Topics

سید طاہر جلیل

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

یقین ہے آپ خیریت سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی صحت میں برکت عطا فرمائے، آمین

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں میں مہر لگادی، ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ اندھیرا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (البقرہ: ۷)

دلوں اور کانوں پر مہر لگانے سے کیا مراد ہے۔ توجیہ بیان فرمادیجئے۔

شکریہ

سید طاہر جلیل

 

عزیز القدر سید طاہر جلیل صاحب

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

جب کوئی آدمی، جس کے سامنے روشن راستہ ہے، باوجود اس کے، اس کو روشن راستہ پر چلنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور اس راستہ پر انعامات و اکرامات کی بارش برس رہی ہے، اس کی اطلاع بھی اس کو دی جارہی ہے لیکن وہ روشن راستہ کو قبول نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کا تاریک راستہ پر چلنا اس لئے قبول کرلیتے ہیں کہ وہ شیطان کی طرح نافرمانی اور بغاوت پر آمادہ ہے لہٰذا اس کے اوپر روشن راستہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی۔ ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ اندھیرا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

اللہ کے فرمان کے مطابق دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی نے ازخود وہ راستہ اختیار کرلیا جس راستہ پر چل کر آدمی عقل سلیم سے بے بہرہ ہوجاتا ہے، سماعت سے محروم ہوجاتا ہے اور بینائی پس پردہ چلی جاتی ہے۔ اللہ اسے اس بات سے منع نہیں کرتے کیونکہ اللہ اس کا عمل بقول کرلیتے ہیں۔ چنانچہ وہ روشن راستہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔

روحانیت سے تعلق رکھنے والے حضرات کم و بیش اس بات سے واقف ہیں کہ مخلوق کے اندر ایسے نقطے موجود ہیں جن نقطوں میں زندگی میں کام آنے والی روشنی ذخیرہ ہوتی رہتی ہے۔ تصوف اور روحانیت سے دلچسپی رکھنے والے حضرات ان نقطوں کو چھ لطیفوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ روحانیت میں ان کا اصطلاحی نام لطائف ستہ ہے یعنی ایک آدم زاد انفرادی طور پر یا اجتماعی اعتبار سے چھ نقطوں کے اندر سفر کرتا ہے۔ ان چھ نقطوں کو قرآن پاک کے قانون کے مطابق تین دائروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ پہلا دائرہ جس کے اندر دو نقطے موجود ہیں آدمی کے اوپر دو راہیں کھولتا ہے۔ ایک راستہ شیطنیت ہے اور دوسرا رحمت ہے۔

۲۔ دوسرا دائرہ رحمت کی طرف سفر کرنے کا ذریعہ ہے۔

۳۔ تیسرا دائرہ منزل ہے یعنی اس دائرے میں بندے کو اللہ کا عرفان حاصل ہوتا ہے۔

تینوں دائرے ہمہ وقت چار نورانی نہروں سے فیڈ ہوتے ہیں۔ دائرے تین ہیں، نہریں چار ہیں۔ ان چار نہروں میں سے ایک نہر تیسرے دائرہ کو جس میں شیطنت اور رحمت کے راستے متعین ہیں سیراب کرتی ہے۔ اگر آدمی باوجود ترغیب کے ضد اور نافرمانی کا مرتکب ہو کر صراط مستقیم سے ہٹ کر تاریکی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو تیسرے دائرہ کا پہلا نقطہ زہریلا ہوجاتا ہے اور یہ زہر اس کو متعفن پھوڑا بنادیتا ہے۔ اس نقطہ کے اندر سڑاند اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ اوپر کے دو دائرے اسے زندہ رکھنے کے لئے فیڈ تو کرتے ہیں لیکن ان کا ذہنی رابطہ یا ہمدردی تیسرے نقطہ کے ساتھ نہیں رہتی۔ اوپر کے دائرے سراپا نور اور روشنی ہیں، لطافت اور خوشبو ہیں، اس لئے یہ متعفن پھوڑا یا نقطہ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ جب متوجہ نہیں ہوتا تو وہ راستہ بھی نظر نہیں آتا جس راستہ پر چل کر آدمی آسمانوں کی سیر کرتا ہے، فرشتوں سے ملاقات کرتا ہے اور اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ وہ نقطہ جس کو ہم نے متعفن پھوڑے کا نام دیا ہے لطیفہئ نفسی ہے۔ عرف عام میں اس کونفس کہا جاتا ہے۔

شعوری زندگی کی ہر حرکت، ہر عمل، ہر تصور، ہر خیال، ہر ادراک اور احساس دو رخوں پر کام کرتا ہے۔ ایک وہ رخ ہے جس کا تعلق شیطنت سے ہے اور ایک وہ رخ ہے جس کا تعلق رحمانیت سے ہے۔ اسی طرح نفس کا تعلق بھی دو طرزوں میں ہمہ وقت قائم رہتا ہے، ایک طرز شیطنت ہے اور دوسری طرز وہ حکمت ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ قرآن پاک کی صورت میں نوع انسانی کو عطا ہوئی ہے۔ جس آدمی کے نزدیک زندگی صرف دنیا یا دنیا کا عیش و نشاط ہے، خودنمائی ہے، علم کا زعم ہے…… وہ اپنے خالق سے دور ہوجاتا ہے۔ قلب یا ضمیر اسے برابر اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ جو راستہ اختیار کیا گیا ہے یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو انعام یافتہ ہیں لیکن بندہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس راستہ کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔

دین میں جبر نہیں ہے اور ہر آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ صحیح یا غلط میں سے ایک راستہ کا انتخاب کرے۔ مسلسل ترغیب (Inspiration) اور خیر کی آواز کو نظرانداز کرنے کے بعد جب یہ معاملہ اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے تو اللہ اس کے ارادہ اور اختیار کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اب صراط مستقیم پر چلنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی۔ ان کی آنکھوں پر گھٹاٹوپ اندھیرا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

اللہ نے دلوں پر مہر اس لئے لگائی ہے کہ وہ مثبت راستہ پر چلنا ہی نہیں چاہتا اس لئے اللہ نے آدمی کے ارادہ اور اختیار کو قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آدم اور جنات بااختیار ہیں اور انہیں نیکی یا بدی اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اللہ اگر چاہیں تو دنیا میں چوری نہیں ہوسکتی اور اگر اللہ چاہیں تو دنیا میں کوئی قتل نہیں ہوسکتا، کوئی آدمی بے نمازی نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ چاہیں تو شیطان کا وجود ختم ہوسکتا ہے لیکن اس طرح انسان کے بااختیار ہونے کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

حنا اور بچوں کو دعائیں۔ سلسلہ کے تمام احباب کو سلام و دعا۔ محفل مراقبہ میں سب دوستوں کو سلام عرض کردیں۔

 

دعاگو

عظیمی

۱۶، جولائی ۱۹۹۵ء

مرکزی مراقبہ ہال، کراچی

Topics


Fakir Ki Daak

KHWAJA SHAMS-UD-DEEN AZEEMI

۲۰۰۸ کے محتا ط اعداد و شما ر کے مطابق مرکزی مراقبہ ہا ل میں مسا ئل کے حل کے لئے موصول ہو نے والے خطوط کی تعداد کم و بیش نو ہزا ر خطوط ما ہا نہ تھی ۔ تادم تحر یر آج بھی عظیمی صاحب انتہا ئی مصروفیا ت کے با وجود اپنی ڈا ک خود دیکھتے ہیں ۔ بعض اوقات با وجود کو شش کے خط کے جوا ب میں تا خیر ہو جا تی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ  نے کسی خط کو جواب  دیئے بغیر تلف کردیا ہو۔عظیمی صاحب کے بیشتر مکتوبا ت رسمی تمہیدی اور مروجہ اختتا می کلما ت سے عاری ہیں ۔ آ پ خط میں فوری طور پر ہی اس مقصد ، موضو ع اور مسئلہ کے بیا ن پر آجا تے ہیں جو خط لکھنے کا محر ک بنا تھا ۔