Topics
جہاں تک دو لت کے انبا ر جمع کر نے سے عزت و تو فیق کے حصول کا تعلق ہے یہ ایک خود فریبی ہے ایسی خود فر یبی جس سے ایک فرد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فرا عین ِمصر کے محلات ،قارون کے خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دو لت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ۔تا ریخ خود کو دو ہراتی رہتی ہے ۔بڑے بڑے شہنشاہوں کے واقعات سے کون واقف نہیں ہے ایسا بھی ہوا ہے کہ پو ری شان و شوکت اور شا ہی دبدبہ کے با جود ماد رِ وطن میں قبر کے لئے جگہ بھی نصیب نہیں ہو ئی سو نے چا ندی کے ذخیروں اور جوا ہرات کے ڈھیر نے دنیا کے امیر تر ین آد میوں کے ساتھ کتنی وفا کی ؟کیا یہ حقیقت ہمارے لئے درسِ عبرت نہیں ہے ؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔