتیاز پیدا کر سکے۔ محققین کا خیال ہے کہ شاید آئن سٹائن کے
دماغ میں Data Processingیعنی
نتائج مرتب کرنے کی صلاحیت عام لوگوں سے زیادہ تھی۔ جبکہ دماغی ساخت میں کوئی فرق
نہ تھا۔
جن نظریات کی وجہ سے آئن
سٹائن کو اس صدی کا عظیم اور جینئیس سائنس دان کہا جاتا ہے ان کے بارے میں اس نے
خود کہا تھا کہ وہ Theroriesاس
نے خود نہیں سوچی تھیں بلکہ وہ اس پر الہام ہوئی تھیں۔ یاد رہے یہ وہی آئن سٹائن
تھا جو اسکول کے زمانے میں اسکول کا نالائق ترین طالب علم شمار کیا جاتا تھا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک نالائق ترین اسٹوڈنٹ جینئیس کیسے بن گیا؟
دنیا بھر میں Sleep Laboratoriesمیں
ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلا تخصیص جینئیس اور عام آدمی جب سوتا ہے تو
اس کا دماغ Data Processingکا
کام شروع کر دیتا ہے۔
بیداری کے وقت انسانی
دماغ میں چلنے والی برقی رو ایک مخصوص حد تک کام کرتی ہے تو شعور ٹھیک کام کرتا ہے
اگر ان لہروں میں اضافہ ہو جائے تو انسان پریشانی اور بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے
اور دماغی صلاحیتوں کے استعمال میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ان لہروں کی مزید زیادتی
جسم کے مدافعی نظام کو سخت متاثر کرتی ہے اور انسان پر بے ہوشی کے دورے پڑنا شروع
ہو جاتے ہیں۔
فی زمانہ زیادہ تر لوگ بائیں دماغ کے زیر تسلط ہیں۔ بایاں دماغ وہی دماغ ہے جس میں
نسیان کا عمل دخل ہے۔ یعنی کائناتی علوم کی بے خبری سے انسان مصائب و مشکلات میں
مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دن کے وقت اس دماغ کا بے دریغ استعمال ہوتا رہتا
ہے اور وجدانی دماغ استعمال ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا انسان کائنات کے حقیقی علم سے بے
بہرہ رہتا ہے اور جب یہ بھول چوک والا دماغ دن بھر کام کر کے تھک جاتا ہے تو بے سدھ
و بے خبر ہو کر ایسا ہوتا ہے کہ اسے وجدانی دماغ کی کارگزاریوں کی خبر نہیں ہوتی۔
اس کا آسان علاج یہ ہے کہ انسان اپنے وجدانی دماغ (خواب کے حواس) سے بھی رابطہ
قائم کرے اور اپنے شعوری دماغ میں اتنی سکت پیدا کرے کہ وہ لاشعوری اور وجدانی
دماغ کی کارگزاریوں سے واقف ہوتا رہے۔ اس صورت میں دماغ آدھے یونٹ کے طور پر نہیں
بلکہ پورے یونٹ کے طور پر کام کرے گا۔ اس طرح دنیاوی معاملات میں غلطیوں،
پریشانیوں، تکلیفوں اور پیچیدہ بیماریوں کے امکانات حیرت انگیز طور پر کم ہو جائیں
گے۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس
وقت انسانی صلاحیتوں سے بہتر سے بہتر کام لینے پر جتنی بھی ریسرچ ہورہی ہے اور طرح
طرح کی جو اختراعات ہو رہی ہیں ان سب کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح دائیں دماغ
اور بائیں دماغ کا رابطہ قائم ہو جائے۔ دائیں دماغ اور بائیں دماغ میں رابطہ قائم
ہونے سے انسان مخفی علوم اور غیب کی دنیا سے واقف ہو جاتا ہے۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔