Topics
ملک الریان شاہ مصر نے
تمام درباریوں کو جمع کر کے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے ہے کہ سات گائیں ہیں
انہیں سات دبلی گائیں نگل رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات دوسری سوکھی۔
بادشاہ کے دربار میں
ماہرین خواب نے اس خواب کو بادشاہ کی پریشان خیالی کا مظہر قرار دیا۔ لیکن حضرت
یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات برس تک تم لگاتار کھیتی کرتے
رہو گے۔ ان سات برسوں میں غلے کی خوب فراوانی ہو گی اور اس کے بعد سات برس بہت سخت
مصیبت کے آئیں گے اور سخت قحط پڑ جائے گا۔ ان سات سالوں میں وہی غلہ کام آئے گا جو
پہلے سات سالوں میں ذخیرہ کیا گیا ہو گا۔
شاہ بابل بنوکدنضر نے
اپنی حکومت کے دوسرے سال ایک خواب دیکھا جس کا تذکرہ کتاب مقدس (نیا اور پرانا عہد
نامہ) کے باب ’’دانی ایل‘‘ میں ان الفاظ میں ہے:
’’پلنگ پر میرے دماغ کی
رویا یہ تھی۔ میں نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ زمین کے وسط میں ایک نہایت
اونچا درخت ہے۔ وہ درخت بڑھا اور مضبوط ہوا اور اس کی چوٹی آسمان تک پہنچی اور وہ
زمین کی انتہا تک دکھائی دینے لگا۔ اس کے پتے خوشنما تھے اور میوہ فراوان تھا اور
اس میں سب کے لئے خوراک تھی۔ میدان کے چرندے اس کے سایہ میں اور ہوا کے پرندے اس
کی شاخوں پر بسیرا کرتے تھے اور تمام بشر نے اس سے پرورش پائی۔ میں نے اپنے پلنگ
پر اپنی دماغی رویا پر نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نگہبان، ہاں ایک قدسی
آسمان سے اترا۔ اس نے بلند آواز سے پکارا اور یوں کہا کہ درخت کو کاٹو۔ اس کی
شاخیں تراشو اور اس کے پتے جھاڑو اور اس کا پھل بکھیر دو۔ چرندے اس کے نیچے سے چلے
جائیں اور پرندے اس کی شاخوں پر سے اڑ جائیں۔ لیکن اس کی جڑوں کا کندہ زمین میں
باقی رہنے دو۔ ہاں لوہے اور تانبے کے بندھن سے بندھا ہوا میدان کی ہری گھاس میں
رہنے دو اور وہ آسمان کی شبنم سے تر ہو اور اس کا حصہ زمین کی گھاس میں حیوانوں کے
ساتھ ہو۔ اس کا دل انسان کا دل نہ رہے بلکہ اس کو حیوان کا دل دیا جائے اور اس پر
سات دور گزر جائیں۔ یہ حکم نگہبانوں کے فیصلہ سے ہے اور یہ امر قدسیوں کے کہنے کے
مطابق ہے تا کہ سب ذی حیات پہچان لیں کہ حق تعالیٰ آدمیوں کی مملکت میں حکمرانی
کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے بلکہ آدمیوں میں سے ادنیٰ آدمی کو اس پر
قائم کرتا ہے۔‘‘
بندکدنضر بادشاہ اس خواب سے پریشان ہو گیا۔ اس نے شاہی فرمان کے ذریعے بابل کے
تمام ماہرین خواب اور نجومیوں کو دربار میں طلب کر کے خواب کی تعبیرچاہی۔ لیکن
کوئی بھی اس کی تعبیر بیان نہ کر سکا۔ تب حضرت دانیالؑ جن کا تعلق بنی یہودہ سے
تھا بادشاہ کے سامنے آئے۔ بادشاہ نے اپنا خواب بیان کر کے ان سے تعبیر چاہی کتاب
مقدس میں اس کا ذکر اس طرح ہے:
’’اے بیلطشقر تو اس کی
تعبیر بیان کر کیونکہ میری مملکت کے تمام حکیم مجھ سے اس کی تعبیر بیان نہیں کر
سکتے لیکن تو کر سکتا ہے كیونکہ مقدس روح
تجھ میں موجود ہے۔ تب دانی ایل جس کا نام بیلطشفر ہے، ایک ساعت تک سراسیمہ رہا اور
اپنے خیالات میں پریشان ہوا۔ بادشاہ نے اس سے کہا اے بیلطشفر خواب اور اس کی تعبیر
سے تو پریشان نہ ہو۔ بیلطشفر نے جواب دیا۔ اے بادشاہ یہ خواب تجھ سے کینہ رکھنے
والوں کے لئے اور اس کی تعبیر تیرے دشمنوں کے لئے ہو۔ وہ درخت جو تو نے دیکھا کہ
بڑھا اور مضبوط ہوا جس کی چوٹی آسمان تک جا پہنچی اور زمین کی انتہا تک دکھائی
دیتا تھا، جس کے پتے خوشنما تھے اور میوہ فراوان تھا، جس میں سب کے لئے خوراک تھی،
جس کے سایہ میں میدان کے چرندے اور شاخوں پر ہوا کے پرندے بسیرا کرتے تھے۔ اے
بادشاہ وہ تُو ہی ہے جو بڑھا اور مضبوط ہوا کیونکہ تیری بزرگی بڑھی اور آسمان تک پہنچی
اور تیری سلطنت زمین کی انتہا تک اور جو بادشاہ نے دیکھا کہ ایک نگہبان، ہاں ایک
قدسی آسمان سے اترا اور کہنے لگا کہ درخت کو کاٹ ڈالو اور اسے برباد کر دو لیکن اس
کی جڑوں کا کندہ زمین میں باقی رہنے دو۔ بلکہ اسے لوہے اور تانبے کے بندھن سے
بندھا ہوا میدان کی ہری گھاس میں رہنے دو کہ وہ آسمان کی شبنم سے تر ہو اور جب تک
اس پر سات دور نہ گزر جائیں اس کا حصہ زمین کے حیوانوں کے ساتھ ہو، اے بادشاہ اس
کی تعبیر اور حق تعالیٰ کا وہ حکم جو بادشاہ کے حق میں ہوا ہے یہی ہے کہ تجھے
آدمیوں میں سے ہانک کر نکال دیں گے اور تو میدان کے حیوانوں کے ساتھ رہے گا اور تو
بیل کی طرح گھاس کھائے گا اور آسمان کی شبنم سے تر ہو گا اور تجھ پر سات دور گزر
جائیں گے۔ تب تجھ کو معلوم ہو گا کہ حق تعالیٰ انسان کی مملکت میں حکمرانی کرتا ہے
اور اسے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور یہ جو انہوں نے حکم کیا کہ درخت کی جڑوں کے
کندہ کو باقی رہنے دو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو جان جائے گا کہ بادشاہی کا اقتدار
آسمان کی طرف سے ہے تو تُو اپنی سلطنت پر پھر قائم ہو جائے گا۔‘‘
کتاب مقدس میں بندکدنضر
بادشاہ کے ایک اور خواب کا تذکرہ ہے کہ کواب دیکھنے کے بعد بادشاہ نے تمام ماہرین
حکمت اور دانشوروں کو طلب کر کے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ تم بتاؤ کہ خواب
میں، میں نے کیا دیکھا اور اس کی تعبیر کیا ہے؟ نجومیوں اور فال معلوم کرنے والوں
نے کہا کہ روئے زمین پر ایسا تو کوئی نہیں جو بادشاہ کی بات بتا سکے اور نہ کوئی
ایسا بادشاہ گزرا ہے جس نے کسی نجومی یا فال بتانے والے سے اس قسم کا سوال کیا ہو۔
بادشاہ نے تمام حکیموں اور دانشوروں کے قتل کا حکم دے دیا۔ تب حضرت دانیالؑ اس قتل
عام پر معمور بادشاہ کے کارندوں کے سردار اریوک کے پاس گئے اور کہا ’’بابل کے
حکیموں کو ہلاک نہ کر بلکہ مجھے بادشاہ کے پاس لے چل میں بادشاہ کے خواب کی تعبیر
دوں گا۔‘‘
کتاب مقدس کے باب ’’دانی
ایل‘‘ میں مذکور ہے:
’’دانی ایل نے بادشاہ سے
کہا کہ وہ بھید جو بادشاہ نے پوچھا حکماء اور نجومی اور جادوگر اور فالگیر بادشاہ
کو بتا نہیں سکتے۔ لیکن آسمان پر ایک خدا ہے جو راز کی باتیں آشکار کرتا ہے اور اس
نے بندکدنضر بادشاہ پر ظاہر کیا ہے کہ آخری ایام میں کیا وقوع میں آئے گا۔ تیرا
خواب اور تیرے دماغی خیال جو تو نے اپنے پلنگ پر دیکھے، یہ ہیں۔ اے بادشاہ تو اپنے
پلنگ پر لیٹا ہوا خیال کرنے لگا کہ آئندہ کو کیا ہو گا۔ سو جو رازوں کو کھولنے والا
ہے تجھ پر ظاہر کرتا ہے کہ کیا کچھ ہو گا۔ اے بادشاہ! تو نے ایک بڑی مورت دیکھی وہ
بڑی مورت جس کی رونق بے انتہا تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبتناک
تھی۔ اس کا سر خالص سونے کا تھا۔ اس کا سینہ اس کے بازو چاندی کے تھے۔ اس کا شکم
اور اس کی رانیں تانبے کی تھیں۔ اس کی ٹانگیں لوہے کی اور اس کے پاؤں کچھ لوہے کے
اور کچھ مٹی کے تھے۔ تو اسے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک پتھر ہاتھ لگائے بغیر کاٹا
گیا اور اس مورت کے پاؤں پر لگا جو کچھ لوہے اور کچھ مٹی کے تھے اور ان کو ٹکڑے
ٹکڑے کر دیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور
تابستانی کھلیان کے بھوسے کی مانند ہوئے اور ہوا ان کو اڑا لے گئی یہاں تک کہ ان
کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو توڑا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام
زمین پر پھیل گیا۔‘‘
خواب بیان کرنے کے بعد
حضرت دانیالؑ نے تعبیر بیان کی:
’’اے بادشاہ! تو شاہنشاہ
ہے جس کو آسمان کے خدا نے بادشاہی و توانائی اور قدرت و شوکت بخشی ہے اور جہاں
کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چرندے اور ہوا کے پرندے تیرے حوالے کر
کے تجھ کو ان سب کا حاکم بنایا ہے۔ وہ سونے کا سر تو ہی ہے اور تیرے بعد ایک اور
سلطنت قائم ہو گی۔ جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت جو تانبے کی
طرح ہو گی، جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو
گی اور جس طرح لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب آتا ہے ہاں جس طرح لوہا سب چیزوں
کو ٹکڑے ٹکڑے کرتاہے اور کچلتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی۔
اور جو تو نے دیکھا کہ اس کے پاؤں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی مٹی کی اور کچھ
لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا
مٹی سے ملا ہوا تھا اس میں لوہے کی مضبوطی ہو گی اور چونکہ پاؤں کی انگلیاں کچھ
لوہے اور کچھ مٹی کی تھیں اس لئے سلطنت کچھ قوی اور کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے
دیکھا کہ لوہا مٹی سے ملا ہوا تھا وہ بنی آدم سے آمیختہ ہوں گے لیکن جیسے لوہا مٹی
سے میل نہیں کھاتا ویسے ہی وہ بھی باہم میل نہ کھائیں گے اور ان بادشاہوں کے ایام
میں آسمان کا خدا ایک سلطنت اور قائم کرے گا۔ جو تا ابد نیست نہ ہو گی اور اس کی
حکومت کسی دوسری قوم کے حوالے نہ کی جائے گی بلکہ وہ ان تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے
اور نیست و نابود کر دے گی۔ جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر ہاتھ لگائے بغیر ہی
پہاڑ سے کاٹا گیا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے
ٹکڑے کیا۔ خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو جو کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ
خواب یقینی ہے اور اس کی تعبیر بھی یقینی ہے۔‘‘
خسرو پرویز نے خواب میں
دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام عربی گھوڑے پر سوار اس کی طرف آئے اور
فرمایا:
’’اے نوجوان مرد! اسلام
قبول کر اور کفر سے توبہ کر۔‘‘
خسرو نے جب انکار کیا تو
سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام ناراض ہوئے اور خسرو پر تازیانہ مارا۔ خواب کے نقوش
اتنے گہرے تھے کہ خسرو اس صدمے سے بیدار ہو گیا اور رات کا آرام اور دن کا چین ختم
ہو گیا۔ نیند غائب ہو گئی اور تین مہینے بستر پر بیمار پڑا رہا۔
ہارون الرشید نے انتقال
سے پہلے خواب دیکھا کہ طوس کا حاکم بنا دیا گیا ہوں۔ صبح کو روتے ہوئے اس نے کہا کہ
میری قبر تیار کر دی
خلیفہ ہارون الرشید کی
ملکہ زبیدہ نے اپنے بیٹے امین الرشید کی پیدائش کی رات خواب دیکھا کہ اور عورتوں
نے امین الرشید کو کفن میں لپیٹنا شروع کر دیا ہے۔
لیٹتے وقت ایک عورت نے
دوسری عورت سے کہا۔ ’’کم عقل تنگ دل، بدخو بادشاہ۔‘‘
دوسری نے کہا۔ ’’بدچلن،
ظالم، نا سمجھ اور فضول خرچ فرمانروا۔‘‘
تیسری نے کہا۔ ’’گناہگار،
بے وفا، کم عقل اور ناتجربہ کار حکمران۔‘‘
چوتھی نے کہا۔ ’’دھوکہ
باز، عیاش اور مغرور تاجدار۔‘‘
تاریخ بتاتی ہے کہ خواب
کا ایک ایک لفظ درست ثابت ہوا۔
یہ واقعہ ۵۵۷ ہجری میں رونما
ہوا۔
ایک رات ملک العادل نور
الدین زنگی سو رہا تھا کہ اسے خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب
ہوئی۔ اس وقت سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔ آپﷺ نے نور
الدین زنگی کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’نور الدین! یہ دو آدمی ہمیں ستا رہے ہیں ان کے
شر کا خاتمہ کر دے۔‘‘
نور الدین زنگی اسی وقت
بیدار ہو گیا، وضو کیا۔ نفل پڑھے اور پھر سو گیا۔ اس نے دوبارہ خواب میں وہی کچھ دیکھا،
پھر دوبارہ اٹھا وضو کیا اور نفل ادا کئے۔ لیٹنے کے بعد اس نے تیسری بار پھر وہی
خواب دیکھا اب کی بار اس نے دشمنان رسولﷺ کو نہایت گہری نظر سے دیکھا اور ان کی
تمام شناختیں اچھی طرح ذہن میں محفوظ کر لیں۔ اسے یقین ہو گیا کہ ہو نہ ہو مدینہ
منورہ میں کوئی المناک واقعہ پیش آ رہا ہے جس کی سرکوبی اس کا فرض ہے۔ لہٰذا جب وہ
تیسری بار بیدار ہوا تو اس نے اپنے وزیر کو طلب کیا اور مدینہ منورہ پہنچنے کے لئے
تیاری کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ تیاریاں مکمل ہونے پر یہ تاریخ ساز سلطان، صلاح
الدین ایوبی کا پیش رو مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا اور دو ہفتوں میں وہاں
پہنچ گیا۔
مدینہ منورہ میں قیام کے
بعد اس نے وہاں کے حکام کو حکم دیا کہ وہ شہر کی کل آبادی سے فرداً فرداً ملاقات
کرنا چاہتا ہے اور کوئی فرد بھی اس حکم سے بالاتر نہ سمجھا جائے اور اس کے لئے
جملہ تدابیر بروئے کار لائی جائیں۔
چنانچہ تمام تدابیر
آزمائی گئیں۔ اہل مدینہ سے ملاقاتیں کی گئیں دعوتیں ہوئیں۔ انعامات کی بارش ہوئی
مگر سلطان کو مطلوبہ شیطان پرست لوگ دکھائی نہ دیئے۔ آخر ایک دن سلطان نے مدینہ کے
حکام سے دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا شخص رہ گیا ہے جس نے ہم سے ملاقات نہ کی ہو۔
جواب ملا، ’’دو مغربی درویش اپنے حجرے ہی میں رہتے ہیں اور ذکر الٰہی میں مصروف
رہتے ہیں۔ لوگوں سے میل جول سے ہر طرح گریز کرتے ہیں۔‘‘ سلطان نے سختی کے ساتھ
انہیں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ جیسے ہی وہ سلطان کے روبرو لائے گئے اس نے
چشم زدن میں انہیں شناخت کرایا کہ مطلوبہ دو اشخاص وہی ہیں۔ سلطان نے بحیثیت مجرم
کر کے انہیں شناخت کیا مگر رائے عامہ کا اصرار تھا کہ یہ درویش ہیں اور بے ضرر
ہیں۔ سلطان بلا توقف انہیں ساتھ لے کر ان کے حجرے میں پہنچ گیا۔
انہیں حجرے کے باہر کھڑا کر کے اندر گیا۔ کہتے
ہیں وہاں سلطان کو ایک طاقچے پر قرآن حکیم کا ایک نسخہ ملا۔ کچھ پندو نصائح کی
کتابیں ملیں۔ ایک طرف مال کا ڈھیر ملا جسے وہ مدینہ کے فقراء اور مساکین پر صرف
کیا کرتے تھے۔ کمرے کی تلاشی کے دوران جب فرش پر بچی ہوئی چٹائیاں اٹھوا کر فرش کا
چپہ چپہ غور سے دیکھا گیا تو ایک سل اپنی جگہ سے اکھڑی ہوئی تھی۔ جب یہ سل اٹھائی
گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے نیچے ایک سرنگ کا راستہ ہے۔ سرنگ کا دوسرا سرا روضہ
اطہر کے اندر پہنچ رہا تھا۔ ایک روایت کے مطابق روضہ اطہر میں نقب لگانے والے حضرت
عمر فاروقؓ کے جسد مبارک تک پہنچ چکے تھے اور آپﷺ کا پاؤں مبارک نظر آ رہا تھا۔
نور الدین زنگی جب یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد باہر نکلے تو زبان پر ایک ہی جملہ رواں
تھا۔ ’’آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے غلام کو ایسے وقت میں یاد
فرمایا۔‘‘
درویش صورت، شیطان سیرت
مجرم یہودی تھے اور روضۂ اطہر سے بذریعہ سرنگ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسد
مبارک نکال کر لے جانے کا منصوبہ بنا کے آئے تھے۔ دن بھر حجرے میں عبادت کا ڈھونگ
رچا کر سرنگ کھودنے کا کام کرتے اور رات کے وقت مٹی کو مشکیزوں میں بھر کر باہر
پھینک آتے۔ نور الدین زندگی نے انہیں قتل کروا دیا۔
سلطان محمود غزنوی کے
والد سلطان امیر سبگتگین غزنی کی سلطنت پانے سے قبل اپنے قبیلے کے سردار تھے اور
ان ایام میں وہ عسرت اور جدوجہد کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا اکثر وقت سیر و شکار
میں صرف ہوتا تھا۔ ایک دن شکار کھیلنے کے لئے جا رہے تھے کہ ایک ہرنی اور اس کا
بچہ چرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ امیر سبگتگین نے اپنے تیز رفتار گھوڑے کو ایڑ لگائی
اور تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے ڈال دیا۔ ہرنی اور اس کا بچہ یہ صورت حال دیکھ کر
بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہرنی تو تیز بھاگ کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی مگر بچہ زیادہ دور
نہیں گیا تھا۔ سبگتگین نے اسے آ لیا اور تھوڑی سی جدوجہد کے بعد زندہ پکڑ لیا اور
گھر کی راہ لی۔
چلتے چلتے امیر سبگتگین
کو یہ احساس ہوا کہ کوئی ان کے پیچھے آ رہا ہے۔ پلٹ کر دیکھا تو ہرنی تھی۔ جو
پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ امیر نے اسے غور سے دیکھا تو ان کا دل دھل گیا۔ ہرنی
کا سارا وجود غم و اندوہ کا مرقع بنا ہوا تھا۔ اس کا انگ انگ رحم رحم پکار رہا
تھا۔ وہ اپنے بچے کے لئے ہر پہلو بے چین ہو رہی تھی۔ اور بڑی ملتجی نگاہ سے امیر
سبگتگین سے کہہ رہی تھی۔ ’’میرے بچے کو چھوڑ دے۔ میرے بچے کو چھوڑ دے۔‘‘
امیر سبگتگین ہرنی کے
اندر موجزن مامتا کے جذبے سے بے حد متاثر ہوا اور بچے کو آزاد کر دیا۔ بچہ قلانچیں
بھرتا ہوا اپنی ماں کے پاس پہنچ گیا۔ اب ہرنی بہت مطمئن اور مسرور تھی۔ اپنے بچے
کو لے کر جنگل کی طرف چل پڑی۔ مگر بار بار وہ پلٹ کر امیر سبگتگین کو دیکھتی رہی۔
بلاشبہ وہ امیر کی رحم دلی کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔ جب وہ گھنے جنگل میں نظروں سے
اوجھل ہو گئی تو امیر سبگتگین چل پڑا۔ اس وقت امیر خود کو لطیف اور مطمئن محسوس کر
رہا تھا۔
رات کو امیر سبگتگین نے
خواب میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا۔ آپﷺ نے امیر سبگتگین کو بشارت دیتے
ہوئے فرمایا:’’سبگتگین تم نے ہرنی پر رحم کیا، تمہارا یہ کام رب العالمین کو پسند
آیا اور تمہارا نام سلاطین کی فہرست میں درج کر لیا گیا ہے۔ اب تم عنقریب بادشاہ
بنا دیئے جاؤ گے لیکن سلطنت ملنے پر مغرور مت ہو جانا اور اپنی رعایا کے ساتھ اسی
طرح مہربانی کا سلوک کرنا۔‘‘
اس کے بعد امیر سبگتگین
کی آنکھ کھل گئی۔
تاریخ کی شہادت موجود ہے
کہ ایک معمولی قبیلے کا سردار غیر معمولی سلطنت کا بانی بنا۔
ایک بار سلطان محمودغزنوی
کو تین باتوں کے بارے میں شک ہو گیا۔ پہلا شک اس حدیث کے بارے میں تھا جس میں یہ
حقیقت بیان ہوئی ہے کہ علمائے حق انبیاء کے وارث ہیں۔ دوسرا شک قیامت کے بارے میں
تھا۔ اور تیسرا شک امیر ناصر الدین سبگتگین سے اپنی نسبت کے بارے میں تھا۔
یہ تین شکوک سلطان محمود
غزنوی کے لئے کوفت اور گرانی قلب کا باعث تھے۔ انہی ایام میں ایک مرتبہ سلطان
محمود غزنوی کہیں سے آ رہے تھے۔ فراش، شمع اور سونے کا شمع دان بھی ہمراہ تھا۔ ایک
جگہ دیکھا کہ ایک طالب علم مدرسہ میں اپنا سبق یاد کر رہا ہے اور اندرون مدرسہ
اندھیرا ہے۔ طالب علم کو کتاب کی تحریر دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہاں سے اٹھ
کر باہر آ جاتا اور ایک دکاندار کے چراغ کی روشنی میں تحریر کو دیکھ کر واپس اپنی
جگہ لوٹ جاتا تھا۔ اس منظر نے سلطان کے دل پر گہرا اثر کیا۔ اس نے فوراً اپنا شمع
دان طالب علم کو دے دیا۔ اسی شب سلطان کو سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت
نصیب ہوئی۔ سلطان نے دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں۔
’’اے امیر سبگتگین کے
بیٹے! خدا تجھے دونوں جہاں میں ایسی عزت دے، جیسی تو نے میرے وارث کو دی ہے۔‘‘
خواجہ قطب الدین بختیار
کاکیؒ فرماتے ہیں کہ سلطان شمس الدین التمش کو ایک یادگار حوض بنانے کی تمنا تھی۔
وہ اپنے مصاحبین کے ہمراہ موزوں اور عمدہ جگہ کے لئے سرگرداں رہتے تھے۔ آخر ایک دن
اس نے اپنے ذوق کے مطابق عمدہ جگہ تلاش کر لی اور پھر وہاں نشانات وغیرہ لگا کر
واپس اپنے محل آ گئے۔ التمش بڑا ذہین، شجاع، متقی، پرہیز گار اور خدا سے لو لگانے
والا حکمران تھا۔ اسی رات کو اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک کشیدہ قامت اور صاحب
جمال ہستی جن کی تعریف بیان کرنے کے لئے انسانی ذخیرہ الفاظ عاجز ہے، ایک گھوڑے پر
سوار ہیں چند اور ہستیاں بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ انہوں نے سلطان کو اپنے پاس بلایا
اور دریافت کیا۔ ’’کیا ارادہ رکھتا ہے؟‘‘سلطان نے عرض کیا کہ نیت تو یہ ہے کہ ایک
عمدہ حوض بنواؤں۔ اسی اثناء میں کسی نے کہا۔ ’’اے التمش! آپﷺ سیدنا علیہ الصلوٰۃ
والسلام ہیں۔ آپﷺ سے التجا کر کہ گوہر مقصود حاصل ہو جائے۔‘‘ یہ سنتے ہی سلطان نے
اپنا سر سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدموں میں رکھ دیا۔ اسی وقت اسپ رسولﷺ نے
زمین پر لات ماری اور وہاں سے چشمۂ آب پھوٹ پڑا۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا، ’’اے التمش! اس جگہ حوض بنا۔ یہاں سے ایسا پانی نکلے گا کہ اس جیسا آب
شیریں کہیں نہیں ملے گا۔‘‘
سلطان کی آنکھ کھل گئی۔
جلدی سے اٹھا اور خواب میں نشاندہی کی گئی جگہ پر پہنچا تو دیکھا کہ فی الواقع
زمین سے پانی بہہ رہا تھا۔ چنانچہ اس نے اسی جگہ حوض بنوایا جو آگے چل کر ’’حوض
شمسی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
خواجہ قطب الدین بختیار
کاکیؒ اپنی خواہش کے مطابق اسی حوض کے پاس مدفون ہوئے۔ یہ حوض مہرولی پرانی دہلی
میں ہے۔
ایک بار شیر شاہ سوری نے
خواب میں دیکھا کہ وہ دربار رسالت مآبﷺ میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ نصیر الدین
ہمایوں بھی موجود ہے۔ ہمایوں نے تاج شاہی پہنا ہوا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے ہمایوں کے سر سے تاج شاہی اتارا اور اسے شیر شاہ سوری کے سر پر رکھ
دیا اور فرمایا۔’’شیر شاہ! عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنا۔‘‘
اس زیارت کو ابھی زیادہ
دن نہیں گزرے تھے کہ شیر شاہ کی قلیل اور ہمایوں کی کثیر افواج میں بڑے غضب کا
معرکہ ہوا۔ ہمایوں نے شکست کھائی۔ بمشکل جان بچا کر بھاگا اور ایران چلا گیا جہاں
وہ پندرہ برس رہا۔
موسیٰ بن نصیر نے طارق بن
زیاد کو اندلس پر لشکر کشی کا حکم دیا۔ طارق اپنا سات ہزار کا لشکر چار کشتیوں میں
سوار کر کے آبنائے جبل الطارق کے پاس اندلس کے جنوبی کنارے پر جا اترا۔ طارق ابھی
ابنائے کے وسط ہی میں تھا اور اندلس کے ساحل پر نہیں پہنچا تھا کہ اس پر غنودگی
طاری ہو گئی۔ اسے عالم خواب میں زیارت نبویﷺ نصیب ہوئی۔ اس نے خواب میں دیکھا اور
سنا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اندلس تمہارے ہاتھ پر
فتح ہو جائے گا۔‘‘
اس کے فوراً بعد طارق کی
آنکھ کھل گئی اور اس کو اپنی فتح کا کامل یقین ہو گیا۔
Aap ke khwab aur unki tabeer jild 01
خواجہ شمس الدین عظیمی
آسمانی کتابوں میں
بتایا گیا ہے کہ:
خواب مستقبل کی
نشاندہی کرتے ہیں۔
عام آدمی بھی
مستقبل کے آئینہ دار خواب دیکھتا ہے۔
انتساب
حضرت یوسف علیہ السلام کے نام جنہوں نے خواب سن کر
مستقبل میں پیش آنے والے چودہ سال کے حالات
کی نشاندہی کی
اور
جن
کے لئے اللہ نے فرمایا:
اسی طرح ہم نے یوسف کو اس ملک میں سلطنت عطا فرمائی اور
اس کو خواب کی تعبیر کا علم سکھایا۔