Topics
جن قوموں سے ہم مرعوب ہیں اور جن قوموں کے ہم دست نگر ہیں ان کی طر ز فکر کا بغور مطا لعہ کیا جا ئے تو یہ بات سورج کی طرح رو شن ہے کہ سائنس کی ساری تر قی کا زور اس بات پر ہے کہ ایک قوم اقتدار حاصل کر ے اور ساری نوع انسا نی اس کی غلام بن جا ئے یا ایجا دات سے اتنے ما لی وسائل پیدا کئے جا ئیں کہ ایک قوم یا ایک مخصوص ملک ما ل دار ہو جا ئے اور نوع انسانی غریب اور مفلوک الحال بن جا ئے کیوں کہ اس تر قی میں نوع انسانی کی فلاح مضمر نہیں ہے ۔اس لئے یہ ساری تر قی نوع انسانی کے لئے اور خود ان قوموں کے لئے جنہوں نے جدو جہد اور کو شش کے بعد نئی نئی ایجا دات کیں ہیں ۔مصیبت اور پر یشانی بن گئی ہے ۔مصیبت اور پر یشانی ایک روز ادبار بن کر زمین کو جہنم بنا دے گی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔