Topics

مشاہیر کے خواب

امام ابو حنیفہؒ کا خواب:

امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ جب نوفل بن حبانؓ نے وفات پائی، میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور تمام مخلوق میدان حشر میں جمع ہے۔ میں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا کہ آپ حوض کے کنارے کھڑے ہیں اور آپ کے دائیں اور بائیں بہت سے مشائخ کھڑے ہیں۔ میں نے ایک خوبصورت سفید بالوں والے بزرگ کو بھی دیکھا کہ وہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رخساروں پر منہ رکھے ہوئے ہیں اور میں نے نوفلؓ کو دیکھا جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو میرے پاس آیا اور سلام کیا۔ میں نے کہا مجھے پانی پلاؤ۔ نوفلؓنے کہا میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اجازت لے لوں۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہاتھ سے اشارہ فرمادیا کہ پانی پلا دو۔ انہوں نے مجھے پانی پلایا اور میرے ساتھیوں کو بھی دیا۔ سب نے پانی پیا لیکن اس پیالے کا پانی ویسا کا ویسا ہی رہا اس میں کچھ کمی نہ ہوئی۔ میں نے کہا۔ ’’اے نوفلؓ! حضورﷺ کے دائیں طرف جو بوڑھے آدمی کھڑے ہیں وہ کون ہیں؟‘‘ اس نے کہا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں اور آپﷺ کے بائیں پہلو پر حضرت ابو بکر صدیقؓ ہیں۔ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب کھڑے اصحاب کے متعلق پوچھتے ہوئے تعداد انگلیوں کی پوروں پر گنتا رہا۔ سترہ افراد سے متعلق پوچھا تھا کہ بیدار ہو گیا۔ دیکھاتو ٹھیک سترہ عدد ہاتھ کی انگلیوں پر گنے ہوئے تھے۔

ایک شب امام ابو حنیفہؒ نے دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہڈیوں کو لحد مبارک سے جمع کر رہے ہیں اور بعض ہڈیوں کو دوسری ہڈیوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔ بیدار ہونے پر آپ اس خواب سے بہت پریشان ہوئے اور پھر محمد بن سیرنؒ کے ایک ساتھی سے اس کی تعبیر دریافت کی۔ انہوں نے بشارت دی اور بتایا کہ آپ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کی حفاظت میں اس درجہ اور مقام پر پہنچیں گے کہ صحیح کو غلط سے جدا کر دیں گے۔

ایک اور مرتبہ امام ابو حنیفہؒ کو زیارت کی فضیلت نصیب ہوئی ۔ اس مرتبہ آپ نے دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ سے فرما رہے ہیں:

’’اے ابو حنیفہ! اللہ کریم نے تجھے میری سنت زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ گوشہ نشینی کا قصد مت کر۔‘‘

امام بخاریؒ کا خواب:

محمد ابو عبداللہ بن اسمٰعیل بخاریؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’بخاری‘‘ کی تدوین کا محرک ایک خواب ہے۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما ہیں اور میں پنکھے سے ہوا کر رہا ہوں۔ صبح اپنے استاد محترم جناب اسحاق راہویہؒ سے اس خواب کی تعبیر چاہی تو انہوں نے کہا کہ ’’مبارک ہو تمہیں کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تدوین کے لئے چن لیا گیا ہے اور یہ سعادت تمہارے لئے مقدر ہے۔‘‘ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس کے بعد میرے دل میں ’’بخاری‘‘ کی تدوین و ترتیب کا خیال پیدا ہوا اور سولہ سال کی مدت میں اس کی تکمیل ہوئی۔

امام شافعیؒ کا خواب:

محمد بن ادریس (امام شافعیؒ ) کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خانہ کعبہ میں صلوٰۃ قائم کرتے دیکھا۔ جب آپﷺ فارغ ہوئے تو لوگوں کو تعلیم دینے لگے۔ میں نے قریب ہو کر عرض کیا:

یا رسول اللہﷺ! مجھے بھی کچھ سکھایئے۔‘‘ آپﷺ نے اپنی آستین مبارک سے میزان(ترازو) نکال کر مجھے عطا فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تیرے لئے میرا یہ عطیہ ہے۔ معبر نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تم دنیا میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت مطہرہ کی نشر و اشاعت میں امام بنو گے۔

امام شاذلیؒ کا خواب:

شیخ ابو الحسن شاذلیؒ چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے اکابر اولیاء میں سے تھے۔ عالم اسلام میں آپ کا نام مثل آفتاب کے روشن تھا۔ آپ نے ۶۵۶ہجری میں ایک سو پانچ برس کی عمر میں انتقال کیا۔ حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ، امام شاذلیؒ کے بڑے مداح تھے۔ معتبر اکابرین نے مندرجہ ذیل واقعہ بیان کیا ہے۔

شیخ ابو الحسن شاذلیؒ ایک بار قاہرہ میں مقیم تھے اور حج کے دن نزدیک آ رہے تھے۔ انہی ایام میں ایک دم امام شاذلیؒ نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا کہ امسال تو مجھے غیب سے حج کرنے کا حکم ہوا ہے۔ لہٰذا جہاز تلاش کر لو۔ شیخ کے احباب، مریدین اور متوسلین نے جہاز کی تلاش شروع کر دی۔ بڑی مشکل سے ایک بوڑھے عیسائی کے جہاز کا پتہ چل سکا۔ جب اور کوئی جہاز نہ ملا تو امام شاذلیؒ اپنے ہمرابیوں کے ساتھ اسی جہاز میں سوار ہو گئے۔ قاہرہ کی آبادی سے نکلتے ہی نہایت تندو تیز بادمخالف نے جہاز کو چلنے نہیں دیا۔ جہاز کا آگے بڑھنا موقوف ہو گیا۔ جہاز جب ہفتہ بھر رکا رہا تو شیخ شاذلیؒ کے مخالفین نے انہیں طعنے دینا شروع کر دیئے کہ آپ کو توغیب سے حج کا حکم ہوا تھا؟

ان طعنوں نے امام شاذلیؒ کو بے چین کر دیا مگر وہ ضبط کئے رہے اور طعنوں کا جواب نہیں دیا۔ ایک دن دوپہر کے وقت شیخ نے نیم غنودگی کے عالم میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔ آپﷺ نے امام شاذلیؒ کو وہ دعا تعلیم فرمائی جو بعد میں ’’دعائے حزب البحر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ امام شاذلیؒ نے دعا پڑھی اور بیدار ہو کر جہاز کے کپتان کو لنگر اٹھانے کا حکم دیا۔ کپتان نے کہا کہ اگر ہم لنگر اٹھائیں گے تو مخالف ہوا ہمارا رخ پھیر دے گی۔ امام شاذلیؒ نے کہا، ’’تو اپنے دل میں پکڑ دھکڑ مت کر، اللہ پر بھروسہ کر، جیسا کہہ رہا ہوں ویسا ہی کر، اور پھر اللہ کی مدد کا نظارہ دیکھ۔‘‘

کپتان اس ایمان و یقین سے بہت متاثر ہوا اور لنگر اٹھانے کا حکم دے دیا۔ عین اسی وقت ہوا کا رخ پھر گیا اور بادمخالف کے بجائے موافق ہوا چلنے لگی اور اس زور سے چلی کہ جس رسی سے جہاز کا مستؤل بندھا ہوا تھا وہ بھی کھولی نہ جا سکی۔ بہ امر مجبوری اسے کاٹنا پڑا اور جہاز سلامتی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ گیا۔

یہ واقعہ دیکھ کر جہاز کے کپتان کے بیٹے مسلمان ہو گئے۔ بیٹوں کا قبول اسلام اس کے لئے انتہائی تکلیف دہ امر تھا وہ بڑا دل گرفتہ ہوا۔ اسی شب اس نے خواب میں دیکھا کہ شیخ شاذلیؒ ایک بڑی جماعت کے ہمراہ جنت میں تشریف لے جارہے ہیں۔ اس کے لڑکے بھی ہمراہ ہیں۔ اس نے اپنے لڑکوں کے پیچھے جانا چاہا مگر فرشتوں نے اسے روک دیا اور کہا کہ تیرا راستہ ان سے جدا ہے۔ لہٰذا تجھے ان سے کیا واسطہ؟ صبح کے وقت اللہ نے ہدایت کے لئے اس کا سینہ کھول دیا۔ اس نے شیخ کے ہاتھ پر کلمہ توحید پڑھا اور اسلام قبول کر  لیا۔
حضرت شیخ عبدالرحیم محدث دہلویؒ کا خواب:

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی مشہور کتاب ’’دارالثمین فی المبشرات النبی الامین‘‘ کی پندرہویں حدیث کے ضمن میں ذکر کرتے تھے کہ میرے والد بزرگوار حضرت شیخ عبدالرحیم محدث دہلویؒ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ بیمار ہوا تو خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ نے میرا حال دریافت فرمایا اور صحت و تندرستی کی بشارت فرمائی اور مجھ سے وضو کے لئے پانی طلب فرمایا۔ وضو کے بعد ریش مبارک میں کنگھی فرمائی اور کنگھی سے نکلے ہوئے دو بال مجھے عطا فرمائے۔ جب میں نیند سے بیدار ہوا تو بالکل تندرست تھا اور دونوں موئے مبارک میرے ہاتھ میں موجود تھے۔ چنانچہ والد بزرگوار نے ان میں سے ایک مجھے مرحمت فرمایا۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا خواب:

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ایک مرتبہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ امام حسینؓ اور امام حسنؓ ان کے گھر میں تشریف فرما ہیں۔ امام حسنؓ کے دست مبارک میں ایک قلم ہے جس کی نوک شکستہ ہے۔ پھر امام حسنؓ نے ہاتھ بڑھا کر قلم جھے دینا چاہا اور فرمایا، ’’یہ قلم میرے نانا سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمایا، ’’ پہلے اس قلم کو حسینؓ ٹھیک کر لے پھر دوں گا۔ کیونکہ اسے جیسا حسینؓ ٹھیک کر سکتے ہیں، ویسا کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘‘ میں اس انعام پر انتہائی مسرور ہوا۔ پھر ایک چادر لائی گئی جس پر دھاریاں نقش تھیں۔ ایک دھاری سبز تھی اور ایک سفید۔ امام حسینؓ نے چادر کو اٹھاتے ہوئے فرمایا۔’’یہ میرے نانا سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چادر ہے۔‘‘ پھر وہ چادر مجھے اوڑھائی گئی۔ میں نے اس چادر کو تعظیماً اپنے سر پر رکھ لیا اور اللہ کریم کا شکر ادا کیا۔

ایک اور خواب کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے کھانے کو کچھ نہ ملا تو میرے دوستوں میں سے ایک شخص میرے لئے دودھ کا پیالہ لایا جس کو میں نے پیا اور سو گیا۔ خواب میں مجھے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دودھ کا وہ پیالہ میں نے بھیجا تھا۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو تقاضۂ بشریت کے تحت بچوں کی صغر سنی کا خیال ذہن میں آنے لگا۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و سلم آپ کے پاس تشریف لائے ہیں۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ فکر کیوں کرتے ہو۔ جیسے تمہاری اولاد ہے ویسے ہی میری اولاد ہے۔ یہ سن کر آپ کو اطمینان ہو گیا۔

حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا خواب:

حضرت سید احمد شہیدؒ جب تیسری بار دہلی تشریف لائے تو آپ کی آمد سے ایک ہفتہ قبل حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے یہ خواب دیکھا کہ حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دہلی کی جامعہ مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ ہر طرف سے بے شمار خلقت آپﷺ کے دیدار کے لئے امڈی چلی آ رہی ہے۔ آپﷺ نے سب سے پہلے شاہ صاحبؒ کو دست بوسی کی سعادت سے مشرف فرمایا، پھر ایک عصا مرحمت فرمایا اور ارشاد ہواکہ تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ جا اور ہر آنے والے کا حال ہمیں سنا۔ جس کو ہمارے یہاں حاضر ہونے کی اجازت ملے اسے اندر آنے دے۔ شاہ صاحبؒ نے اس حکم کی تعمیل کی اور ہزار ہا بندگان خدا نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔

شاہ صاحب بیدار ہونے پر تعبیر دریافت کرنے حضرت شاہ غلام علی محدث دہلویؒ خلیفہ حضرت مرزا جان جاناںؒ کی خدمت میں گئے۔ شاہ غلام علی دہلویؒ نے فرمایا کہ سبحان اللہ! یوسف وقت مجھ سے تعبیر پوچھتا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں۔

شاہ غلام علیؒ نے فرمایا کہ میری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ حضرت سید حسن رسول نماؒ کے وصال کے بعد رحمت کون و مکاں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توجہ اس دیار میں ہدایت خلق کی طرف بہت کم ہو گئی ہے۔ اب اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یا آپ کے کسی شاگرد رشید کے ذریعہ وہ سلسلہ پھر شروع ہو جائے گا۔ شاہ عبدالعزیز نے فرمایا کہ میرے خیال میں بھی یہی تعبیر آئی تھی۔
جب سید احمد شہیدؒ دہلی پہنچے تو شاہ صاحبؒ کو یقین ہو گیا کہ جس سلسلۂ ہدایت کے اجراء کی بشارت خواب میں دی گئی تھی وہ انشاء اللہ سید احمد شہیدؒ سے جاری ہو گا اور یہی ہوا کہ علم و فضل کے ستون مولانا عبدالحئیؒ ، محمد اسمٰعیل شہیدؒ اور شاہ اسحٰق محدث دہلویؒ جیسے بزرگوں نے سید صاحبؒ کے دست مبارک پر بیعت کی اور بہت سے دوسرے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا خواب:

شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ مدینہ منورہ میں جب تکمیل حدیث کر چکے تو خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم ہندوستان جا کر علم حدیث کی اشاعت کرو تا کہ لوگ فیض یاب ہوں۔ آپ نے عرض کیا۔’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آستانہ مبارک پر حاضری کے بغیر میری زندگی کیسے کٹے گی۔‘‘ حکم ہوا، ’’پریشان مت ہو۔ رات مراقب ہو کر بیٹھا کرو ہمارے پاس پہنچ جایا کرو گے۔ تم کو ہر روز ہماری زیارت ہوا کرے گی۔‘‘

مولانا رفیع الدینؒ کا خواب:

مولانا رفیع الدین دیو بندی شاہ عبدالغنیؒ کے خلفاء میں سے تھے اور ان کا شمار اپنے زمانے کے اولیائے کاملین میں ہوتا ہے۔ ۱۸۷۶ عیسوی بمطابق ۱۲۹۲ ہجر ی میں دیو بند میں نودرہ کی عمارت کی بنیادیں کھدوائی گئیں۔ نودرہ کی عمارت دارالعلوم دیو بند کی موجودہ عمارتوں میں سے پہلی عمارت ہے۔ انہی دنوں میں مولانا رفیع الدینؒ کو ایک شب زیارت نبویﷺ کا شرف نصیب ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ سرور کائنات محمد رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نودرہ کی عمارت کے مجوزہ مقام پر تشریف فرما ہیں اور آپ سے فرما رہے ہیں ’’یہ احاطہ تو بہت مختصر ہے۔‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے بنفس نفیس خود عصائے مبارک سے احاطہ و عمارت کا نقشہ کھینچا اور حکم دیا کہ ان نشانات پر تعمیر کی جائے۔ مولانا رفیع الدینؒ نے صبح اٹھ کر دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لگائے ہوئے نشانات موجود تھے۔ چنانچہ انہی نشانات پر بنیاد کھدوا کر عمارت کی تعمیر شروع کرا دی گئی۔

حضرت رابعہ بصریؒ کے والد کا خواب:

جس شب حضرت رابعہ بصریؒ کی ولادت ہوئی آپ کے والد اس قدر تنگ حال تھے کہ گھر میں روشنی کے لئے چراغ میں تیل تک موجود نہ تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ:

پڑوسی کے یہاں سے تھوڑا تیل مانگ لاؤ۔ آپ کے والد نے عہد کیا تھا کہ سوائے خالق کے مخلوق سے کبھی کچھ نہ مانگوں گا۔ باہر تشریف لائے پڑوسی کے دروازے پر دستک دے کر گھر واپس آ گئے اور کہا کہ وہ دروازہ نہیں کھولتا اور اسی رنج میں سو گئے۔ خواب

میں زیارت رسولﷺ سے سرفراز ہوئے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’غمگین نہ ہو یہ لڑکی جو تیرے یہاں پیدا ہوئی ہے بڑی مقبول اور برگزیدہ ہے۔ میری امت کے ستر ہزار مرد اس کی شفاعت کی وجہ سے بخشے جائیں گے تو امیر بصرہ کے پاس جا اور ایک کاغذ پر یہ لکھ کر دے کہ ہر رات تو مجھ پر سو بار درود بھیجتا ہے اور جمعہ کی شب کو چار سو بار۔ گزشتہ جمعہ کی شب تو نے درود نہیں بھیجا اس بھول کے کفارہ میں چار سو دینار اس مرد کو دیدے۔‘‘
حضرت رابعہ بصریؒ کے والد جب بیدار ہوئے تو خواب میں دی گئی ہدایت کے مطابق لکھ کر دربان کے ہاتھ رقعہ امیر بصرہ کو بھیج دیا۔ رقعہ پڑھتے ہی امیر خدمت میں حاضر ہوا اور درود شریف کی بارگاہ نبویﷺ میں مقبولیت کے شکرانے کے طور پر ہدیہ پیش کر کے کہا جب بھی ضرورت ہو بلا تکلف مجھے اس کی اطلاع کر دیا کیجئے۔

حضرت لعل شہباز قلندر کے والد اور والدہ کا خواب:

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے والد حضرت سید محمد کبیر الدین صاحبؒ کی اولاد نہ تھی۔ ایک رات خواب میں انہوں نے حضرت علیؓ کو دیکھا اور عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین! آپ میرے حق میں اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے۔ حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا:

’’احمد! اللہ تم کو بیٹا عطا فرمائے گا مگر میری ایک بات یاد رکھنا کہ جب فرزند تولد ہو تو اس کا نام محمد عثمان رکھنا اور جب وہ تین سو چوراسی دن کا ہو جائے تو اس کو لے کر مدینہ حاضری دینا اور حضور سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلام کے بعد سیدنا عثمان غنیؓ کے روضہ پر لے جانا اور سلام عرض کرنا۔‘‘

چنانچہ یہ خواب پورا ہوا اور آپ کے والد نے ہدایت کے مطابق عمل کیا۔

حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رابعہ بصریؒ تشریف لائی ہیں اور انہوں نے فرمایا:

’’اے میری بیٹی! میں تم کو بشارت سنانے آئی ہوں کہ تمہارا فرزند اللہ کا محبوب اور صاحب کامل قلندر ہو گا۔ اس کی ذات سے اللہ اپنے بہت سے بندوں کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اے میری بیٹی جب یہ پیدا ہو تو اس کے کانوں میں بلند آواز سے کلمہ طیبہ کی آواز پہنچا دینا اور میرا سلام کہہ دینا۔‘‘

آپ کی والدہ نے خواب اور بشارت کو یاد رکھا اور جب لعل شہباز قلندرؒ کی ولادت ہوئی تو انہوں نے ہدایت کے مطابق عمل کیا۔

حضرت مجدد الف ثانیؒ کے والد کاخواب:

حضرت مجدد الف ثانیؒ کی ولادت سے پہلے ان کے والد نے خواب دیکھا کہ تمام دنیا میں اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ سؤر اور بندر لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یکایک مجدد صاحب کے والد بزرگوار کے سینے سے ایک نور نکلا اور اس میں سے ایک تخت ظاہر ہوا۔ اس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ جس کے سامنے ظالموں اور ملحدوں کو ذبحہ کیا جا رہا ہے اور کوئی شخص بلند آواز سے پکار رہا ہے۔

’’حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل کے مقدر میں مٹ جانا ہی ہے۔‘‘

تعبیر یہ بتائی گئی کہ تمہارے یہاں ایک لڑکا ہو گا اور اس کے ذریعے حق کا بول بالا ہو گا اور کفر و الحاد کا خاتمہ ہو جائے گا۔

حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی والدہ ماجدہ کا خواب:

تاج الاولیاء حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی والدہ ماجدہ نے حضرت بابا تاج الدینؒ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا کہ ایک ایسا میدان ہے جس کی وسعت کا اندازہ ممکن نہیں۔ اس میدان کے اندر ہزاروں شہر آباد ہیں اور ان شہروں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ رہتے ہیں۔ سردی کا موسم ہے چودھویں رات ہے، چاندنی ہر سمت پھیلی ہوئی ہے۔ ہر شخص چاندنی کے حسن میں سرشار اور پرکیف ہے۔ حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ کی والدہ نے دیکھا کہ چاند آسمان سے ٹوٹ کر ان کی گود میں آ گیا اور اس چاند کی کرنیں پورے عالم کو منور کر رہی ہیں۔

الحاج انیس احمد انصاریؒ کا خواب:

الحاج انیس احمد انصاریؒ حضرت مولانا خلیل احمد امبہٹوی کے بھتیجے ہیں اور حضرت کے مرید بھی تھے۔ نہایت مذہبی آدمی تھے۔ شریعت اور طریقت میں ان کی ممتاز حیثیت تھی۔ صاحب کشف تھے۔ اکل حلال کا بطور خاص اہتمام کرتے تھے۔ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے کہ خیال آیا وکیل کی کامیابی اس بات میں ہے کہ جھوٹ کو سچ ثابت کر دے اور سچ کو جھوٹ ثابت کر کے مقدمہ جیت لے۔ اس خیال سے کہ بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہو گی وکالت کا پیشہ ترک کر دیا۔ حالات جب نامساعد ہو گئے تو لکڑی کے ٹال میں لکڑیاں پھاڑنے کی مزدوری شروع کر دی۔ اللہ نے مدد فرمائی اور حالات جب اچھے ہو گئے تو حج کا شوق پیدا ہوا۔ پانچ حج کئے جس میں سے ایک حج جدہ سے مکہ اور مکہ سے مدینہ منورہ تک پیدل سفر کر کے حرمین شریفین کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔

حضرت حاجی صاحب نے خواب میں دیکھا کہ تہجد کا وقت ہے اور آسمان ستاروں سے بھرا ہو اہے۔ ذوق و شوق سے آسمان میں لٹکی ہوئی قندیلوں کو دیکھ رہے تھے کہ ایک ستارہ آسمان سے ٹوٹا اور حاجی صاحب نے اپنا دامن پھیلا لیا۔ یہ ستارہ ان کے دامن میں آ گیا۔
اگلے روز شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب سے خواب بیان کیا تو انہوں نے فرمایا:

’’حاجی صاحب! مبارک ہو آپ کی اولاد میں ایک اولاد روحانی ہو گی اور اس سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مشن فروغ پائے گا۔‘‘

علامہ اقبالؒ کے والد کا خواب:

علامہ اقبالؒ کی پیدائش سے قبل ان کے والد بزرگوار نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے۔ اس میں لوگوں کا ہجوم ہے۔

ضا میں رنگین پروں والا ایک نہایت خوبصورت پرندہ اڑ رہا ہے۔ لوگ دیوانہ وار اپنا ہاتھ بڑھا کر اس پرندے کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے والد بھی اس ہجوم میں شریک ہیں۔ وہ پرندہ باوجود جدوجہد کے ہجوم میں سے کسی صاحب کے ہاتھ نہیں آتا۔ چکر لگاتے ہوئے پرندہ ایک دم فضا سے اترا اور علامہ اقبالؒ کے والد کی گود میں آ گرا اور انہوں نے اسے پکڑ لیا۔

علامہ اقبالؒ کا خواب:

علامہ اقبالؒ نے ایک رات خواب دیکھا کہ انہوں نے دوزخ کی سیر کی اور دوزخ کو نہایت سرد پایا۔ انہیں بتایا گیا کہ دوزخ کی اصل ’’ٹھنڈک‘‘ ہے مگر جب لوگ یہاں آئیں گے اور ہر ایک اپنی آگ دنیا سے اپنے ساتھ لائے گا تو دوزخ نہایت گرم ہو جائے گی۔
حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے نام ایک گمنام خط
۱۹۲۰ء میں آیا۔ جس کا مضمون یہ تھا۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دربار میں تمہاری خاص جگہ ہے جس کا تم کو کچھ علم نہیں ہے۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھ لیا کرو تو تم کو بھی اس کا علم ہو جائے گا۔‘‘ خط میں وظیفہ کے الفاظ بھی درج تھے۔ لیکن علامہ اقبالؒ نے اس خیال سے کہ راقم نے اپنا نام نہیں لکھا، اس گمنام خط کی طرف توجہ نہیں دی اور وہ خط ضائع ہو گیا۔

اس خط کے تین چار ماہ بعد کشمیر سے ایک پیرزادہ صاحب علامہ اقبالؒ سے ملنے کے لئے آئے۔ عمر تیس پینتیس سال کے لگ بھگ تھی۔ چہرے مہرے سے شرافت اور ذہانت کا اظہار ہوتا تھا۔ اس شخص نے علامہ اقبالؒ کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ علامہ اقبالؒ نے خیال کیا کہ یہ شخص مصیبت زدہ اور پریشان حال ہے اور میرے پاس اپنی کوئی ضرورت لے کر آیا ہے۔ انہوں نے شفقت آمیز لہجہ میں استفسار حال کیا۔ ان صاحب نے کہا کہ مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کریم کا مجھ پر بڑا فضل و کرم ہے۔ میرے بزرگوں نے اللہ کریم کی ملازمت کی اور میں اس کی پنشن کھا رہا ہوں۔

میرے اس بے اختیار رونے کی وجہ خوشی ہے نہ کہ غم۔

علامہ اقبالؒ کے مزید استفسار پر اس نے کہا۔ ’’میں سری نگر کے قریب نوگام گاؤں کا رہنے والا ہوں۔ ایک دن عالم رویاء میں، میں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دربار دیکھا۔ نماز کے لئے جب صف بنائی گئی تو سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ محمد اقبالؒ آیا ہے یا نہیں؟ بتایا گیا کہ ابھی انہیں آیا۔ اس پر ایک بزرگ کو بلانے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک نوجوان جس کی داڑھی منڈھی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا، کو ساتھ لے کر آئے اور وہ نوجوان سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔

کشمیری پیرزادہ نے کہا کہ آج سے قبل میں نے آپ کی شکل دیکھی نہ آپ کا نام پتہ جانتا تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ مولانا نجم الدین صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ماجرہ بیان کیا۔ تو انہوں نے آپ کا نام لے کر آپ کی بہت تعریف کی۔ وہ آپ کو، آپ کی تحریروں کے ذریعے جانتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بھی آپ کو نہیں دیکھا ہے۔ مجھے آپ سے ملنے کا اشتیاق ہوا تو صرف آپ سے ملاقات کے لئے کشمیر سے لاہور آیا ہوں۔ آپ کی صورت دیکھتے ہی میری آنکھیں اس لئے اشکبار ہو گئیں کہ اللہ کریم کے فضل سے میرے خواب کی عالم بیداری میں تصدیق ہو گئی۔

اب علامہ اقبالؒ کو وہ گمنام خط یاد آیا اور وہ مضطرب ہو گئے۔ خط میں مرقوم وظیفہ انہیں یاد نہیں تھا۔ انہوں نے اس پوری واردات کی تفصیل اپنے والد گرامی کو لکھ کر بھیج دی۔ خط کے ضائع ہونے پر اپنی ندامت کا اظہار بھی کیا اور والدصاحب سے اس اضطراب سے نکلنے کا حل دریافت کیا۔ کیونکہ اس پیرزادے نے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے آپ کے بارے میں جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالکریم جرمانوس کا خواب:

ڈاکٹر جرمانوس، ہنگری کے دارالسلطنت بوڈا پسٹ میں فن تعمیر کے پروفیسر تھے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل ہندوستان آئے۔ مسلمانوں کے فن تعمیر سے بہت متاثر تھے۔ کچھ مدت کلکتہ میں ٹیگور کے شانتی نکتین میں بھی رہے مگر آپ کی جویائے حق طبیعت کو یہ درس گاہ راس نہیں آئی۔ وہاں سے دہلی کی جامعہ ملیہ میں چلے گئے، وہاں مسلمان ہوئے اور جرمانوس سے عبدالکریم جرمانوس ہو گئے۔
شعوراً حق کو قبول کرنے والے قبول حق سے قبل ایک مہیب جذباتی اور ذہنی کشمکش کو برداشت کرتے ہیں۔ یہ مرحلہ طے کر لینے کے بعد ان کا سینہ حقانیت کے لئے کھل جاتا ہے۔ ڈاکٹر جرمانوس ابھی اسی عرصہ کشمکش میں تھے کہ انہیں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، لکھتے ہیں:

’’ایک شب میں نے خواب میں پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا۔ انہوں نے فرمایا: بلا جھجک قدم بڑھاؤ۔ صراط مستقیم تمہارے سامنے ہے۔ پھر سورۃ النساء کی یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہ کیا اور پہاڑوں کو میخیں اور تمہارے جوڑے بنائے اور تمہاری نیند کو آرام کیا اور رات کو پردہ پوش کیا اور دن کو روزگار کے لئے بنایا۔‘‘

ڈاکٹر جرمانوس کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھ پر اسلام کی صدات کاملاً آشکار ہو گئی اور میں جمعہ کے دن جامع مسجد دہلی گیا اور وہاں میں نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ اس پر چہار اطراف سے نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوا۔ کئی ہزار مسلمانوں نے اٹھ کر مجھ سے معانقہ کیا ، میرے ہاتھ چومے۔ اخوت و محبت کے اس سیل بے پناہ سے میں انتہائی متاثر ہوا۔ میری روح کی گہرائیوں میں طمانیت اور مسرت کی اتنی بڑی لہر اٹھی جو تاحیات میرے جسم میں دوڑتی رہے گی۔

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔