Topics
محترمہ صدیقہ خانم صاحبہ
وعلیکم
السلام ورحمتہ اللہ
زندگی
کے تجزیہ سے ہمارے سامنے ایک ہی بات آتی ہے کہ آدم کا ہر بیٹا اور حوا کی ہر
بیٹی خوش کن زندگی گزارنا چاہتے ہیں لیکن زندگی کا مادی نظریہ ہر قدم پر انہیں
مایوس کرتا ہے اس لئے کہ ہماری زندگی کا ہر ہر لمحہ فانی اور متغیر ہے ۔ مادی
اعتبار سے ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ سچی خوشی کیا ہوتی ہے اور کس طرح حاصل کی جا
سکتی ہے۔
حقیقی
مسر ت سے واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل بنیاد کو تلاش کریں۔ جب ہم کچھ
نہیں تھے تو کچھ نہ کچھ ضرور تھے۔اس لئے کچھ نہ ہونا ہمارے وجود کی نفی کرتا ہے۔
ہماری زندگی ماں کے پیٹ سے شروع ہوتی ہے اور یہ مادہ جب ایک خاص پروسیس (Process)سے گزر کر اپنی انتہا کو
پہنچتا ہے تو ایک جیتی جاگتی تصویر وجود میں آجاتی ہے۔ ماحول سے ا س تصویو کو
ایسی تربیت ملتی ہے کہ اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ سچی خوشی ہے کیا اور کس طرح
حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔
حقیقی
خوشی اور مسرت سے ہم آغوش ہونے کے لئے فرد کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ زندگی
کا دارومدار جسم پر نہیں بلکہ اس حقیقت پر ہے کہ جس حقیقت نے خود اپنے لئے جسم کو
لباس بنا لیا ہے۔ ہم اس حقیقت تک اس طرح رسائی حاصل کر سکتے ہیں کہ جب یہ جان لیں
کہ جیتی جاگتی تصویر جسم نہیں، پرت در پرت شعور کا مجموعہ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جسم کے ختم ہونے پر مادی
کثافت اور آلودگی ختم ہو جاتی ہے لیکن شعور فنا نہیں ہوتا بلکہ شعور کسی دوسرے
عالم میں منتقل ہوجاتا ہے۔
آسمانی
کتابوں میں ایک ہی بات کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے۔وہ یہ ہے کہ آدمی صرف مادی
جسم نہیں بلکہ ایک شعور ہے ۔ شعور کا گھٹنا اور بڑھنا عمر کا تعین کرتا ہے۔ شعور
کے ایک زمانہ کو ’’ بچپن‘‘ دوسرے زمانہ کو ’’ جوانی‘‘ اور شعور کے تیسرے زمانہ کو
’’بڑھاپا ‘‘ کہتے ہیں۔
یہ
انسانی جسم جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے اجزائے ترکیبی کثافت ، گندگی ، تعفن اور
سڑاند ہیں۔ اس سڑاند کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ
میں مادہ (Matter) ہوں
اور میں اس مادی دنیا کی پیدائش ہوں۔ یہ محدود نظریہ ہر آدمی کو کسی ایک مقام میں
محدود کر دیتا ہے۔
ہر
آدمی ایک محدودیت کے تانے بانے میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے اور اس طرح محدود
اور پابند نظریہ کے ساتھ زندگی کی مادیت کا خول اپنے اوپر چڑھالیتا ہے ۔ نتیجہ میں
کنوئیں
کے مینڈک کی طرح اس خول کو ہی زندگی کا اثاثہ سمجھتا ہے حالانکہ وہ سب کچھ اس خول
میں اسے نہیں ملتا جس کی اسے تلاش ہوتی ہے۔یہ محدودیت اور مادیت کا خول ہی دراصل
آدمی کو مایوس رکھتا ہے۔
خوش
کن زندگی گزارنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ
ہماری
کائنات اللہ کی آواز ہے۔ اللہ جب اپنا تعارف
کراتا
ہے تو کہتا ہے کہ میں مخلوق کا دوست ہوں۔ اللہ
اپنی
مخلوق کو کبھی فراموش نہیں کرتا مگر آدمی کفالت کے
لئے
دنیاوی وسائل کا محتاج بن گیا ہے۔
اگر
بندہ رب کو اپنا دوست اور کفیل سمجھ لے تو دیناوی
وسائل
خود بخود اس کے آگے سرنگوں ہو جاتے ہیں اور
نتیجہ
میں بندہ پر مسرت زندگی سے آشنا ہوجاتا ہے۔
خوشی
کیا ہے، مسرت و شادمانی ہے۔ ناخوش ہونے سے جو شے تخلیق ہوتی ہے وہ سب پریشانی ہے۔
پریشانی کیا ہے، اضمحلال و پریشانی ، مایوسی ، نقصان اور انا پر ضرب لگناہے۔
آدمی
خوش ہوتا ہے تو ٹائم اور اسپیس دونوں نظر انداز
ہوجاتے
ہیں اور دھوپ میں سکون کی چادر چھتری بن
جاتی
ہے۔
جبکہ
ناخوشی (illusion) الوژن
ہے۔۔۔۔۔
الوژن (illusion) سے مراد یہ ہے کہ جو شے
مستقل تغیر پذیر ہو یعنی اس میں ٹھہراو نہ ہو ۔ ردوبدل اتنا ہوجاتا ہے کہ ہمارے
پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم ناخوشی کے اجزائے ترکیبی سے واقفیت حاصل کریں۔
خوشی کیا ہے، خوشی کی مختصر تعریف اطمینان قلب ہے یعنی واحد ذات اللہ پر یقین کے
ساتھ اعتماد قائم ہونا۔
دعا گو عظیمی ۲۲ اپریل 1۹۸۶
، ناظم آباد ۔کر اچی1-D-1/7
KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI
۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے کسی خط کو جواب دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔