Topics
علم حضوری کے علاوہ کو ئی علم حقیقی نہیں اس لئے کہ یہ علم الٰہی ہے انسان کا حا فظہ اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ علم حضوری کی کسی ایک طر ز کو بھی اپنے اندر محفوظ کر لے چنا نچہ لو ح محفو ظ سے پھیلنے والا نور انسان کو اطلاعات فراہم کر تا ہے ۔تو اپنی غرض و مطلب برآری کے لئے نقطہ نظر سے کام لے کر ان اطلا عات کو نو سو نناوے (۹۹۹)فی ہزار رد کر دیتا ہے ۔ایک فی ہزار کو مسخ کر کے ،توڑمروڑ کے حافظہ میں رکھ لیتا ہے ۔یہی مسخ شدہ اور بگڑے ہو ئے خدوخال اس کے تجر بات کا، مشاہدات کا ،عادات و حر کا ت کا سانچہ بن جا تے ہیں۔یہ ہے انسان کا تمام کار نامہ اور اس کی متعین کر دہ اور فر ض کر دہ سمتیں فا رمولے اور اصول ۔ان ہی خر افات کے بارے میں وہ بار بار یہ کہتا رہتا ہے کہ یہ ہے میرا تجر بہ، یہ ہے مشاہدہ ،یہ ہے علمی طبعی ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔