Topics

خواتین کے خواب

اللہ کی آواز:

خواب میں دیکھا کہ میں کسی مقام پر بیٹھی سورۃ رحمٰن پڑھ رہی ہوں۔ ابھی پہلا لفظ پڑھا تھا کہ میرے سامنے ایک ستارہ چمکنے لگا۔ جو بہت روشن تھا۔ میری نگاہ ستارے کی طرف گئی ستارہ اپنی جگہ سے ہٹنے لگا۔ ہٹتے ہٹتے وہ بادل کے اس ٹکڑے کے پاس چلا گیا جہاں پہلے سے ایک خوبصورت شکل بادل میں سے جھانک رہی تھی۔ ستارہ اس کی خوبصورت پیشانی پر چمکنے لگا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ رسول اللہﷺ ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ تم نے دنیا میں آ کر اپنا وعدہ بھلا دیا ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ روز محشر تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب میں نے چودہ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔

میں نے خواب دیکھا کہ میں مدینہ شریف پہنچ گئی ہوں۔ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک شق ہو گئی ہے اور حضورﷺ باہر تشریف لے آئے ہیں ایک ہاتھ میں تھالی تھی جس میں سفید گلاب کے پھول تھے اور ایک طرف بڑی بڑی کھجوریں تھیں آنحضرتﷺ نے مجھے کھجوریں عطا فرمائیں۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:’’خدا تیرا دین و دنیا میں بھلا کرے۔‘‘ اس طرح تین بار فرمایا اور تشریف لے گئے۔

ایک بار میں نے دیکھا کہ کوئی مجھے آسمان پر لے جا رہا ہے۔ ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہوں۔ میں نے ایک آواز سنی یہ آواز اس قدر سریلی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ آواز نے کہا، ’’آسمان پر رہنے والے سب تم سے خوش ہیں یہاں تک کہ میں بھی تم سے خوش ہوں۔‘‘ ساتھ ہی سفید رنگ کی روشنی فضا میں بلند ہوئی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ آواز اللہ کی ہے۔

(سائرہ)
تعبیر:
یہ تینوں خواب بجائے خود تعبیر ہیں اور یہ اس علم کی برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔ خواب ثابت کرتے ہیں کہ آپ قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کرتی ہیں اور اس کے معنی اور مفہوم پر غور اور تفکر کرتی ہیں۔ قرآن پاک کے ارشاد کے مطابق زندگی گزارنے کی پوری پوری کوشش کرتی ہیں۔ آپ کی روح اتنی پاکیزہ اور منور ہے کہ آپ کو جب بھی خاندان والوں سے تکلیف پہنچی آپ نے انہیں اللہ کے لئے معاف کر دیا۔ آپ کی ذہنی تکلیف آسمانوں میں روح کی سیر سے فرحت و انبساط میں بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور ترقی دیں۔

سورۃ رحمٰن کی برکت:

مجھے خواب میں رسول کریمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی دیکھا کہ ایک بہت بڑے میدان میں ہوں جس کے چاروں طرف سبزہ زار اور کھیت تھے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھائی۔ پیچھے سب خواتین تھیں۔ میں بھی سب سے پچھلی صف کے وسط میں کھڑی تھی۔ جب آپﷺ نے سجدہ کیا ہم سب نے بھی سجدہ کیا پھر میں سجدے کی حالت میں رینگتی ہوئی آپﷺ سے ایک قدم پیچھے پہنچ گئی۔ جب سجدے سے اٹھے تو میں بالکل آپﷺ کے پیچھے کھڑی تھی۔ پھر آپﷺ نے سلام پھیرا۔ دعا فرمائی، میں نے آمین کہا اور پھر آپﷺ نے ۳۳ دانوں والی سبز رنگ کی تسبیح مجھے دی اور خود اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ان کھیتوں کی طرف چلے گئے اور میں تسبیح لے کر گھر آ گئی۔

میں اکثر خواب میں قرآن شریف کی تلاوت باآواز بلند میدانوں میں بہت بڑے اجتماع کے سامنے کرتی ہوں۔ میں اکثر سورہ والضحیٰ پڑھتی ہوں۔ اس کے علاوہ سورہ فاتحہ، سورۃ یٰسین، سورۃ نور، سورۃ رحمٰن کی تلاوت کرتی ہوں۔

(یمامہ بتول)

تعبیر:
خواب بجائے خود تعبیر ہے۔ خواب کے خاکے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ حافظہ قرآن ہیں آپ کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیں۔ معانی اور مفہوم میں خود بھی تفکر کریں اور ان بچیوں کو بھی تفکر میں اپنے ساتھ شریک کریں۔


المقتدرُ۔الاحدُ:
رات میں درود شریف پڑھتے پڑھتے سو گئی خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں اور ایک حصے پر بادل نہیں ہیں اور وہاں پر المقتدرُ، الاحد اور محمد کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور یہ الفاظ بڑے بڑے لکھے ہوئے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے گویا چاند کو کاٹ کر لکھے گئے ہیں اور چاند کی طرح روشن ہیں۔ ساتھ میں بارش بھی ہو رہی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے منہ پر پھوار پڑ رہی ہے۔ پھر مجھے اٹھا کر کسی نے سجدے میں ڈال دیا۔ میری پشت پر کچھ وزن محسوس ہوا۔ دل میں خیال آیا سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پائے مبارک کا وزن ہے۔ پھر مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں بہت ہلکی ہو گئی ہوں اور میرے جسم میں سے لہریں نکل رہی ہیں۔

(کنول)
تعبیر:
آپ کی پشت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقدس و مطہر پیر کا دباؤ وظیفہ کی مقبولیت کی علامت ہے۔ اللہ مبارک کرے۔

لڑکے کی پیش گوئی:

میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دربار لگا ہوا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سامنے تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ آپﷺ سے کچھ فاصلے پر حضرت عائشہؓ اور سیدہ فاطمہؓ بیٹھی ہوئی ہیں۔ پھر حضرت عائشہؓ آپﷺ کے پاس آتی ہیں ان کے ہاتھ میں ایک تھیلی ہے جس میں کچے چاول ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، ’’عائشہ اسے چاول پکا کر اپنے ہاتھ سے کھلا دو۔‘‘ یہ سن کر میں حضرت عائشہؓ کے ہاتھ سے چاول کی تھیلی لے لیتی ہوں اور ان کے قدموں پر گر کر کہتی ہوں کہ میں خود پکا لوں گی اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

خواب میں دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک حوض کے کنارے کھڑے ہیں دوسرے کنارے پر میں کھڑی ہوں۔

آپﷺ نے فرمایا، ’’ میں تم سے خوش ہوں۔‘‘ پھر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اللہ تمہیں ایسا لڑکا دے گا جو دیندار ہو فرمانبردار ہو گا۔ اس کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔

خواب میں دیکھا کہ آسمان پر تیز بجلی چمکی اور بل کھاتی ہوئی میرے پیٹ میں داخل ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ہوا میں معلق ایک تصویر سامنے آئی جو ایک کمزور سے بچے کی تھی۔ میں اسے دیکھنے لگی تو آواز آئی، ’’اس بچے کا نام دنیا میں اور آسمانوں میں روشن ہو گا۔‘‘

ذہن نے محسوس کیا کہ یہ لڑکا میرا ہے۔ ساتھ ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ لڑکا اتنا کمزور ہے بھلا یہ کیا کرے گا۔ پھر آواز آئی کہ خدا ایسا ہی کرے گا۔

تعبیر:
خواب بہت مبارک ہیں۔ آپ کے اندر طبیعت کی پاکیزگی اور دین سے لگاؤ ہے۔ قرآن پاک میں تفکر کرنے کی عادت بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ نے آپ کو مستجاب الدعوات بنایا ہے۔ انشاء اللہ آپ کے ہاں اللہ تعالیٰ ایسا بچہ پیدا فرمائے گا جس کو آپ کی نیک طبیعت کا ورثہ ملے گا اور یہ بچہ مقبول بارگاہ ہو گا۔ آپ کے لئے اس فقیر کا مشورہ ہے کہ آپ کسی صاحب روحانیت کے زیر نگرانی تصوف کی راہوں میں آگے بڑھنے کا پروگرام بنائیں۔ انشاء اللہ کامیابی آپ کا مقدر ہو گی۔

روحانی خاتون:

خواب میں دیکھا شام کا وقت ہے۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگا ہے۔جیسے مغرب کا وقت ہو سامنے سڑک اور سڑک کے اس پار چند شکستہ مکانات ہیں۔ اچانک میری نظر سامنے پڑتی ہے تو دیکھتی ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک ایک روشنی کے ہیولیٰ میں اوپر نیچے اڑتا ہوا جا رہا ہے اور بہت چمک رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہوں۔ اٹھ کر کھڑی ہو جاتی ہوں اور درود شریف پڑھتی ہوں۔ اچانک میری نظر گلی میں آتے ہوئے ایک شخص پر پڑتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک ان کے آگے آگے چل رہا ہے۔ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں ہاتھ میں تسبیح اور پاؤں میں کھڑاویں ہیں۔ کاندھے پر چادر یا کمبل ہے۔ رنگ سانولا ہے، میں ان کو دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہو جاتی ہوں۔ اور اپنی بہنوں سے کہتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لا رہے ہیں، کھڑی ہو جاؤ۔ میں ادب سے کھڑی ہو کر درود شریف پڑھتی ہوں۔ اچانک وہ میری طرف نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں تو میں کہتی ہوں، ’’یا رسول اللہ! السلام علیکم‘‘ اور پھر درود شریف پڑھتی ہوں اچانک میری نظر آپﷺ کے پیروں پر پڑتی ہے۔ آپﷺ پیروں میں چاندی کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے ہیں۔ جن میں جواہرات جڑے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پتھروں سے کیا دلچسپی ہے یہ کوئی صحابی یا کوئی اور بزرگ ہیں۔ پھر سوچتی ہوں اگر یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نہیں تو ان کا نام مبارک کیوں ان کے آگے آگے چل رہا ہے۔ اسی سوچ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

(حنا یاسمین)

تعبیر:
خواب نہایت مبارک اور مسعود ہے۔ الحمدللہ کہ آپ کو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے دلی لگاؤ ہے اور آپ درود شریف کا ورد کرتی رہتی ہیں۔ لیکن درود شریف پڑھنے میں جتنی احتیاط لازم ہے اور جتنی پاکیزگی ضروری ہے وہ آپ نہیں کر پاتیں۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے درود شریف پڑھنے کے بجائے رات کو سوتے وقت پڑھا کریں اور جس جگہ درود شریف کا ورد کریں وہاں خوشبو کا اہتمام ضروری ہے۔ انشاء اللہ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ اقدس سے فیض نصیب ہو گا۔ چاندی کی انگوٹھی میں جواہرات کا مطلب یہ ہے کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چل کر بہت بڑی روحانی خاتون بن سکتی ہیں۔ حضورﷺ کی بارگاہ اقدس سے آپ کو فیض نصیب ہو گا۔ ایسا فیضان جس سے اللہ کی مخلوق روحانی طور پر سیراب ہو گی۔

روحانی صلاحیت:

خواب میں دیکھاحضور سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں۔ آپﷺ سے کچھ فاصلے پر میری بہن نگہت بیٹھی ہے اور دوسرے صوفے پر ابا جان بیٹھے ہیں۔ آپﷺ نگہت سے اور اباجان سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہیں۔ آپﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ ہنسنے کی وجہ سے گلابی ہو گیا ہے۔ میں ڈرائنگ روم میں آتی ہوں۔ اس وقت میرے سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا۔

(رضوانہ شفیع)

تعبیر:
خواب اچھا ہے لیکن ساتھ ہی ضمیر نے احتجاج بھی کیا ہے کہ مذہبی معاملات میں آپ سے کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں۔ اگر ان کوتاہیوں پر قابو پالیا جائے تو آپ کی روحانی صلاحیتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کی نشست:

عشاء کی نماز پڑھ کر لیٹ گئی فوراً نیند آ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن ہے۔ زمین پھٹ گئی ہے اور ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ میں پانی میں کسی چیز پر کھڑی ہوں۔ پانی میں میری ٹانگیں گھٹنوں تک بھیگ گئی ہیں اور میں رو رہی ہوں اور اللہ تعالیٰ سے کہہ رہی ہوں کہ قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے کہ ہم امت رسولﷺ پر کوئی ظلم نہیں کریں گے تو کیا یہ جھوٹ ہے جو میں اس وقت ڈوب رہی ہوں۔ بس اتنا کہنا تھا کہ کسی نے میرا سیدھا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا۔ اوپر ایک بہت بڑا میدان ہے۔ جہاں عجیب قسم کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی ہے ایک طرف بہت بڑا سفید خوبصورت تخت ہے۔ جس پر اللہ میاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دل میں پورا یقین ہے کہ یہ اللہ میاں ہیں اور تخت کے پاس بہت خوبصورت آدمی سفید لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ ان حضرات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام ہیں اور تخت سے کچھ دوربہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ سب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور سب ایک ہی لباس اور ایک ہی شکل کے ہیں۔ تخت کے برابر جائے نماز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں اور رو رہے ہیں اور ہاتھ باندھے اللہ سے امت کی بخشش کی دعا مانگ رہے ہیں، ’’اللہ میاں تو میری امت کو بخش دے۔‘‘ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ تم کیوں رو رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی کہا کہ بس میری امت کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے جیسے ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا قبول کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب کو جنت میں دھکیل دیا۔ میں جنت کے دروازے کے اندر کھڑی ہوئی رو رہی ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہہ رہی ہوں کہ امی، دادی سب لوگ کہاں ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ بھی ابھی آ رہے ہیں۔ پھر ایک دم آنکھ کھل گئی۔

(سعیدہ انگلینڈ)

تعبیر:
خواب بجائے خود تعبیر ہے اور ہمارے لئے لمحہ فکر ہے کہ ہم من حیث القوم کیا کر رہے ہیں اور رحمت اللعالمین ہمارے لئے اللہ کے حضور کس طرح رو رو کر دعا کر رہے ہیں۔

حضور اکرمﷺ کا دربار:

رات کا وقت ہے۔ پرسکون فضا ہے۔ گہری خاموشی ہے۔ میں بالکل اکیلی اپنے گھر کی چھت پر کھڑی ہوں۔ اچانک آسمان سے تقریباً تین فٹ چوڑا اور اتنا ہی لمبا سفید کاغذ اڑتا ہوا آیا اور میرے پاس آ کر رک گیا۔ میں نے اسے پکڑ کر دیکھا تو اس پر نہایت چمکیلے حروف میں اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نام مبارک لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھتے ہی مجھے ایک عجیب سی خوشی محسوس ہوئی۔
پچھلے رمضان میں خواب دیکھا کہ میں اسکول میں چند لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہوں۔ کسی نے آکر اطلاع دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف لائے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں اسکول سے باہر آ گئی۔ میں نے ایک بہت بڑا بازار دیکھا۔ وہاں ایک مجمع لگا ہوا تھا۔ میں وہاں گئی اور لوگوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے کہا ابھی ابھی یہاں سے گئے ہیں۔ میں رونے لگی۔ راستے میں ہر آدمی سے پوچھتی تو وہ جواب دیتا کہ آپﷺ بس ابھی ابھی یہاں سے گئے ہیں۔ میں یہ سن کر پھر رونے لگتی۔ روتے روتے میرا برا حال ہو گیا۔ روتے ہوئے میں نے دعا مانگی کہ پروردگار مجھے ایک جھلک میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دکھا دیجئے۔

(نصرت)
تعبیر:
آپ درود شریف پڑھتی ہیں جو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں شرف قبولیت پاتا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ آپ کو چاہئے کہ رات کو سونے سے پہلے درود شریف پڑھنے کے بعد مراقبہ بھی کیا کریں۔ مراقبہ میں یہ تصور کریں کہ آپ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہیں۔

میری ایسی قسمت کہاں:

میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے ہیں۔ آپﷺ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں دروازے پر گئی۔ آپﷺ نے مجھے کپڑے کے تھان دیئے جو مختلف رنگ کے تھے۔ میرے دل میں وسوسہ آیا کہ شیطان ہے۔ مجھے ورغلا رہا ہے، بھلا میری ایسی قسمت کہاں ہے۔ میں تھان لے لیتی ہوں یا نہیں یہ یاد نہیں رہا۔

اس خواب کے کچھ عرصے بعد میں نے یہ خواب دیکھا کہ ایک سفید ریش نورانی بزرگ جن کی پگڑی اور لباس بھی سفید ہے، تشریف لاتے ہیں میں ان سے التجا کرتی ہوں کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ میں اچھی ہو جاؤں اور نیک لڑکی بنوں، کامیاب رہوں۔ وہ فرماتے ہیں، ’’تیری نیکی، اچھائی، کامیابی تیری پانچ وقت کی نماز میں ہے۔ نماز سے تیری ہر مراد پوری ہو گی۔‘‘

پھر میں نے دیکھا کہ ایک ہاتھی ہے۔ کچھ لوگ ہیں۔ میں اور میرا بھائی بھی کھڑے ہیں۔ لوگ ہاتھی کی ران سے گوشت کاٹ کر ہمیں دیتے ہیں کہ یہ تم لو۔ اس کے بعد دیکھتی ہوں، ہاتھی ہے اور نہ وہ لوگ ہیں ایک میدان ہے جس میں گتے سے بنا ہوا سبز رنگ کا گنبد ہے جس کے چار ستون ہیں۔ اس گنبد کے قریب میں اور میرا بھائی کھڑے ہیں۔ گنبد چھوٹا سا ہے۔ اس میں صرف ایک آدمی آ سکتا ہے۔ اس میں ایک شخص کھڑا ہے جس کا رنگ سانولا ہے جسم پر صرف ایک لنگوٹ ہے۔ سر اور ریش کے بال سیاہ ہیں۔ میرا بھائی جھک کر عقیدت سے ان کا ہاتھ چومتا ہے۔ میرے دل میں اچانک خیال آتا ہے یہ غوث پاک ہیں اور میں جاگ جاتی ہوں۔

(عتیقہ ساجد)

تعبیر:
آپ کو بزرگان عظام اور اولیاء کرام سے عقیدت ہے لیکن طرز فکر پیچیدہ ہے۔ آپ کو الیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دینے کا شوق بھی ہے۔ اولیاء اللہ سے فیض حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی طرز فکر آدمی کے اندر مستحکم ہو۔ یہی بات بزرگ نے آپ کو بتائی ہے۔ نماز بجائے خود ایک طرز فکر ہے جو بندے کو اللہ سے اور اللہ کے دوستوں سے قریب کر دیتی ہے۔

سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ جس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہوا۔ لیکن اگر طرز فکر ناقص ہے تو وسوسہ آ سکتا ہے۔ جس سے آدمی شک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

روحانی فیض:

جمعہ کے دن ظہر کی نماز پڑھ کر سوئی تو خواب دیکھا کہ میں ایک بستی میں موجود ہوں۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمانوں کے لئے آٹا جمع کر رہے ہیں۔ بستی میں موجود دو چار افراد آٹا لاتے ہیں۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک بڑے ٹب میں سارا آٹا ڈال کر گوندھتے ہیں۔ میں اور باقی افراد بھی آٹا گوندھنے لگتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے فلاں شخص نے آٹا نہیں دیا۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کہتے ہیں کہ اتنا آٹا کافی ہے۔ ٹب میں پانی کا پائپ ڈال کر ہم سب آٹا گوندھتے ہیں۔ آٹا پتلا ہونے کے ڈر سے میں پائپ بنا دیتی ہوں۔ پھر دیکھا تنور کے پاس وہ عورتیں بیٹھی ہیں۔ خیال آتا ہے کہ یہ دو خواتین ساری بستی کے لئے روٹیاں پکائیں گی۔ میں سوچتی ہوں کہ پہلے لوگ کتنے اچھے تھے آج کل کے زمانے میں لوگوں میں بالکل اتفاق نہیں ہے۔
جمیلہ خاتون)

تعبیر:
الحمدللہ۔ آپ سے لوگوں کو روحانی فیض پہنچے گا۔ سعید خواب دیکھنے پر مبارک باد قبول کیجئے۔

ایک خاتون کی روحانی ڈائری:

یہ ۱۹۷۰ء کی بات ہے تاریخ مجھے یاد نہیں۔ میں کافی بیمار تھی۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرے کمرے کے سامنے برآمدے میں بہت تیز روشنی پھیلی ہوئی ہے اور میں بیماری کی وجہ سے اداس بیٹھی ہوں۔ اتنے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور میرے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں ان کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا چاہتی تھی مگر پیروں نے ساتھ نہ دیا۔ میں نے معذرت چاہتے ہوئے عرض کیا، میں بہت شرمندہ ہوں کہ آپ کی تعظیم کے لئے کھڑی نہیں ہو سکتی مجھے معاف فرما دیجئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مجھے کھڑے ہونے سے منع فرمایا اور کہا، ’’گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔میرے جانے کے بعد تمہارے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوں گے۔‘‘

حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کی خبر سن کر میں خوشی سے بے حال ہو گئی۔ میری نظریں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کے لئے بے قرار ہو گئیں۔ لیکن نہ جانے کیوں میری آنکھ کھل گئی اور میں اس سعادت سے محروم رہی۔ بیدار ہونے پر احساس ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قد اتنا زیادہ تھا کہ میں ان کے گھٹنے تک آ رہی تھی۔ اس خواب کا تذکرہ میں نے اپنے والدین سے کیا تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی اور اس واردات کو نظر انداز کر دیا۔

چند روز بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک تقریب ہے۔ آخری قطار میں کھانے کی گول میز کے پاس چار کرسیاں رکھی ہیں۔ دو کرسیاں خالی ہیں اور باقی دو کرسیوں میں سے ایک پر میرے والد صاحب اور دوسری پر حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ دونوں آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ یکایک حضرت نوح علیہ السلام والد صاحب سے ناراض ہو کر چلے گئے۔ چند ماہ بعد میں نے حضرت نوح علیہ السلام کو دوبارہ خواب میں دیکھا۔ آپ تشریف لائے اور پھر اظہار ناراضگی کر کے تشریف لے گئے۔

۱۸ نومبر فجر کی اذان سے کچھ دیر پہلے سنا کہ کوئی مجھے سورہ ابراہیم کی آخری آیت پڑھنے کی تلقین کر رہا ہے اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ آیت میرے پاس موجود قرآن پاک کے نسخے کے کس صفحہ پر ہے۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد قرآن شریف کھول کر دیکھا تو وہ آیت اسی صفحے پر موجود تھی۔ جو خواب میں بتایا گیا تھا۔

۲۴ نومبر خواب میں کسی نے مجھ سے کہا کہ سورہ والضحیٰ پڑھو اور زبانی پڑھو۔ خواب میں ہی سورہ والضحیٰ مجھے زبانی یاد ہو گئی۔ صبح جب قرآن پاک کھول کر دیکھا تو بالکل صحیح یاد تھی۔

چند ماہ بعد ایک روز رات کو کھانے کی میز پر سر رکھے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی کہ ایک قبر نظر آئی اور میری نظریں قبر میں اترتی چلی گئیں۔ میں نے عالم اعراف کا منظر دیکھا جو صرف چند سیکنڈ نظروں کے سامنے رہا اور پھر غائب ہو گیا۔ میں اس مشاہدہ کو کوئی معانی نہیں پہنا سکی۔

۲۵ رمضان: میں روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے رمضان المبارک کے پروگرام پر عمل کر رہی ہوں۔ آج جب میں عبادت ختم کر کے اٹھنے والی تھی کہ میرے کمرے میں روشنی اس طرح چمکی جیسے جگنو چمکتے ہیں۔

۲۷ رمضان: کلمہ تمجید پڑھنے کے دوران مجھ پر غنودگی کی لہر آئی۔ اس حالت میں مجھے ایک عورت کا چہرہ نظر آیا اس کا رنگ نہایت سیاہ تھا۔ سر کے بال بھی حد درجہ کالے تھے اور بیچ میں سے مانگ نکلی ہوئی تھی۔ عورت کے کالے اور موٹے ہونٹوں پر گہری لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔ وہ منہ ٹیڑھا کر کے مسکرائی تا کہ میں خوف زدہ ہو جاؤں اور غائب ہو گئی۔ میں خوف زدہ ہونے کے بجائے سنبھل کر کلمہ تمجید پڑھنے لگی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر غنودگی کی لہر آئی لیکن میں نے خود کو کنٹرول کر لیا اور شب قدر کی نفل نمازوں میں مشغول ہو گئی۔ نماز کے دوران میں نے کئی چیزیں کھلی آنکھوں سے دیکھیں۔ اس دوران میرے بائیں طرف دیوار پر چھت کے قریب سے ہلکی دودھیا روشنی اوپر سے نیچے کی طرف آ کر اس طرح بکھر رہی تھی جیسے روشن دان سے آ رہی ہو۔ اس روشنی میں چاندنی کی ٹھنڈک اور لطف تھا۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی:

’’یا اللہ مجھ کمتر کو صرف آپ کا دیدار چاہئے۔‘‘

کچھ دیر بعد نماز کی حالت میں دیکھا کہ کوئی سفید سی چیز دائیں طرف سے میرے قریب آئی اور غائب ہو گئی۔ چند لمحوں بعد سامنے سے ایک مخصوص شکل کی سفید چیز قریب آئی اور وہ بھی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ یہ سفید چیزیں اس وقت غائب ہوتی تھیں جب میں سجدے میں جاتی تھی۔ پھر دیکھا کہ سفید روشنی کا بنا ہوا ایک دائرہ ہے اور اس کے درمیان میں چراغ کی شکل کی کوئی شئے جس کا رنگ گلابی اور بینگنی ملا جلا ہے، نظر کے سامنے سے گول چکر لگاتی ہوئی نیچے کی طرف جا رہی تھی۔ جب میں سجدے میں جانے لگی تو وہ غائب ہو گئی۔ اس کے بعد چاندنی کی سی روشنی اوپر آ کر چاروں طرف پھیل گئی۔

۲۸ رمضان: چونکہ آج میں نے مشاہدات و واردات پر زیادہ توجہ نہیں دی اس لئے مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ میں نے کیا دیکھا۔ البتہ دیکھا سب کچھ۔ بہرحال دو واقعات یاد رہ گئے ہیں۔ جب میں کلمہ تمجید پڑھ رہی تھی تو سامنے دیوار پر سے اندھیرے کا پردہ ہٹا اور ہلکی سبز رنگ کی خوبصورت روشنی نظر آئی۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ داہنی طرف جہاں دیوار فرش سے ملتی ہے وہاں ایک چاند روشن ہے اور اس کے نیچے ایک روشن لکیر ہے۔ یہ منظر کوئی سات آٹھ منٹ تک قائم رہا۔

۲۹ رمضان: کلمہ تمجید پڑھنے کے دوران ایک گورے رنگ کی عورت کا چہرہ سامنا آیا مگر شکل عجیب بدشکل چہرہ تھا۔ یہ عورت مسکرا کر غائب ہو گئی۔ آخر میں جب درود شریف پڑھ رہی تھی تو ایک چھوٹی سی موم بتی نظر آئی جو داہنے گھٹنے کے قریب اس قدر سکون سے جل رہی تھی کہ اس کی لو منجمد اور بے حرکت نظر آ رہی تھی۔ یہ منظر ۵ منٹ تک قائم رہا۔

۳۰ رمضان: عشاء کی نماز کے بعد ایک گھنٹے کے لئے سونے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی سونے کے لئے آنکھیں بند کیں تو دیکھا کہ ایک مکان کے دروازے کے قریب ایک دبلا پتلا بوڑھا شخص سفید تہمد پہنے بیٹھا ہے۔ اسے دیکھ کر میں غصے میں آگئی اور میں نے گویا کسی سے مخاطب ہو کر کہا، ’’یہ بڑے میاں مجھے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ ابھی یہ ہی کہا تھا کہ بڑے میاں کے سامنے فرش پر ایک اور بزرگ بیٹھے نظر آئے۔ ان کا قد دراز اور جسم صحت مند تھا۔ چہرے پر سفید داڑھی تھی اور انہوں نے سفید تہمد اور کرتا پہنا ہوا تھا۔ بزرگ نے سیاہ فریم کی عینگ لگائی ہوئی تھی۔ جس کے شیشے صاف، شفاف اور سفید تھے۔ وہ نہایت انہماک سے کوئی چیز سینے میں مشغول تھے۔ انہیں دیکھتے ہی میرے منہ سے بے ساختہ نکلا’’کتنے اچھے بزرگ ہیں۔‘‘

رات کو عبادت کر رہی تھی کہ سامنے سے دیوار غائب ہو گئی اس کی جگہ ایک منظر ابھرا۔ یہ نظارہ اتنا روشن اور واضح تھا کہ مجھ لگا کہ میں اس ماحول کا حصہ ہوں۔ دیکھا کہ قطاروں میں چھوٹے چھوٹے پودے لگے ہوئے ہیں۔ صرف تین قطاریں نظر آ رہی ہیں باقی کسی آڑ کی وجہ سے نظر نہیں آئیں۔ بیچ کی قطار میں تیسرا یا چوتھا پودا مجھ سے نسبت رکھتا تھا یہ دوسرے پودوں کی طرح ضرور تھا مگر اس میں پھولوں کی جگہ روشنی کے دائرے تھے جن میں سے نکلنے والی روشنی نگاہوں کو خیرہ کئے دے رہی تھی۔ دوسرے پودوں میں صرف پتے تھے، پھول نہیں تھے۔ کچھ دیر بعد قلندر بابا اولیاءؒ تشریف لائے اور آہستگی سے میری داہنی جانب بیٹھ گئے۔ آپ نہایت توجہ سے میرا جائزہ لے رہے تھے۔ تقریباً نصف گھنٹہ تک قلندر بابا اولیاءؒ میرے پاس بیٹھے رہے۔ پھر نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد بھی مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ بابا صاحبؒ بیٹھے ہوئے ہیں۔

عید کی رات مراقبہ کے دوران غنودگی میں دیکھا کہ کسی کا ہاتھ اس کی سفید اور لمبی انگلیاں مجھے نظر آ رہی تھیں۔ صدر دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے یا اسے ہلا کر کھولنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ چند ثانیوں کے بعد ایک دبلے پتلے بزرگ سفید کرتے اور پاجامے میں ملبوس آئے اور کمرے کے دروازے کے قریب بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد بزرگ غائب ہو گئے اور ساتھ ہی میرا داہنا ہاتھ بے اختیار اوپر اٹھ گیا ، نہ جانے کیوں؟

جائے نماز پر سجدہ کی جگہ چھوٹی بڑی پلاسٹک کی پلیٹوں میں طرح طرح کی افطاری سجی ہوئی ہے۔ بائیں طرف کی آخری پلیٹ پر نظر پڑی تو وہ اس قدر بھری ہوئی تھی کہ خیال آیا کہ کہیں اس میں رکھی ہوئی چیزیں گر ہی نہ جائیں چنانچہ انہیں سنبھالنے لگی۔ اس دوران یہ منظر نظروں سے غائب ہو گیا۔

عشاء کی نماز قائم کی تو میرے اوپر خواب کی کیفیت قائم ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک چیتا میرے کمرے کے دروازے کے سامنے داہنی طرف بیٹھا ہے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک وہ وہاں بیٹھا رہا پھر غائب ہو گیا۔ میں اکثر نماز کے دوران یہ تصور کرتی ہوں کہ میں کعبتہ اللہ کے سامنے عبادت الٰہی میں مصروف ہوں۔ ایک دن تہجد کی نماز ادا کرتے ہوئے گرد و پیش سے بے خبر ہو گئی اور خود کوکعبہ شریف کے سامنے موجود پایا۔ کعبہ شریف کی عجیب شان تھی۔ مجسم نور و روشنی تھی۔ غلاف بھی روشنی کے تانوں بانوں سے بُنا ہوا تھا۔ جس پر زرد رنگ کی روشنی کے نقش و نگار نمایاں نظر آ رہے تھے۔ اسی حالت مشاہدہ میں نماز ادا کی اور دعا مانگتے ہوئے بے اختیار منہ سے نکلا، ’’میں خدا کا نور دیکھوں گی۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ غلاف کعبہ میں حرکت ہوئی اور وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس وقت ایک ناقابل بیان نظارہ سامنے تھا۔ کعبہ شریف سے روشنی اور نور کی کرنیں تیزی سے نکل رہی تھیں۔ اس تیز اور چمکدار نورانی کرنوں کے درمیان کعبہ کے خدوخال نورانی لکیروں کے ذریعے نظر آ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے۔
’’یا اللہ! واقعی کعبہ شریف تیری شان جمالی اور جلالی کا مظہر ہے اگر اس پر حجاب نہ پڑا ہوا ہو تو مخلوق اس کی تجلیات کو برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘

میں تقریباً دس منٹ تک اس نظارے میں ڈوبی رہی پھر دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت منقش عطر دان داہنی طرف سے آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا میرے آگے رک گیا ہے۔ میرے دل میں یہ بات آئی کہ جب تک میرے آقا و مولا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مجھے اپنے دست مبارک سے عطر مرحمت نہیں فرمائیں گے میں عطر نہیں لوں گی۔ ذہن میں یہ بات آئی ہی تھی کہ عطر دان کا اوپر حصہ خودبخود کھل گیا۔ اس کے بعد احساس ہوا کہ کوئی میرے سامنے ہے۔ میری بصارت اس نورانی وجود کا احاطہ نہیں کر پائی صرف داہنا ہاتھ دکھائی دیا۔ یہ ہاتھ کسی سفید شئے میں ملفوٖف تھا۔ اس ہاتھ نے عطر دان میں سے عطر لیا اور مجھ پر چھڑکنا شروع کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جھلمل جھلمل کرتی چاندنی مجھ پر برس رہی ہے۔ میرا وجود کیف و سرور میں ڈوب گیا۔ اس وقت بھی مسلسل میرے منہ سے یہی الفاظ نکل رہے تھے، ’’حضورﷺ مجھے نہیں دیں گے تو میں نہیں لوں گی۔‘‘ اس وقت ہاتھ پر چڑھی ہوئی سفید شئے غائب ہو گئی۔ ہاتھ اس قدر پر نور تھا کہ نگاہیں اس پر ٹھہر نہیں رہی تھیں۔ میں نے کہا، ’’سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ بے مثال ہے اور آپﷺ کا نور بھی کیا نور ہے۔‘‘

دست مبارک مسلسل عطر پاشی میں مصروف تھا۔ عطر نور کی پھلجھڑیوں کی طرح مجھ پر برس رہا تھا۔ خیال آیا کہ مجھے عطر کی خوشبو سونگھنی چاہئے۔ چنانچہ میں نے زور زور سے سانس اندر کھینچنا شروع کر دیا۔ سانس کھینچنے کے عمل کے دوران جس وقت ہوا حلق اور سانس کی نالی سے ٹکراتی تھی اس وقت مجھے مسحور کن اور فرحت بخش خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ چند منٹ بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک نظروں سے اوجھل ہو گیا اور عطر دان خود بخود اوپر سے بند ہو گیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک عطر دان وہیں رکھا رہا۔ پھر محسوس ہوا کہ ایک فرشتہ عطر دان لینے آیا ہے۔ میں فرشتے کا صرف ایک بازو دیکھ پائی۔ جس وقت فرشتے نے عطر دان کو اٹھانے کے لئے حرکت دی تو مجھے احساس ہوا کہ وہ بہت بھاری ہے۔

نماز کے اختتام پر دیکھا کہ ایک وسیع و عریض سرسبز و شاداب میدان ہے۔ جس کے ایک طرف صاف شفاف چمکدار پانی بہہ رہا ہے۔ اس جگہ ایک پل بھی ہے۔ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ آب کوثر ہے یا آب زم زم ہے۔ پھر دیکھا میں جس جگہ نماز ادا کر رہی ہوں وہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے اور ایک منقش اور مزین چھت مجھ پر سایہ فگن ہے۔ سامنے ایک زنجیر لٹک رہی ہے اور چاندی کی اس زنجیر کے سرے پر ایک ہیرا لگا ہوا ہے۔

تعبیر:
اللہ کا کرم ہے کہ آپ کے اندر وہ صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہیں جو آدم زاد کو قدم قدم چلا کر عرفان ذات تک لے جاتی ہیں اور بندہ یا بندی کو عرفان ذات کے بعد عرفان الٰہی نصیب ہو جاتا ہے۔ خواب نہایت مبارک اور سعید ہیں۔ دلجمعی اور مستقل مزاجی سے عبادت و ریاضت اور مراقبہ کا اہتمام جاری رکھا جائے۔ انشاء اللہ روحانی علوم میں بیش بہا اضافہ ہو گا۔

انا للہ و انا الیہ راجعون:

ایک روز دیکھا کہ والدصاحب جو بنگہ دیش میں قیام پذیر تھے، سخت بیمار ہیں۔ بیماری نے انہیں اتنا دبلا اور کمزور کر دیا ہے کہ ان کا قد گھٹ کر ایک یا دو سالہ بچے کے برابر رہ گیا ہے۔ میں انہیں گود میں لے کر افسوس کر رہی ہوں۔ پھر دیکھا کہ والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے اور وہ چند لمحے کے مہمان ہیں۔ میں خواب میں صرف اتنا ہی دیکھ سکی۔

ایک روز نماز تہجد کے دوران دیکھا کہ دروازے کے سامنے صحن میں ایک کبوتر ہے۔ یکایک کبوتر غائب ہو گیا اور فضا میں چار لکیریں دکھائی دیں جو مرکری لائٹ کی طرح چمک رہی تھیں۔ ان لکیروں کے اندر سے بیل بوٹے نکل کر فضا میں پھیلے ہوئے تھے۔ میں نے دعا کی، ’’یا اللہ میں اس وقت والد کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں ابھی بارگاہ خداوندی میں عرض کر رہی تھی کہ سامنے دیوار پرایک سکرین نمودار ہوئی اور اس پر لوگوں کی تصویریں ابھرنے لگیں۔ ان لوگوں میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ سب اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ میں تو اپنے والد کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ یکایک منظر بدلا اور مجھے والدصاحب نظر آئے جو سفید لباس پہنے آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھے یاد کر کے رو رہے ہیں۔ پھر یہ منظر نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔

اس مشاہدہ کی حقیقت اس وقت سامنے آئی جب میں ڈھاکہ گئی کیونکہ میری طبیعت والد سے ملنے کے لئے شدید بے چین ہو رہی تھی۔ والد صاحب کی صحت پہلے کے مقابلے میں بہت گر گئی تھی۔ وہ باتیں بھی بہکی بہکی کرتے تھے۔ ابھی میں باپ کی شفقت اور ان کی صحبت سے پوری طرح سیر نہ ہونے پائی تھی کہ وہ گھڑی آ گئی جو میں نے حالت واردات میں دیکھی تھی۔ جمعہ کی شب ساڑھے دس بجے والدصاحب اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔

آمین
(شکیلہ خاتون)

 

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔