Topics

خواب اور بزرگان دین کے اقوال

امام محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ

خواب تین قسم کے ہوتے ہیں:

۱۔ دلی خیالات کا انعکاس

۲۔ شیطانی وسوسے

۳۔ مبشرات خداوندی

خواب کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی خواب میں خیر اور منفعت و راحت دیکھتا ہے تو شر اور آفت دیکھتا ہے۔ بعد ازاں بعینہ یہی چیز بیداری میں پیش آ جاتی ہے۔ دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ بہت سے کند ذہن و کند فہم لوگ جو بیداری میں پڑھی ہوئی شاعری یا دنہیں کر سکتے بحالت خواب سنی ہوئی پوری پوری غزل بیدار ہونے پر سنا دیتے ہیں۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ان پڑھ شخص عالم رویاء میں کسی علمی محفل میں شریک ہوتا ہے اور بیدار ہونے پر علم و حکمت کی باتیں بیان کرنے لگتا ہے۔

بعض حالات میں شعور اس حد تک بیدار ہوتا ہے کہ خواب میں بھی تخلیق کا کام جاری رہتا ہے اور یہ تخلیق بیداری میں کی گئی تخلیق سے عمدہ ہوتی ہے۔ دنیائے ادب کے بہت سے شاہکار ایسے ہی خواب میں تخلیق ہوئے مثلاً جلال الدین رومیؒ نے اپنے بعض بہترین اشعار نیند کی حالت میں کہے۔ یہی حالت رابندرناتھ ٹیگور کی تھی۔ کولرج(Coleridge)نے اپنی مشہور نظم ’’کبلا خان‘‘ خواب میں لکھی۔ جاگتے ہی اس نے اسے قلم بند کرلیا۔ ابھی نظم پوری نہیں ہوئی تھی کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ دستک کی آواز سنتے ہی باقی سب اشعار حافظہ سے محو ہو گئے۔

مصر کے صوفی شاعر ابن فارض کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے سارے عمدہ قصائد خواب میں وضع کئے اور بیدار ہونے پر لکھے۔ اس ضمن میں شیخ سعدی کا وہ شہرۂ آفاق شعر جو انہوں نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متعلق خواب میں فرمایا تھا، بہترین مثال ہے:

حسن یوسف عدم عیسیٰ ید بیضاداری

آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

حضرت امام غزالیؒ ایک شخص کا خواب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس پر اس قدر شہوت غالب ہوئی کہ وہ متحمل نہ ہو سکا اور اس نے بہت آہ و زاری کے ساتھ دعا کی۔ اس نے خواب میں بزرگ کو دیکھا کہ بزرگ سینے پر ہاتھ پھیر رہے ہیں جب بیدار ہوا تو طبیعت کو پرسکون پایا۔ ایک سال بعد پھر شہوت کا زور ہوا۔ پھر انہی بزرگ کو خواب میں دیکھا۔ بزرگ نے پوچھا کیا تو یہ چاہتا ہے کہ تیرے اندر شہوت ختم ہو جائے۔ اس شخص نے کہا کہ ہاں میں یہی چاہتا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا۔’’گردن جھکا لے۔‘‘ جب گردن جھکائی تو بزرگ نے تلوار سے گردن پر وار کیا۔ جس کے باعث اس کی شہوت کافی عرصہ کے لئے ختم ہو گئی۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

’’دل آئینے کی مانند ہے اور لوح محفوظ اس آئینہ کی مانند ہے جس میں تمام موجودات کی تصویریں موجود ہیں۔ اور صاف آئینے کو جب تصویروں کے سامنے کرتے ہیں تو اس میں بھی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح دل جب آئینے کی طرف صاف ہو اور محسوسات سے قطع تعلق کر لے تو لوح محفوظ سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ لوح محفوظ میں موجودات کی جو تصویریں موجود ہیں دل کے آئینے میں نظر آتی ہیں۔ یہی حال خواب کا ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم کرمانیؒ کہتے ہیں کہ:

جو شخص اپنے خواب کو علامت اور دلیل کے ساتھ اچھی طرح جاننا چاہتا ہے، حتی المقدور طہارت کے ساتھ دائیں پہلو پر سو جائے۔ اللہ کریم کو یاد کرے اور کھانا آدھا پیٹ کھائے۔

حضرت جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ:

اللہ کریم کو خواب میں دیکھنے کی سات تعبیرات ہیں۔

۱۔ معافی اور بخشش

۲۔ بلا اور مصیبت سے امن

۳۔ ہدایت اور دین میں ترقی

۴۔ ظالموں پر فتح

۵۔ آخرت کے عذاب سے امن

۶۔ رعایا اور عادل بادشاہ

۷۔ دنیا وآخرت میں عزت و شرف۔

شیخ الرئیس ابو علی حسین بن عبداللہ بن سینا کا قول ہے کہ ہر انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے خواب دیکھتا ہے۔

۱۔ جس شخص کے مزاج میں حرارت کا غلبہ ہو وہ خواب میں آگ یا دھوپ دیکھتا ہے۔

۲۔ جس شخص کے مزاج میں سردی کا غلبہ ہو وہ خواب میں برف یا خود کو ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگاتے ہوئے دیکھتا ہے۔

۳۔ غرضیکہ جس شخص میں جس خلط کا غلبہ ہوتا ہے وہ اسی کے موافق خواب دیکھتا ہے۔

ڈراؤنے خواب دیکھنے کے ضمن میں حکیم بو علی سینا کہتا ہے کہ خوب پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں۔ شکم سیر ہو کر کھانے سے معدے میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ جس سے اعصاب متاثر ہوتے ہیں اور اعصاب متاثر ہونے سے قوت متخیلہ اور قوت متصورہ دماغ کو بھاری کر دیتی ہے اور آدمی ڈراؤنے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جب تک معدہ غذا سے بھرا ہوا ہو، سویا نہ جائے۔

حکمائے طب خواب کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں۔ ایک طبعی دوسری غیر طبعی۔ طبعی حرارت غریزی کو قائم رکھتی ہے۔ لیکن قوائے نفسانی پر رطوبت غالب آ جائے تو اعصاب سست ہو جاتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جو فضلات جسم میں جمع ہو گئے ہیں ان کو پسینہ کے ذریعے خارج کر دیا جائے۔

غیر طبعی خواب تین قسم کے ہیں:

۱۔ مزاج میں اعتدال نہ ہونے سے جسم میں فساد برپا ہو جاتا ہے۔

۲۔ اخلاط کی زیادتی سے خون اور صفرا اور سودا زیادہ ہو جاتا ہے۔

۳۔ غلیظ غذاؤں کے کھانے سے دماغ میں فاسد خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خشک مزاج آدمی کو نیند کم آتی ہے اور گرم و تر مزاج آدمی کو نیند زیادہ آتی ہے۔

نیند کے دوران جزوی اور بسا اوقات کُلی طور پر شعور معطل ہو جاتا ہے۔ افکار و تصورات، ذہنی اور جسمانی افعال پر قابو نہیں رہتا۔ شعوری تعطل کے علاوہ خواب میں کیمیاوی تبدیلی بھی واقع ہوتی ہے۔ اس کیمیاوی تبدیلی سے نیند میں جو سانس لیا جاتا ہے۔ وہ گہرا ہوتا ہے۔ بیداری میں سانس کی آمد و رفت کے دوران پیٹ کا گھٹنا بڑھنا زیادہ ہوتا ہے اس کے برعکس خواب میں پسلیوں کا ابھار زیادہ ہوتا ہے۔ کسی بھی سوتے ہوئے آدمی کو دیکھا جائے کہ جب وہ سانس اندر لیتا ہے تو سانس گہرا ہوتا ہے اور اسی طرح جب وہ سانس باہر نکالتا ہے تو سانس باہر آنے میں بیداری کی نسبت جسم پر زیادہ زور پڑتا ہے۔ ایک کیمیاوی تبدیلی جس کی وجہ سے سو کر اٹھنے کے بعد اکثر اوقات آنکھ کے اندر کی سطح خشک ہو جاتی ہے۔ اگر آنکھوں کو ملا نہ جائے تو رطوبت پیدا کرنے والے غدودوں کا فعل دیر میں بیدار ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نیند کے دوران نبض سست پڑ جاتی ہے۔ اعضاء سکڑ جاتے ہیں۔ سو کر اٹھنے کے بعد اگر قد ناپا جائے تو کم ہوتا ہے۔

اکثر لوگ بے خوابی کا ذکر بھی کرتے ہیں اور یہ بے خوابی رفتہ رفتہ کسی نہ کسی نفسیاتی مرض کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہے۔ بے خوابی اصل میں تکنیکی لحاظ سے بے چین یا مضطرب نیند کی انتہائی صورت ہے۔ نیند کا کم آنا، نیند کا ٹوٹ ٹوٹ کر آنا یا نیند کا بالکل نہ آنا، یہ مخصوص حالتیں ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے مزاجی کیفیات میں ابتری پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ لوگ جو زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور جن کی نیند گہری اور مسلسل نہیں ہوتی ان کے دماغ میں وہ خلئے جن کے اوپر اچھی اور مثالی صحت کا دارومدار ہے کمزور ہو جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ خواب ہر انسان کی باطنی اور نفسیاتی زندگی کا آئینہ دار ہے۔

میں مؤلف کتاب خواجہ شمس الدین عظیمی عرض کرتا ہوں کہ انسانی حواس رنگوں سے بنتے ہیں۔ اور رنگوں کی زیادتی اور کمی سے خواب کے حواس بھی متاثر ہوتے ہیں۔

عام مشاہدہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے میں کوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ عالم رنگ و بو میں کوئی شئے بے رنگ نہیں ہے۔ حیات میں رنگوں اور لہروں کا ایک مکمل نظام برسر عمل ہے۔ رنگوں اور لہروں کا خاص توازن کے ساتھ عمل پذیر ہونا صحت کا ضامن ہے۔ اگر کسی وجہ سے رنگوں کے نظام میں خلل واقع ہو جائے، کوئی رنگ زیادہ یا کم ہو جائے یا رنگوں کی مقداروں میں فرق آ جائے تو محسوسات میں بھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔

نیلے رنگ کی کمی سے تمام قسم کے دماغی امراض، گردن اور کمر میں درد، ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خرابی، ڈپریشن، احساس محرومی، کمزور قوت ارادی جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ امراض لاحق ہو جانے سے خوابوں کی کیفیات بدل جاتی ہیں۔ امراض سے چھٹکارا پانے کے لئے لاشعور اس انداز میں رہنمائی کرتا ہے کہ مریض خواب میں نیلا رنگ یا نیلے رنگ سے مرکب اشیاء کو دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں نیلے آسمان کے نیچے موجود ہوں۔ کبھی نیلی روشنیوں کی بارش ہوتے اور خود خود کو اس بارش میں بھیگتے ہوئے دیکھتا ہے اور کبھی اسے اپنا سراپا نیلی روشنیوں کا بنا ہوا نظر آتا ہے۔

زرد رنگ کی مقداروں میں اعتدال نہ رہے تو نظام ہضم ، حبس ریاح، آنتوں کی دق، پیچش، قبض، بواسیر، معدہ کا السر وغیرہ بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ مادی جسم کے گرد روشنیوں کے ہالے میں جب زرد رنگ کی کمی ہو جاتی ہے تو خواب میں اس کے اشارات ملنے لگتے ہیں۔ مریض خود کو زرد لباس میں ملبوس دیکھتا ہے کبھی کھانے پینے کی اشیاء میں زرد رنگ غالب نظر آتا ہے۔ سرسوں کے پھول کے کھیت نظر آتے ہیں۔ ایسے پھل خواب میں نظر آتے ہیں جن میں زرد رنگ غالب ہوتا ہے۔

نارنجی رنگ سے مزین اشیاء خواب میں اس وقت نظر آتی ہیں جب جسم سینے کے امراض مثلاً دق، سل، پرانی کھانسی، دمہ وغیرہ سے متاثر ہو۔

ہائی بلڈ پریشر اور خون میں حدت سے پیدا ہونے والے امراض، جلدی بیماریاں خارش، آتشک ، سوزاک، چھیپ، ایگزیما وغیرہ سے شفا یابی کے لئے مریض سبز روشنی خود پر محیط دیکھتا ہے یا یہ دیکھتا ہے کہ پورے ماحول میں سبز روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
سرخ رنگ کی کمی واقع ہونے لگتی ہے تو لو بلڈپریشر، اینیمیا، گٹھیا، دل کا گھٹنا، دل کا ڈوبنا، توانائی کا کم محسوس ہونا، نروس بریک ڈاؤن، دماغ میں مایوس کن خیالات آنا، بزدلی، موت کا خوف اور ڈپریشن جیسے امراض آدمی کو گھیر لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں سرخ رنگ خواب میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جسم میں سرخ رنگ کی کمی ہو گئی ہے۔

جنسی امراض لاحق ہونے کی وجہ جامنی رنگ کی کمی ہے۔ جبکہ مرگی، ذہن میں منفی خیالات آنا، دنیا بیزاری، ذہن کا ماؤف ہونا وغیرہ ایسے امراض ہیں جو گلابی رنگ کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں اور خواب میں آدمی اس رنگ کو بار بار دیکھتا ہے۔
خواب میں جب رنگ نظر آتے ہیں تو طبیعت ان کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے یا بیزاری محسوس کرتی ہے۔ بیزاری کا احساس ان رنگوں کی زیادتی کا مظہر ہے جبکہ طبیعت کا میلان متعلقہ رنگ کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

یونانی حکیم بیماریاں کو علاج بھی خواب کے ذریعے تلاش کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب ان کے پاس کوئی مریض آتا تھا تو اسے وہ اپالو کے مندر لے جاتے۔ وہاں نہلا دھلا کر اس کے اوپر عطر اور گلاب چھڑکتے تھے۔ اتنا زیادہ گلاب اور عطر ڈالتے تھے کہ اس کے جسم کے ہر عضو میں خوشبو بس جاتی تھی۔ مریض کو ہپناٹائزڈ کر کے قربانی کی کھال پر لٹا دیتے تھے اور جو خواب اسے نظر آتا تھا خواب کی علامات میں غور و فکر کر کے مندر کے پروہت تعبیر نکالتے تھے اور علاج تجویز کرتے تھے۔

 

Topics


Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01

خواجہ شمس الدین عظیمی

آسمانی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ:

خواب مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

عام آدمی بھی مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔



 

 

  

 

انتساب


حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے  حالات کی نشاندہی کی

اور

جن کے لئے اللہ نے فرمایا:

اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔