Topics
نماز کی حقیقت سے آشنا ہونے کے لئے اپنی روح کا عرفان حاصل کرنا ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ حضور قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی یعنی جب تک نماز میں حضور قلب نہ ہو اور آدمی تمام وسوسوں اور منتشر خیالی سے آزاد نہ ہو۔فی الحقیقت اس کی نماز، نماز نہیں ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس کو جسمانی حرکت تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس عمل میں روحانی قدریں شامل نہیں ہوتیں۔ جب کوئی بندہ روح کی گہرائیوں کے ساتھ نماز قائم کرتا ہے تو اس کے اوپر سے اس دماغ کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے جس دماغ کو ہم نے نافرمانی کا دماغ کہا ہے۔ جب کسی بندے کے اوپر سے نافرمانی کے دماغ کی گرفت کمزور ہو جاتی ہے تو اس کے اوپر جنت کے دماغ کا غلبہ ہو جاتا ہے اور جنت کا دماغ ٹائم اسپیس کی حد بندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ جب ٹائم اسپیس سے آزاد دماغ کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمارے اوپر انوار کا نزول ہونے لگتا ہے اور حالت نماز میں مفروضہ حواس (Fiction) سے ہمارا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس بے خبری کا نام استغراق ہے۔ یعنی بندہ اللہ کی تجلیات اور انوار میں جذب ہو کر کھو جاتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل تھا کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو ہم سے ایسے لاتعلق ہو جاتے تھے کہ جیسے کوئی شناسائی نہ ہو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی نماز میں اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اُن خواتین کے نام جو بیسویں صدی کی آخری دہائی