Topics
ایک جگہ سیلا ب آیا جس میں سارا علا قہ ڈوب گیا ۔لیکن ایک ٹیلے پر پا نی نہیں پہنچ سکا انسان اور ایک جنگل کے جانور کیڑے مکو ڑے اس ٹیلے پر پنا ہ لینے کے لئے جمع ہو گئے ۔ایک شیر تیرتا ہوا اس ٹیلے کی طرف آیا اور اور کتے کی طر ح ہانپتا ہوا لوگوں کے درمیان زمین پر بیٹھ گیا ۔وہ اس قدر خوف زدہ تھا کہ اسے گردوپیش کا ہو ش نہیں تھا ۔ایک آدمی اطمینان سے رائفل لیکر اس کی طر ف بڑھا اور اس کے سر پر گو لی مار دی ۔خوف کے جذبے سے شیر اپنی درندگی کی صفت کو بھی بھول گیا اور خوف کے جذبے نے اسے بکر ی سے بھی زیادہ بزدل بنا دیا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔