Topics

یہ وقت بھی گزر جائے گا


کہتے ہیں کہ کسی ملک پر ایک نہایت سمجھدار بادشاہ حکومت کرتا تھا، ایک مرتبہ اس نے اپنے ملک کے تمام مفکروں اور دانشوروں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ یا مقولہ ہے کہ جو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، الگ الگ صورتحال اور مختلف اوقات میں اس ایک مقولے سے رہنمائی مل جائے۔۔۔۔۔۔کوئی ایسا مشورہ؟۔۔۔۔۔۔جب میرے پاس کوئی مشورہ دینے والا موجود نہ ہو تب مجھے صرف اس ایک بات یا مقولے سے رہنمائی مل سکے۔۔۔۔۔۔؟

تمام دانشور بادشاہ کی اس خواہش کو سن کر پریشان ہو گئے کہ آخر ایسی کون سی بات ہے جو کہ ہر وقت، ہر جگہ کام آئے۔۔۔۔۔۔؟ اور جو ہر قسم کی صورتحال، خوشی، غم، الم، آسائش، جنگ و جدل، ہار، جیت، غرض یہ کہ ہر جگہ مفید ثابت ہو۔۔۔۔۔۔؟
کافی دیر آپس میں بحث و مباحثہ کے بعد ایک سن رسیدہ مفکر نے ایک تجویز پیش کی جسے تمام دانشوروں نے پسند کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہو گئے۔۔۔۔۔۔

عمر رسیدہ مفکر نے بادشاہ کی خدمت میں ایک لفافہ پیش کیا اور کہا کہ اس لفافے میں وہ مقولہ موجود ہے، جس کی خواہش آپ نے کی تھی۔۔۔۔۔۔لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اس لفافے کو صرف اس وقت کھول کر دیکھیں گے جب آپ بالکل تنہا ہوں اور آپ کو کسی کی مدد یا مشورہ درکار ہو۔۔۔۔۔۔

بادشاہ نے یہ تجویز مان لی اور اس لفافے کو نہایت احتیاط سے اپنے پاس رکھ لیا۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصے کے بعد کسی دشمن ملک نے اچانک بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا۔۔۔۔۔۔حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ بادشاہ اور اس کی فوج بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔۔۔۔۔۔ایک ایک سپاہی نے بادشاہ کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے دفاع کی سرتوڑ کوشش کی لیکن بالآخر انہیں جنگ کے محاذ سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔۔۔۔۔۔

دشمن فوج کے سپاہی بادشاہ کو گرفتار کرنے کیلئے چپہ چپہ چھاننے لگے۔۔۔۔۔۔بادشاہ اپنی جان بچانے کیلئے بھاگتے بھاگتے ایسے پہاڑی مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں ایک طرف گہری کھائی تھی اور دوسری جانب دشمن کے سپاہی اس کا پیچھا کرتے ہوئے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔

اس صورتحال میں بادشاہ کو اچانک اس لفافے کا خیال آیا جو کہ اسے عمر رسیدہ دانشور نے دیا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے فوراً اپنی جیب سے وہ لفافہ نکال کر کھولا، اس میں ایک کاغذ تھا، جس پر لکھا تھا کہ۔۔۔۔۔۔’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔۔۔۔۔۔

بادشاہ نے حیران ہو کر تین چار مرتبہ اس تحریر کو پڑھا۔۔۔۔۔۔

اسے خیال آیا کہ یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔۔۔۔۔۔ابھی کل تک وہ اپنی سلطنت میں نہایت سکون کی زندگی گزار رہا تھا اور زندگی کے تمام عیش و آرام اسے میسر تھے۔۔۔۔۔۔جبکہ آج وہ دشمن کے سپاہیوں سے جان بچانے کیلئے دشوار گزار راستوں پر بھاگتا پھر رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟
جب آرام و عیش کے دن گزر گئے تو یقیناً یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔۔۔۔۔!

یہ سوچ کر اس کی بے چین کیفیت کو قرار آ گیا اور وہ پہاڑ کے آس پاس کے قدرتی مناظر کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر میں اسے گھوڑوں کے سموں کی آوازیں معدوم ہوتی محسوس ہوئیں، شاید دشمن کے سپاہی کسی اور طرف بڑھ گئے تھے۔
بادشاہ ایک بہادر انسان تھا۔۔۔۔۔۔جنگ کے بعد اس نے اپنے ہمدردوں اور وفاداروں کا کھوج لگایا، جو آس پاس کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔اپنی بچی کھچی قوت کو جمع کرنے کے بعد اس نے دشمن پر حملہ کیا، کئی حملوں کے بعد انہیں شکست دے دی اور اپنے وطن سے انہیں نکال دیا۔۔۔۔۔۔

جب وہ جنگ جیت کر اپنے دارالحکومت میں داخل ہو رہا تھا تو لوگوں کی بڑی تعداد اس کے استقبال کیلئے جمع تھی۔۔۔۔۔۔
اپنے بہادر بادشاہ کا خیر مقدم کرنے کیلئے لوگ شہر کی فصیل، گھروں کی چھتوں غرضیکہ ہر جگہ پھول لئے کھڑے تھے اور تمام راستے اس پر پھول نچھاور کرتے رہے۔۔۔۔۔۔ہر گلی کونے میں لوگ خوشی سے جھوم رہے تھے اور بادشاہ کی شان میں قصیدے گا رہے تھے۔۔۔۔۔۔بادشاہ بھی اپنے فوجی قافلے کے ساتھ بڑی شان سے خوبصورت گھوڑے پر سوار لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اس لمحے اس نے سوچا۔۔۔۔۔۔دیکھو! لوگ ایک بہادر کا استقبال کیسے کرتے ہیں۔ میری عزت میں اب اور اضافہ ہو گیا اور کیوں نہ ہوتا، طاقتور دشمنوں کو شکست دے کر انہیں فرار ہونے پر مجبور کر دینا کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا اور خصوصاً ایسے حالات میں جب میں خود شکست سے دوچار ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے عمر رسیدہ مفکر کے دیئے ہوئے مقولے کا خیال آ گیا۔۔۔۔۔۔

’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔۔۔۔۔۔

اس خیال کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔۔۔۔۔۔اس کا فخر اور غرور ایک ہی لمحہ میں ختم ہو گیا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ وقت بھی گزر جائے گا تو یہ وقت بھی میرا نہیں۔۔۔۔۔۔یہ لمحے اور یہ حالات میرے نہیں۔۔۔۔۔۔یہ ہار اور یہ جیت میری نہیں۔۔۔۔۔۔ہم صرف دیکھنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔ہر چیز کو گزر جانا ہے اور ہم صرف ایک گواہ ہیں۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم صرف محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔زندگی کے لمحات آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔خوشی اور غم کا بھی یہی حال ہے۔۔۔۔۔۔اپنی زندگی کی حقیقت کو جانچیں۔۔۔۔۔۔خوشی، مسرتوں، جیت، ہار اور غم کے لمحات کو یاد کریں۔۔۔۔۔۔
کیا وہ وقت مستقل تھا؟۔۔۔۔۔۔

وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

زندگی گزر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔آج جو دوست ہیں وہ کل نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔ماضی کے دشمن بھی نہیں رہے اور آج کے بھی ختم ہو جائیں گے!۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں کوئی بھی چیز مستقل اور لازوال نہیں۔۔۔۔۔۔ہر شئے متغیر ہے۔۔۔۔۔۔!

ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا یہ قانون نہیں بدلتا۔۔۔۔۔۔جب ہم اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ ہر نیا لمحہ ہمارے اندر ایک نیا تغیر پیدا کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔پیدائش کے بعد بچہ اپنے ماں باپ کا محتاج ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔وہی بچہ پچیس تیس برسوں کے بعد اپنے ماں باپ کا سہارا بن جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!

پچیس برس قبل کا جسم، شعور اور علم، سب کچھ تبدیل ہو گیا۔۔۔۔۔۔پچیس تیس برس مزید گزریں گے تو یہی نوجوان چہرہ جھریوں زدہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ایسی چیز بھی ہے اس دنیا میں جس کے اندر تغیر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔؟

آیئے! اس حقیقت کو تلاش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

روحانی علوم کی پہلی کتاب میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گوشت پوست سے مرکب اور رگوں اور پٹھوں سے بنا ہوا پُتلا اصل انسان نہیں ہے بلکہ گوشت پوست کا جسم اصل انسان کا لباس ہے۔۔۔۔۔۔جس طرح گوشت پوست کی حفاظت کیلئے ہم اون کا، کھال کا روئی یا دوسری چیزوں کا لباس پہنتے ہیں اسی طرح اصل انسان یعنی ہماری روح گوشت پوست کا لباس بناتی ہے۔۔۔۔۔۔گوشت پوست کا جسم محض ایک لباس ہے اور جس ہستی کو اللہ کریم نے انسان کہا ہے اس کو عرف عام میں ’’روح‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔قاعدے اور قانون کے مطابق اگر کوئی بندہ روحانی علوم سیکھنا چاہتا ہے تو اس کے اندر یہ یقین راسخ ہونا ضروری ہے کہ گوشت پوست کا جسم مفروضہ اور فکشن ہے۔۔۔۔۔۔جب یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، فکشن ہے، فنا ہونے والا ہے تو قدرتی طور پر مفروضہ حواس سے ذہن دور ہونے لگتا ہے اور جب مفروضہ زندگی سے ذہن پلٹتا ہے تو حقیقت کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔اس لئے کہ حقیقت اور مفروضہ دونوں چیزیں ایک مرکز پر جمع نہیں ہو سکتیں۔۔۔۔۔۔مفروضہ حواس اور مفروضہ چیزیں بدلتی رہتی ہیں، ٹوٹتی اور بکھرتی رہتی ہیں، فنا ہوتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن حقیقت نہ بدلتی ہے، نہ ٹوٹتی ہے، نہ بکھرتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔حقیقت جو قائم بالذات ہے۔۔۔۔۔۔حقیقت جو اپنے مرکز پر مستقل طور پر رواں دواں ہے، اس انسان کی تلاش سے سامنے آتی ہے جس کو قرآن نے ’’روح‘‘ کہا ہے۔۔۔۔۔۔



Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!