Topics
فضا ؤں میں رنگینی ،زندگی کو تحفظ دینے والی روشنیاں ،طر ح طرح کی گیسیس ،نیلگوں آسمان کی بساط پر ستاروں کی انجمنیں ،رات کی تا ریکی میں روشن چا ند ،دن کے اجا لے کو جِلا بخشنے والا سورج ،ہوامعطر خراماں خراماں نسیم سحر ،درختوں کی نغمہ سرا ئی ،چڑیوں کی چہکار ،بلبل کی صدا ،کو ئل کی کو ک کس نے تخلیق کی ہے؟سیلا بوں کی گزرگاہیں بجلی کی گر ج اور چمک کی راہیں کس نے مقرر کیں ؟کیا توبا دلوں کو پکار سکتا ہے کہ وہ تجھ پر مینہ بر سائیں کیا تو بجلیوں کو اپنے حضوربلا سکتا ہے ؟ دل میں سمجھ اور فہم کس نے عطا کی ہے اورہرن کو آزاد ی کس نے دی ؟اگر ان با توں کو رفعت و عظمت سے تعبیر کر کے اپنی بضا عتی کہا جا ئے تو خود ہمارے جسم میں ایسی بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن سے ہم ہرگز ہرگز صرف نظر نہیں کر سکتے کہ ساری کائنات عقل والوں کے لئے ایک نشانی ہے ۔ہے کو ئی سمجھنے والا ؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔