Topics
خواب یہ ہے کہ میرا ایک
دوست ممتاز میرے گھر آیا۔ دروازے پر دستک دی۔ میں نے چارپائی سے اٹھ کر دروازہ
کھولا۔ وہ اندر آیا اور وہ مجھ سے کہا کہ جلدی سے تیار ہو جاؤ ہمیں جانا ہے۔ یہ
معلوم نہیں ہو سکا کہ کہاں جانا ہے۔ لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ جیسے پہلے سے کوئی
پروگرام طے ہے۔ میں نے کپڑے تبدیل کئے اور کمرے سے باہر آ گیا۔ میں نے اپنے دوست
کو سڑک کے آخری کونے پر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ بالکل سائے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ میں
تیز تیز قدم اٹھا کر اس کی طرف بڑھنے لگا۔ جب میں قریب پہنچا تو وہ ایک دم گلی میں
مڑ گیا۔ میں بھی تقریباً بھاگتے ہوئے اس گلی میں مڑ گیا۔ جیسے ہی قریب پہنچا وہ
دوسری گلی میں مڑ گیا۔ تین چار گلیوں میں وہ مڑ کر غائب ہو گیا۔ میری اس سے ملاقات
نہیں ہوئی۔ میں اس کی تلاش میں گھومتا رہا اور شام ہو گئی۔ اب میں ایسی جگہ پہنچ
گیا جہاں نہ گلیاں تھیں اور نہ سڑکیں۔ ایک پگڈنڈی تھی۔ آس پاس جگہ جگہ جھاڑیاں لگی
ہوئی تھیں۔ زمین ریتیلی تھی، سامنے ایک بلند پہاڑ تھا۔ میں چلتا رہا اور چلتے چلتے
ایک قبرستان میں پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ قبریں کچی بنی ہوئی ہیں۔ خیال آیا
کہ ان قبروں کے اوپر سے گزر کر Short Cutراستہ
اختیار کر لوں۔ جب میں قبر پر چڑھا تو ایک دم کسی نے مجھے شکنجہ میں کس لیا۔ نکلنے
کے لئے بہت ہاتھ پیر مارے لیکن میری سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ تقریباً دو تین
فٹ کے فاصلے پر ایک نالی نظر آئی۔ میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر کسی طرح میرا
پاؤں اس نالی میں چلا جائے تو میں اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لوں گا۔ انتہائی
جدوجہد کے بعد میں اس میں کامیاب ہو گیا اور جیسے ہی میرا پاؤں نالی میں گیا مجھے
نجات مل گئی اور ساتھ ہی آنکھ بھی کھل گئی۔
(اسلم پرویز)
تعبیر:
آپ کو اپنے معاشی حالات
میں جو تنگی محسوس ہوتی ہے وہ چند دوستوں کی کوششوں سے دور ہو جائے گی۔ جدوجہد
جاری رکھیئے اور صبر و سکون سے کام لیجئے۔ اللہ تعالیٰ امیدیں پوری کریں گے۔
میں نے خواب دیکھا کہ میں
بے آب و گیاہ میدان میں چلا جا رہا ہوں۔ سورج کی تمازت اور دھوپ کی شدت سے ہر چیز
جھلسی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پیاس کی شدت سے بے حال اور پسینہ میں شرابور دھوپ سے بچ
کر سایہ میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ بائیں ہاتھ میں سنسناہٹ محسوس ہوتی ہے۔ میں نے ہاتھ
اٹھا کر دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہاتھ کے انگوٹھے کا گوشت سوجھ رہا
ہے جو پھول کر کالے انگور کے برابر ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد انگوٹھا پھٹ گیا۔ اس میں
سے ایک چھوٹا سا پودا نمودار ہوا۔ بڑھتے بڑھتے یہ پودا ایک سایہ دار درخت میں
تبدیل ہو گیا۔ اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بے خود کر دینے والی لذت سے لطف اندوز
ہو رہا ہوں کہ یکایک خیال آیا کہ اس عجیب و غریب ہئیت کو دیکھ کر دنیا کیا کہے گی۔
یہ خیال آتے ہی میں نے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔
انگوٹھے سے درخت کو نکال
پھینکنے کے بعد میں نے دیکھا کہ انگوٹھے میں ایک گول سوراخ ہو گیا ہے اور اس سے پانی
کی ایک دھار نکل رہی ہے اور پانی سے آس پاس کی ساری جگہ بھیگ گئی ہے۔ جب پانی بہت
زیادہ بہنے لگا تو مجھے خیال آیا کہ میرا خون پانی بن کر بہہ رہا ہے۔ اگر اسی طرح
خون بہتا رہا تو میں بہت کمزور ہو جاؤں گا۔ اس کمزوری سے بچنے کے لئے میں نے سیدھے
ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کہنی پکڑی تا کہ خون ضائع ہونے سے بچ جائے۔
(رحمان بیگ)
تعبیر:
آپ کے اس خواب میں ماضی،
حال اور مستقبل کی رائیداد پوشیدہ ہے۔ ہوا یہ کہ آپ پہلے معاشی پریشانی میں گرفتار
تھے پھر یکایک حالات بدلے اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشی اعتبار سے آپ خود کفیل ہو
گئے۔ دوستوں پر اعتماد کرنے سے نقصان ہوا اور پھر معاش کے تانے بانے میں الجھ گئے۔
قدرت نے ہاتھ پکڑا۔ تھوڑی سی جانفشانی کے بعد حالات پھر قابو میں آ گئے۔
تجزیہ:
بے آب و گیاہ میدان، سورج
کی تمازت اور دھوپ کی تپش، معاشی پریشانیوں کے تمثلات ہیں۔ انگوٹھے پر درخت کا
اگنا، غیبی امداد کا مظہر ہے۔ درخت کو اکھاڑ پھینکنا، بنے بنائے ہوئے جمے ہوئے کام
کو بگڑنے کی دلیل ہے۔ انگوٹھے سے پانی کا بہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ قدرت نے دستگیری
کی ہے۔ یہ سوچنا کہ دنیا کیا کہے گی اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کی طبیعت میں مروت اور
لحاظ زیادہ ہے جس سے آپ نقصان اٹھاتے ہیں۔ آس پاس کی جگہ کا بھیگنا اس بات کی
علامت ہے کہ آپ سے آپ کے دوستوں کو فائدہ پہنچا اور آئندہ بھی فائدہ پہنچنے کی
امید ہے۔
مشورہ:
دوستوں پر اعتماد کرنا
بہت اچھی بات ہے لیکن کاروبارمیں اعتماد کے ساتھ نگرانی بھی ضروری ہے۔ اس خواب میں
آپ کے لاشعور نے آپ کو متنبہ کیا ہے کہ اعتماد جس میں لاپرواہی اور تساہل ہو آپ
کیلئے غیر مفید ہے۔ خواب میں اس قسم کے اشارات بھی ہیں کہ آپ کام کو ضرورت سے
زیادہ پھیلا لیتے ہیں جس کی وجہ سے چاروناچار آپ کو اقرباء اور دوستوں پر اعتمار
کرنا پڑتا ہے۔ کام اتنا بڑھایئے جس پر آپ کنٹرول کر سکیں۔
میں سکھر میں سویا اور یہ
دیکھا کہ میں ہندوستان والے آبائی مکان میں کھڑا ہوں۔ اچانک میری نظر اوپر کی سمت
اٹھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میری لڑکی چھت کی منڈیر پر لیٹی ہوئی ہے اور نیچے کی طرف
جھکی ہوئی مجھے دیکھ رہی ہے۔ میری اس بچی کی عمر تقریباً ڈھائی سال ہے۔ میں یہ
دیکھ کر گھبرا گیا کہ مبادا بچی نیچے نہ جا گرے۔ میں سوچنے لگا کہ اگر میں اوپر
گیا تو ہو سکتا ہے کہ اس عرصہ میں بچی منڈیر پر سے پھسل جائے۔ غیر ارادی طور پر
میں نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کر دیئے اور بچی میری گود میں آ گری۔ بچی کے اتنے
اوپر سے گرنے کی وجہ سے مجھے بھی جھٹکا لگا اور میں بھی نیچے کی جانب گر گیا۔ لیکن
لڑکو کو میں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے رکھا۔ اس کے باوجود لڑکی کا سر زمین سے ٹکرا
گیا۔ اسی پریشانی میں میری آنکھ کھل گئی۔
(ایم مرچنٹ)
تعبیر:
خواب میں ایسے مظاہر پائے
جاتے ہیں کہ زائد اخراجات کے لئے قرض لیا گیا ہے یعنی ضرورت سے بہت زیادہ۔ پہلے اس
کی ادائیگی آسان معلوم ہوئی پھر حالات نے دقت طلب بنا دیا۔
تجزیہ:
دیوار کی منڈیر پر بچی کا
نظر آنا بچی کا ہاتھوں میں گرنا اور سر کا زمین سے ٹکرانا ایسا پس منظر ہے جس میں
زائد اخراجات کے لئے قرض لیا گیا ہے۔ یعنی ضرورت سے ماوراء۔ خواب میں لاشعور نے اس
بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ قرض لیتے وقت طبیعت نے اس کو غیر ضروری قرار دیا
لیکن طبیعت کے اس رجحان کو مسترد کر دیا گیا۔ اس طرز عمل سے لاشعور میں بار پیدا
ہو گیا اور آہستہ آہستہ وہ بار شعور میں منتقل ہوتا رہا۔ شعور نے لاشعور کے اس بار
اور ناگواری کو لڑکی، منڈیر، آپ کے اندر کے خوف کے احساسات، بچی کا نیچے گرنا، آپ
کا ہاتھ پھیلانا، بچی کا گود میں آنے کے باوجود آپ کا گر جانا اور بچی کے سر پر
ضرب آنا کے مظاہر میں پیش کر دیا ہے۔
ایک بہت بڑے میدان میں
اپنی سالیوں کے ہمراہ موجود ہوں۔ اچانک کسی نے خبر دی کہ تمہارے خسر صاحب کی آنکھ
کا آپریشن ہوا ہے۔ میں تیز تیز قدم سے میدان سے نکلا اور سڑک پر آ گیا۔ ایک دم
گھٹا چھا گئی۔ بجلی چمکی، بادل گرجے اور موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ سڑکیں ندی
نالوں میں تبدیل ہو گئیں۔ لوگ بارش کی تیز بوچھاڑ سے بچنے کے لئے ادھر ادھر بھاگ
رہے تھے۔ میں نے دوڑ کر سڑک پار کی اور میں اپنے خسر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے
پوچھا کہ آپریشن کیسا رہا۔ جواب ملا بہت کامیاب رہا۔ پھر میں نے اس عینک کو دیکھا
جو ڈاکٹر نے ان کو لگانے کے لئے دی تھی۔ اس عینک کو جب میں نے آنکھوں پر لگایا تو
مجھے بہت دور کی چیزیں نظر آئیں۔
(غلام جعفر)
تعبیر:
خواب میں غیر ضروری اخراجات کے تمثلات ہیں۔ ان تمثلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخراجات
غیر ضروری رسموں اور محض ناموری کے لئے کئے گئے ہیں۔
تجزیہ:
ایک بہت بڑے میدان میں آپ کے ساتھ آپ کی سالیوں کا ہونا، خاندان میں رائج رسومات
کی علامتیں ہیں۔ گھٹا، بجلی کی چمک اور بادل کی گرج کے ساتھ بارش، اس بارش سے
راستوں کا بند ہونا نیز لوگوں کا ادھر ادھر بھاگنا اور بھاگ کر آپ کا سڑک پار کر
کے خسر صاحب کے پاس پہنچنا ان زائد اور غلط رسومات سے پیدا ہونے والے نقصانات کی
نشاندہی ہے۔ آپریشن اور عینک میں چیزوں کا دور تک نظر آنا ان اخراجات کی شبیہیں
ہیں جو رسموں پر ناموری کے لئے کئے گئے ہیں۔
مشورہ:
آج ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں اس معاشرہ کا نصب العین اور مقصد دولت اور
صرف دولت بن کر رہ گیا ہے۔ سازوسامان، شان و شوکت اور دولت و ثروت کے حصول میں ہم
اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ ہماری زندگی کا پورا نظام راست روی، حق جوئی، صداقت پسندی
اور خدا ترسی کے تصورات سے محروم ہو گیا ہے۔ دولت مند بننے کے رجحانات اسراف اور
فضول خرچی کو جنم دیتے ہیں۔ خاندانی رسم و رواج پر روپیہ پیسے کا خرچ ناموری اور
اظہار شان کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلامی اخلاق اس طرز عمل کو نہ صرف یہ کہ پسند نہیں
کرتا بلکہ رد کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’ان
اللّٰہ لا یحب المسرفینo‘‘
مفہوم:
’’اللہ تعالیٰ فضول خرچ لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں۔‘‘
پہلے دن یہ خواب دیکھا کہ
کچھ لوگ آئے ہیں اور ہمارے گھر کا سارا سامان نکال کر باہر جمع کر رہے ہیں۔ میں
اصرار کرتا ہوں کہ یہ سامان باہر نہیں جائے گا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر
ہے تمہیں یہ گھر چھوڑنا پڑے گا۔ میری والدہ اس طرح بے گھر ہونے کے تصور سے بہت
پریشان ہیں۔ گھر کا پورا سامان وہ لوگ باہر جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر ان کو
کسی نہ کسی طرح راضی کر کے سامان لے جانے سے روک دیا۔
دوسرے دن یہ دیکھا کہ میں
گھر کے صحن میں ایک تخت پر بیٹھا ہوں۔ والدہ اور میرے سب بھائی گھر میں موجود ہیں۔
ان سب کی نگاہیں بار بار میری طرف اٹھتی ہیں۔ پھر دیکھتا ہوں کہ مکان کی چھت پر
چڑھا ہوا ہوں۔ چھت کے وسط میں نہایت عمدہ انتہائی خوبصورت نور میں ڈھلا ہوا ایک
سفید رنگ گنبد رکھا ہے۔ میں نے اس نورانی گنبد کواٹھا کر چھت کی دونوں دیواروں کے
اوپر رکھ دیا۔ گنبد میں سے سفید دودھیا رنگ کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ ان شعاعوں میں
ایسی چمک دمک ہے کہ نظریں خیرہ ہو جاتی ہیں۔
میں خواب ہی میں سوچ رہا
ہوں کہ ایسی روشنیاں تو میں نے زندگی بھر کبھی نہیں دیکھیں۔
گنبد سے جیسے ہی نگاہ ہٹی
ہوا کا طوفان آ گیا اور تیز جھکڑ چلنے لگے۔ خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا اور کھڑے
کھڑے گر گیا۔ گرتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔
اس خواب کو دیکھنے کے بعد
میں دوہری کیفیت سے دوچار ہوں۔ جب گنبد اور اس کی شعاعوں کی طرف ذہن مرکوز ہوتا ہے
تو اپنے اندر خوشی کے فوارے ابلتے محسوس کرتا ہوں۔ جیسے ہی گنبد کی شبیہہ تصور میں
آتی ہے، محسوس ہوتا ہے کہ دل پھول کی طرح کھل گیا ہے۔ جب شعاعوں اور نورانی لہروں
کا تمثل سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دماغ میں انہی لہروں سے بنی ہوئی
پھلجھڑی جل اٹھی ہے۔ جلتی ہوئی پھلجھڑی سے گرتے اور بکھرتے ہوئے نورانی پھول
باقاعدہ میرے دماغ کی سطح پر گرتے ہیں۔ ان پھولوں کی ضرب کو گو کہ وہ بہت ہی لطیف
ہوتی ہے مگر میں محسوس کرتا ہوں۔ اس کیفیت میں خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان
سمجھتا ہوں۔ ہر غم، حزن و ملال اور پریشانی کا وجود ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ سوچتا
ہوں کہ پریشانی یا اس قبیل کی کسی چیز کا دنیا میں وجود ہی نہیں ہے۔ تلاش کرنے کے
بعد بھی غم دل یا اضطراب دماغ ہاتھ نہیں آتا۔
اور جب ہوا کے طوفان کی
طرف توجہ جاتی ہے تو اپنے اوپر قنوطیت اور باسیت کو مسلط پاتا ہوں۔ ہر چیز جکڑی
ہوئی، بندھی ہوئی، تڑپتی ہوئی اور سسکتی ہوئی، روتی ہوئی، غمناک ، دردناک اور عذاب
ناک صورت میں نظر آتی ہے۔ خود کو اپنے خیالات کو تصورات، احساسات کو پابند سلاسل
اور مقید دیکھتا ہوں۔ جی ہاں دیکھتا ہوں، محسوس نہیں کرتا۔ میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ
میرا جسم بذات خود بے جان گوشت پوست اور ہڈیوں کا پنجرہ ہے۔ اس پنجرہ کی اپنی کوئی
حرکت نہیں ہے۔ نہ یہ سوچ سکتا ہے، نہ محسوس کر سکتا ہے۔ رو سکتا ہے اور نہ ہنس
سکتا ہے۔ اس کی زندگی کی ہر حرکت، ہر خیال، ہر تصور، ہر احساس اور ہر لمس کی تصویر
دھاگوں یا ڈوریوں سے بندھی ہوئی ہے۔ یہ ڈوری کسی دوسری طاقت کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ
جس طرح چاہے اس پنجرہ کو حرکت دیتا ہے۔ چاہتا ہے تو رلا دیتا ہے اور دل میں آئے تو
ہنسا دیتا ہے۔ کبھی رونا، ہنسنا دونوں چھین لیتا ہے۔ کبھی غموں کے اتنے انبار جمع
کر دیتا ہے کہ دنیا کے سارے باسی اور دھرتی پر رہنے والی سب مخلوق، اشجار، پودے،
پھول، پھلواری، گھاس پھونس، چہچہاتے اور اڑتے پرندے، مست خرام چرند، چیونٹی سے لے
کر ہاتھی تک ہر مخلوق ہر ہستی، ہر نوع اور ہر فرد غم و اضطراب، کرب اور بے چینی،
درد اور اذیت کی لگائی ہوئی آگ میں اور اس بھڑکتی ہوئی آگ کے آسمان سے باتیں کرتے
ہوئے شعلوں میں کراہتے اور بھسم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں نے غم و اندوہ کے اس
سیلاب میں زندہ انسانوں کو ہی بہتے ہوئے نہیں دیکھا بلکہ مردہ جسم کے ہیولے بھی اس
نامراد سیلاب میں غوطہ کھاتے، الٹتے پلٹتے اور ڈوبتے دیکھے ہیں۔
میرے خواب کی تعبیر پر اس
طرح تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنے کی درخواست ہے جس طرح میں نے آپ کی خدمت میں خواب اور
خواب کے بعد کی کیفیات کو بیان کیا ہے۔
تعبیر:
بہت سے قرض لئے جا چکے
ہیں اور مستقبل میں بھی مزید قرضے لئے جانے کا پروگرام ہے۔ قرض کی ادائیگی میں
تاخیر سے اور زیادہ مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے۔ جس کی وجہ سے آپس میں اختلافات
رونما ہو سکتے ہیں۔ خاندان والوں کی امیدیں زیادہ تر خواب دیکھنے والے صاحب سے
وابستہ ہیں اور اس امید کو پورا کرنے کے سلسلے میں جدوجہد اور کوششیں ناکافی ہیں۔
دونوں خوابوں کی یہی تعبیر ہے۔
تجزیہ:
مکان اور مکان خالی کرنے
کا تقاضا اور لوگوں کا آپ کے مکان کو اپنی ملکیت بتانا مظاہر ہیں ان قرضوں کے جو
اب تک لئے جا چکے ہیں۔ سامان مکان سے باہر جمع کرنا اور خواب دیکھنے والے کی کوشش
کہ سامان باہر نہ جائے یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی قرضے لئے جانے کا پروگرام
ہے۔ بے گھر ہونے کے تصور سے والدہ کی پریشانی مسائل کی کمی کا تمثل ہیں۔ سامان لے
جانے سے روک دینا یا سامان لے جانے والوں کا سامان نہ لے جانے پر رضا مند ہونا اس
بات کی علامت ہے کہ قرض کی ادائیگی کا معین وقفہ زیادہ تر گزر چکا ہے اور کچھ باقی
ہے۔ افراد کنبہ کی نظریں آپ کی طرف اٹھنے میں اس قسم کے نشانات ہیں جن سے ظاہر
ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی زیادہ تر امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔ نورانی گنبد ناکافی
کوششوں کا تمثل ہے۔ شعاعیں یا لہروں سے نظر کا خیرہ ہونا اس بات کی نشاندہی ہے کہ
جدوجہد اور کوششوں میں استقلال نہیں ہے۔ گنبد کا نظروں سے اوجھل ہونا بھی اس علامت
کو ظاہر کرتا ہے۔ ہوا کا طوفان اور آپ کا ثابت قدم نہ رہنا یعنی کھڑے کھڑے گر جانا
نتائج کو منتشر کر دینے کی علامتیں ہیں۔ خواب میں یہ سوچنا کہ اس قسم کی روشنیاں
میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھیں، مایوسی اور پریشان خیالی کی طرف اشارہ ہے۔
مشورہ:
بہرکیف اللہ تعالیٰ پر
بھروسے سے، سب کے ساتھ تعاون سے جدوجہد کرنا بارآور ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیئے! مستقل
مزاجی کے ساتھ کوئی کام، کوئی کوشش کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ آپ نے یہ مثل تو سنی ہو
گی ’’ہمت مرداں مدد خدا‘‘ کامیابی۔۔۔۔۔۔ہمت، یقین،
عتماد، صلاحیتوں پر
بھروسہ اور مسلسل جدوجہد اور لگاتار کوشش سے تعبیر ہے۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔