Topics
جب سے ہو ش سنبھا لا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم صرف دعاؤں کے ذریعے اپنے مسا ئل حل کر نے کی کو شش کر تے ہیں ۔ہم عمومی اور خصوصی دعائیں بھی ما نگتے ہیں آدھی صدی یا دو تہا ئی سے زیادہ کا زمانہ گزر چکاہے میں نے من حیث القوم کا فروں پر فتح اور کا مرانی کی کو ئی دعا قبول ہو تے نہیں دیکھی آخر ایسا کیوں ہے ؟دعائیں اس لئے قبول نہیں ہوتیں کہ ان کے ساتھ عمل نہیں ہے اورتخلیق کا راز یہ ہے کہ عمل بجا ئے خود ایک تخلیق ہے ۔جب سے ہم نے عمل کو تر ک کیا ہے اور صرف دعا ؤں کا سہا را لینا شروع کیا ہے ہمارے اندر سے نور نکل گیا اور نا ر نے ہمیں اپنا لقمہ ترسمجھ لیا ہے ۔ اے واعظو ! اے منبر نشینو ! اے قوم کے دانشورو ! برا ئے خدا سوتی قوم کو جگا ؤ اور بتا ؤ کے بے عمل قومیں مفلوج ،مغضوب اورغلام بن جا تی ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔