Topics
نوع انسانی کو جب سے حواس
عطا ہوئے ہیں وہ کچھ نہ کچھ سوچنے سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے کی عادی ہے۔ آج تک
شعوری علم کی کوئی شاخ خواہ وہ فلسفہ ہو، علم طب ہو، علم نباتات و حیوانات ہو،
کیمیا ہو، طبیعات ہو، نفسیات ہو یا مابعد نفسیات، اس کا تعلق تعمیرات سے ہو،
لاسلکی نظام سے ہو، مواصلات کے علم سے ہو، جنیٹیک انجینئرنگ سے ہو۔۔۔۔۔۔اس کی
بنیاد موج امکانی (لازمانیت) کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بات نوع انسانی کو کبھی معلوم
نہیں ہو سکی کہ زمانیت اور مکانیت کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ
انسان کے ذہن کو صرف خارجی دنیا کنٹرول کرتی ہے اور خارجی دنیا ہی دماغی سطح پر
صورتیں بناتی ہے۔ نیز حواس کا کنٹرول خارجی دنیا کے ہاتھ میں ہے۔ محض مظالعہ ہے۔
موج امکانی کائنات کی
بساط ہے۔ اور موج امکانی کسی طرح خارجی نہیں ہو سکتی اور نہ داخلی ہو سکتی ہے۔ یہ
بنیادی غلطی ہے کہ موج امکانی کو کسی دائرہ میں خواہ وہ اخارجی ہو یا داخلی محدود
کر دیا جائے۔ بہرصورت ہمارے حواس کی ڈوری جہاں سے اپنی جنبش شروع کرتی ہے وہ
لازمانیت ہے۔ لازمانیت کا خارج اور داخل نہیں ہوتا۔ معلوم اور نامعلوم کے درمیان
خود ہمارے حواس نے پردہ کھینچ لیا ہے۔ لازمانیت کا اس پردے سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمارے حواس خواب میں بھی اسی طرح تحریک پاتے ہیں جس طرح بیداری میں حواس کے اندر
تحریکات پیدا ہوتی ہیں۔
ہمارے حواس میں مسلسل
تغیر ہوتا رہتا ہے۔ وہ حواس زمانی ہوں یا مکانی، دراصل حواس میں تغیر ہی وقفہ ہے۔
انسانی دماغ دو طرح کام کرتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ وقفوں میں طوالت ہوتی ہے اور
دوسری حالت یہ ہے کہ وقفوں میں طوالت کی جگہ محوری گردش ہوتی ہے۔ جب طولانی حرکت
ہوتی ہے تو یہ وقفہ بیداری کے حواس بن جاتا ہے اور جب وقفہ محوری گردش میں ہوتا ہے
تواس کا نام خواب ہے۔
زندگی کا تجزیہ کرنے سے
یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساری زندگی دراصل حواس میں تغیر اور تغیر کے ساتھ رد وبدل
کا نام ہے۔ انسانی زندگی دو طرح حرکت کر رہی ہے۔ ایک یہ ہے کہ اوپر سے زندگی کے
تمام احساسات کا نزول ہو رہا ہے اور دوسرے یہ کہ زندگی میں کام کرنے والے احساسات
صعود کر رہے ہیں۔ صعود و نزل کے اس قانون کو جاری و ساری رکھنے کے لئے قدرت نے یہ
نظام قائم کیا ہے کہ دونوں وقفے متحرک رہیں۔ محوری گردش کے وقفے خواب میں کام کرتے
ہیں اور طولانی گردش کے وقفے بیداری میں کام کرتے ہیں۔ زندگی کی بساط چونکہ محوری
گردش کے وقفوں پر ہے اس لئے طولانی گردش کے وقفوں کا محوری گردش کے وقفوں سے مسلسل
اور متواتر ربط قائم رہنا ضروری ہے۔
ہماری زندگی کا یہ معمول
ہے کہ ہم سونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں اور بیدار ہونے کے بعد سو جانے پر مجبور ہیں۔
انسانی زندگی کا سارا
ریکارڈ لاشعور میں ذخیرہ ہے۔ لاشعور سے شعور میں زندگی منتقل ہو رہی ہے۔ اگر ہم
خواب نہ دیکھیں تو شعور میں حواس منتقل نہیں ہوں گے۔ ہم خواب اس لئے دیکھتے ہیں کہ
شعوری زندگی تعمیر کرنے والے حواس میں کام کرنے والی انرجی کا ذخیرہ جب ختم ہو
جاتا ہے وہ لاشعور سے شعور میں دوبارہ جمع ہو جائے۔ اگر ہم خواب نہیں دیکھیں یگ
یعنی سوئیں گے نہیں تو زندگی کو تحریک دینے والا ذخیرہ شعور میں منتقل نہیں ہو گا۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔