Topics
بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو ۔اس کا دل اللہ کی محبت سے سر شار ہو ۔اس کے اندر عبا دت کا ذوق اور اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں بدلتا ہو۔بندے کا اللہ کے ساتھ اس طر ح تعلق استوار ہو جا ئے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جا ئے ۔ اور بندہ اپنے پو رے ہو ش و حواس میں جا ن لے کہ میرا اللہ کے ساتھ ایک ایسا رشتہ ہے جو کسی آن ،کسی لمحے اور کسی وقفے میں نہ ٹوٹ سکتا ہے نہ معطل ہوسکتا ہےاور نہ ختم ہو سکتا ہے یہ بات بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے با خبر ہواور اس کا دل اس کی تصدیق کر ے کہ میں نے عالم ارواح میں اس بات کا عہد کیا ہے میرا رب مجھے بنانے والا ،خدوخال بخش کر میری پرورش کر نے والا اور میرے لئے وسائل فراہم کر نے والا اللہ ہے اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ کہ میں زندگی خواہ کسی عالم میں ہوآپ کا بندہ ہو کر گزاروں گا ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اس کتاب کے پیش لفظ میں حضرت عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں ’’کائنات کیا ہے، ایک نقطہ ہے، نقطہ نور ہے اور نور روشنی ہے۔ ہر نقطہ تجلی کا عکس ہے۔ یہ عکس جب نور اور روشنی میں منتقل ہوتا ہے تو جسم مثالی بن جاتا ہے۔ جسم مثالی کامظاہرہ گوشت پوست کا جسم ہے۔ہڈیوں کے پنجرے پر قائم عمارت گوشت اور پٹھوں پر کھڑی ہے۔ کھال اس عمارت کے اوپر پلاسٹر اور رنگ و روغن ہے۔وریدوں، شریانوں، اعصاب، ہڈیوں، گوشت اور پوست سے مرکب آدم زاد کی زندگی حواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
حواس کی تعداد پانچ بتائی جاتی ہے جبکہ ایک انسان کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار حواس کام کرتے ہیں۔میں نے چونسٹھ سال میں تیئس ہزار تین سو ساٹھ سورج دیکھے ہیں۔تیئس ہزار سے زیادہ سورج میری زندگی میں ماضی ، حال اور مستقبل کی تعمیر کرتے رہے ۔ میں چونسٹھ سال کا آدمی دراصل بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے کا بہروپ ہوں۔ روپ بہروپ کی یہ داستان المناک بھی ہے اور مسرت آگیں بھی۔ میں اس المناک اور مسرت آگیں کرداروں کو گھاٹ گھاٹ پانی پی کر کاسۂ گدائی میں جمع کرتا رہا اور اب جب کہ کاسۂ گدائی لبریز ہوگیا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں روپ بہروپ کی یہ کہانی پیش کررہا ہوں‘‘۔۲۸۳ عنوانات کے تحت آپ نے اس کتاب میں اپنی کیفیات کوبیان فرمایاہے۔