Topics

ڈاکٹر جاوید سمیع

محترم عظیمی صاحب

          السلام علیکم ورحمتہ اللہ

          مشہور بزرگ حضرت بابا تاج الدین ناگ پوری رحمتہ اللہ علیہ کی ایک کرامت یوں درج ہے کہ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ مجھے اجمیر شریف جانے کی اجازت دی جائے۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر  فرمایا، کہاں جاتے ہو اجمیر یہیں ہے۔ اسی لمحے اس شخص نے دیکھا کہ وہ اجمیر میں موجود ہے اور وہاں کی سیر کر رہا ہے۔ ازراہ کرم اس بات پر روشنی ڈالیں۔

ڈاکٹر جاوید سمیع 

         

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

          اس کرامت کے اصول کو سمجھنے کے لئے انسانی ذات اور زمان و مکان پر مختصر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔

                   انسان کی ذات کا ایک حصہ داخلی ہے اور دوسرا خارجی

                   داخلی حصہ میں زمانیت ہے نہ مکانیت۔

          اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے۔ ہم کسی عمارت کی ایک سمت میں کھڑے ہو کر اس عمارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اس عمارت کے دوسرے زاویے کو دیکھنا ہوتا ہے تو چند قدم چل کر اور کچھ فاصلہ طے کر کے ایسی جگہ کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں سے عمارت کے دوسرے رخ پر نظر پڑتی ہے۔ نگاہ کا زاویہ تبدیل کرنے میں چند قدم کا فاصلہ طے کرنا پڑتا  اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ گزرا۔ اس طرح نظر کا زاویہ بنانے کے لئے مکانیت اور زمانیت دونوں وقوع میں آئیں۔

 

          وضاحت سے اسی بات کو ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ جب ہم سات یا گیارہ منزلہ عمارت کو دیکھنا چاہیں تو اس بلڈنگ تک پہنچنے کے لئے راستے سے گزرنا ہوگا۔ایسا کرنے میں کم یا زیادہ وقت لگے گا۔وقت صرف ہونے میں اور اسپیس سے گزرنے میں دو عوامل کام کرتے ہیں۔

                   ۔ ایک وقت اور

                   ۔ دوسرا اسپیس سمٹنا

          تب  ہم نے سات یا گیارہ منزلہ اونچی عمارت کو دیکھا۔

          ذات کے خارجی حصے کا زاویہ نگاہ ہے اگر ذات کے داخلی زاویہ نگاہ سے کام لینا ہو تو اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذہن میں بلڈنگ کا تصور کر سکتے ہیں۔ تصور کرنے میں جو نگاہ استعمال ہوتی ہے وہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے ایک دھندلا سا خاکہ دکھاتی ہےلیکن وہ زاویہ ضرور بنادیتی ہے جو ایک طویل سفر کر کے دیکھنے میں بنتا ہے اگر کسی طرح نگاہ کی ناتوانی دور ہو جائے تو زاویہ نگاہ کا دھندلا خاکہ روشن اور واضح نظارے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے اور دیکھنے کا مقصد بالکل اسی طرح پورا ہو جائے گا جوسفر کے بعد پورا ہوتا ہے۔ اصل چیز زاویہ نگاہ کا حصول ہے جس طرح بھی ممکن ہو۔ ہر انسان کے اندر وہ زاویہ نگاہ ہیں (نگاہ دو طرح دیکھتی ہے)

                   ۔ یہ ایک زاویہ محدود ہے اور

                   ۔ دوسرا زاویہ لامحدودیت ہے

          ہم دور دراز مقام کا تصور کر سکتے ہیں۔اونچی  سے اونچی عمارت کو دیکھ سکتے ہیں۔ نگاہ کی ناتوانائی کی وجہ سے Bulding کا ایک نقشہ نظر آتا ہے جس کو ہم بلڈنگ کہتے ہیں۔

          نانا تاج الدین ناگپوری رحمتہ اللہ علیہ نے روحانی تصرف سے دھند ہٹا کر سائل کے اندر نظارے کو جلا بخش دی۔ اس طرح سائل نے اجمیر کو بالکل اسی طرح دیکھا جیسے کوئی طویل سفر کے بعد اجمیرپہنچ کر وہاں کے مناظر دیکھتا ہے۔

                                                                                     

دعاگو

عظیمی

ستمبر   ۲۰۱۳ ء

ماہنامہ قلندر شعور۔کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔