Topics

خلا ئی تار

چند خلا با ز خلا میں جا چکے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ سو  میل سے زیادہ بلندی پر بالکل بے وزنی کی کیفیت طا ری ہوجا تی ہے ۔ اب صحیح صورت حال سمجھنا چا ہیں تو یہ نظر آئے گا یا یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ سا ڑے تین ارب انسان چلنے پھر نے والے چوپا ئے سب کے سب ٹا نگوں کے بل زمین سے لٹکے ہو ئے ہیں ۔ہر انسان یہ کہتا ہے کہ میں پیروں کے بل زمین پر چل رہاہوں ۔ غور کیجئے وہ کتنی غلط بات کہہ رہا ہے جب سے نو ع انسانی آباد ہے وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہو ئی ہے یہی کہتے ہیں،یہی سمجھتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے سکتا ہے۔لٹکنے کی حالت بالکل جبری ہے ۔جبری حالت میں اس کا ارادہ بے معنی ہے اس لئے کہ اس کی کو ئی اپنی حر کت ممکن نہیں ۔ یہ بات تو قرین قیاس ہے کہ جن تا روں میں اس کے پیر بندھے ہو ئے ہیں وہ تار حر کت کر تے ہوں اور ان کے ساتھ پیر بھی حر کت کر تے ہوں ان تا روں سے انسان کے ارادے کا کیا تعلق جب کہ انسان کو ان تا روں کا کو ئی علم ہی نہیں ۔با وجود اتنی صریح غلطیوں کے وہ دعوے کر تا ہے کہ میرا سر بلندی کی طر ف ہے اور میرے پیر پستی کی طر ف اور میں چلتا پھر تا ہوں واقعہ یہ ہے کہ ا س نے اپنے آپ کو  ایک بنوّا بنا لیا  ہےاور کہتا ہے کہ یہ بنوّا  حقیقت ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔