Topics
ہر آدمی جو ذرا بھی شعور رکھتا ہے ہر وقت اس بات کا مشاہدہ کر تا ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ مر رہا ہے ،ایک لمحہ مر تا ہے تو دوسرا لمحہ پیدا ہو تا ہے ۔دن مر تا ہے تو رات پیدا ہو تی ہے، بچپن مرتا ہے تو لڑکپن پیدا ہو تا ہے ، لڑکپن مر تا ہے تو جوانی پیدا ہو تی ہے اورجوانی مر تی ہے تو بڑھاپا پید اہو تا ہے اورجب بڑھاپا مر تا ہے توخوبصورت مورتی کا ایک ایک عضومٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جا تا ہے ۔ہڈیاں جس کے اوپر انسانی ڈھانچے کا دارومدار ہے راکھ بن جاتا اور جس دماغ کے اوپر انسان اکڑتا ہے ، دو سروں کے اوپر ظلم کر تا ہے ،خود کو خدا کہنے لگتا ہے ا س کو بھی مٹی کھا جا تی ہے اور مٹی کے ذرات کے بنے ہو ئے اس جیسے دو سرے انسان اس دماغ کو اپنے پیروں تلے رو ندتے ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔