Topics
کون کہتا ہے کہ دو لت پر ستی اور بت پر ستی دو الگ الگ با تیں ہیں ۔پتھروں کا پو جنا یا سو نے کو پو جنا ایک ہی بات ہے ۔ بت بھی پتھروں اور مٹی سے تخلیق کئے جا تے ہیں اور سونا بھی مٹی کی بدلی ہو ئی شکل ہے ۔سونے چا ندی اور جو ہرات کی محبت نے قوم کو اندھا کر دیا ،دو لت کا ذخیرہ شرا فت اور خاندان کا معیار بن گیا ۔ہوس زر نے انسانی قدریں پا مال کر دیں ۔اخلاق ،نجابت اور قومی روایات سب ملبے کا ڈھیر بن گئیں ۔موت کے بعد زندگی پر سے یقین اٹھ گیا ہے ۔ساری قوم ’’بابربعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘کی تفسیر بن گئی ۔رُوحانی قدروں کو ذبح کر کے اخلا قی برا ئیوں کو جنم دیا جا رہا ہے اللہ کے دو ست جب اس کے خلا ف آواز اٹھا تے ہیں تو قوم کا نوں میں رو ئی اور منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جا تی ہے ۔قوم کے نیک با طن افراد آنسو بہا تے ہیں اور شیطان اپنی کامرانی پر قہقہے لگا تا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔