Topics

دستِ نگر

کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ قرآن کائنات پر ہماری حاکمیت اور سرداری تسلیم کررہا ہے ،ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کومحض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجائے رکھتے ہیں.جب کوئی افتادپڑتی ہے تواسکی آیات تلاوت کر کے دنیاوی مصائب سے نجات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعار بن جائے اورہم اس تفکرکے نتیجے میں میدان عمل میں اترآئیں تو ساری کائنات پر ہماری سرداری مسّلم ہے.افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظراندازکرکے دوسروں کے دستِ نگربنے ہوئے ہیں۔ 


Topics


Kashkol

خواجہ شمس الدین عظیمی

اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ 

حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔