Topics
کو ئی چہرہ ہما رے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرے کو دیکھ کر خوش ہو جا تے ہیں اور کو ئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہرو ں سے بیزار ہو جا تے ہیں ۔جن لوگوں کے دل نور سے معمور ہو تے ہیں اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص ،ایثار، محبت اور پا کیزگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہو تا ہے ایسے لوگوں کے چہرے بھی خوش نما معصوم اور پا کیزہ ہو تے ہیں ۔ان چہروں میں ایسی مقنا طیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص قریب ہونا چاہتا ہے۔اس کے بر عکس ایسے لوگ جو احساس گناہ اور اضطراب میں مبتلا ہیں ان کے چہروں پر خشونت ،خشکی ،پیوست،بے آہنگی ،اور کراہت کے تاثرات پیدا ہو جا تے ہیں اور یہ تا ثرات دو سرے آدمی کے دل میں دور رہنے کا تقاضہ پیدا کر تے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔