Topics
کہا جا تا ہے کہ یہ دنیا بار بار یا صحیح اندازوں کے مطا بق ۱۶ مر تبہ تبا ہ ہو کر دو با رہ آباد ہو ئی ہے ۔خوبصورت رنگین با غ و بہار سے مزین، پُر کشش برفانی کہساروں، موتی کی طرح چمکتے دمکتے آبشاروں، آفتاب کی شعاعوں اور چا ند کی کر نوں کا مسکن یہ دنیا اب پھر چا لیس ہزار ایٹم بموں کی زد میں موت کے دہا نے پر کھڑی ہا نپ رہی ہے ،یہ کیسی تر قی ہے کہ ہم نے آتش فشاں کو اپنا مسکن بنا لیا ہے بالآخر تر قی کا یہ فسوں ایک دن ٹوٹ جا ئے گا۔اس سے پہلے بھی ہو تا رہا ہے کہ وہ قومیں جو فنا اور بقا کے فا رمولوں سے نا آشنا ہو گئی تھیں زمین پر سے اُٹھا لی گئیں اور آج ان کا نام و نشان تک با قی نہیں رہا۔ ذرا سو چئے تو صحیح تبا ہی ہمارے تعاقب میں ہے اور ہم اسے تر قی کا نام دے کر خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔ایک روز فسوں ساز لو گوں کو یہ با ور کر نا ہو گا کہ ایٹمی ہتھیار نوع انسانی کے لیے تر قی نہیں بلکہ انسانی نسل کے لئے دہکتی بھٹی ہے ۔یہ اربوں کھر بوں ڈالر نوع ا نسانی کی بقا اور خوشحالی کے کام آتے مگر انسان دشمن سا ئنسدانوں نے ان ڈالروں کو بھٹی میں جھو نک دیئے ہیں ۔ کو ئی نجا ت دہندہ آئے گا اورآتش گیر فسوں کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دے گا تا کہ نو ع انسانی سکون اور آشتی کا سانس لے سکے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔