Topics

ناسُور

دانشوروں اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی تر بیت کا پہلا گہوارہ اس کا گھر ہو تا ہے بچہ جو سنتا ہے وہ بولتا ہے ،جو دیکھتا ہے وہی اس کا علم بن جا تا ہے ،آج کے دور میں ہم نہیں دیکھتے کہ دادی اماں نے کبھی  کہا ہو کہ ہمارا تمہا را خدا با دشاہ ،خدا کا بنا یا رسول ؐ با دشاہ ۔دن رات گا نوں کی آوازیں ہمارے اعصاب پر محیط رہتی ہیں رات کو سونے سے پہلے ماں اپنے بچوں کا تلقین نہیں کر تی کہ کلمہ شہادت پڑھ کر سونا چا ہئے ۔ نہ کو ئی باپ اپنی اولاد کو بیدار ہو نے کے بعد کلمہ طیبہ پڑھنے کے لئے کہتا ہے کو ئی نہیں کہتا کہ دو لت پر ستی انسانی زندگی کے لئے ناسور ہے ۔


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔