Topics

غیب


میں ایک بندہ بشر ہوں۔۔۔۔۔۔میری زندگی ایک کتاب کی مانند ہے جس میں ماہ و سال اور شب و روز چھپے ہوئے ہیں۔اس طرح زمین پر موجود ہر بشر کی ایک کتاب ہے۔ جتنے سال یہ بشر دنیا میں رہتا ہے، کتاب زندگی میں اتنے ہی ورق ہیں۔میں اگر 83برس کا ضعیف العمر ہوں تو میری زندگی میں 83ورق ہیں۔۔۔۔۔۔ورق کا ایک صفحہ ظاہر ہے اور دوسرا صفحہ باطن ہے۔زندگی کا پہلا ورق یہ ہے کہ میں نے اس دنیا میں قدم رکھا، ایک سال تک اس ورق پر نقش ابھرتے رہے۔۔۔۔۔۔دوسرے سال پہلے سال کے نقوش گہرے ہو گئے لیکن نقوش میں تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ کتاب زندگی دس، بیس، تیس، چالیس اور ساٹھ صفحہ کی ہوئی اور پھر 83اوراق تک جا پہنچی۔۔۔۔۔۔
اس عمل کو اہل دانش ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ارتقائی عمل بھی خوب ہے کہ کسی ایک نقطے پر جا کر اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ وجود ناپید اور ہستی عدم ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔دانشوروں کے بیان کردہ ارتقائی عمل پر غور و فکر کیا جائے تو ذہن کی اسکرین پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ ستر، اسی سال کی زندگی حال اور مستقبل کس طرح ہوئی؟۔۔۔۔۔۔

جبکہ حقیقت تو یہی ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے، ہر تخلیق، ہر نوع کا ہر فرد اور سارا ارتقائی عمل ماضی ہے۔۔۔۔۔۔
آیئے! اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک تجربہ کر کے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔

آپ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کیجئے کہ آپ اپنی بارہ سال کی عمر کے دور میں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔اور اس تصور کے دوران بارہ سال کی عمر کا جو نقش آپ کے ذہن کی اسکرین پر واضح ہوا، اسے تحریر کر لیجئے۔

اس کے بعد اس بات پر غور کیجئے کہ چند لمحوں میں آپ بارہ سال کی عمر میں کس طرح پہنچ گئے؟بڑے بڑے دانشور، فلسفی، حکماء، سائنسدان، ماہر نفسیات، ماہر ارضیات اور نہیں معلوم کتنے شعبوں کے ماہرین کیا یہ ثابت کر سکے کہ ماضی، حال اور مستقبل کی کیا حیثیت ہے۔۔۔۔۔۔؟کیا واقعتاً زمین ان تین دائروں میں قید ہے؟۔۔۔۔۔۔کیا ہر انسان ماضی، حال اور مستقبل کے دائروں میں بند ہے؟۔۔۔۔۔۔

آپ نے بارہ سال کی عمر کا جو تصور کیا، اس تصور میں آپ کو دور دراز علاقے میں گزارا ہوا وقت بھی یاد آیا ہو گا اور چند لمحوں کے دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ نا صرف آپ بارہ سال کی عمر میں پہنچ گئے بلکہ سینکڑوں یا ہزاروں میل کا سفر طے کر کے وہ مقام بھی آپ کے ذہن کی اسکرین پر ابھر آیا جہاں آپ کا بچپن گزرا۔۔۔۔۔۔

اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ماضی کو دیکھ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔یا ماضی میں سفر کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔

اگر ہماری گذشتہ زندگی کا ریکارڈ موجود نہ ہوتا تو ہم ماضی کے کسی لمحہ کو یاد نہیں رکھ پاتے۔۔۔۔۔۔غور کیجئے! اگر آپ کی عمر بیس، پچیس، تیس، چالیس، پچاس یا ساٹھ ستر سال ہے تو آپ اپنی گزشتہ زندگی کو کیا نام دیں گے؟۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے آپ اسے ماضی ہی کہیں گے۔۔۔۔۔۔

پیدائش، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا۔۔۔۔۔۔زندگی کے یہ تمام ادوار ماضی سے ہی متعلق ہیں۔۔۔۔۔۔ماضی چونکہ ریکارڈ ہے اس لئے غیر متغیر ہے۔

ازل سے ابد تک کا تمام زمانہ ماضی (ریکارڈ) ہے اور جو لمحہ اس سارے زمانے کا احاطہ کرتا ہے اس کو اہل روحانیت لمحۂ حقیقی یا زمان حقیقی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسی زمانے کا تذکرہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی اس حدیث مبارکہ میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ جو کچھ ہونیوالا ہے قلم اس کو لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔یعنی لازمانیت (لمحۂ حقیقی) کی حدود میں ہر چیز مکمل طور پر ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔جو کچھ ہو رہا ہے وہ ماضی کا حصہ ہے۔۔۔۔۔۔

کہا جا سکتا ہے کہ اگر حال و مستقبل نہ ہوں تو ماضی کی تقسیم نہیں ہو گی، عمر کا تعین نہیں ہو گا، ماہ و سال نہیں ہوں گے۔۔۔۔۔۔لیکن ماہ و سال کی Baseبنیاد ماضی کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔

اس بات کو مزید سمجھنے کیلئے ذہن میں موجود اپنی تصوراتی نگاہ کو پیدائش سے پہلے کے دور پر مرکوز کیجئے۔۔۔۔۔۔سوچئے تو سہی کہ اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے ہم کہاں تھے؟۔۔۔۔۔۔الہامی کتابوں کی روشنی میں مرتب کی گئی روحانی تعلیمات سے ہمیں یہ آگہی ملتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنی پیدائش سے قبل عالم ارواح میں تھے۔

بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزار کر انسان غیب میں چلا جاتا ہے اور غیب بھی دراصل ماضی ہی ہے۔ ہر انسان ماضی سے آتا ہے اور ماضی میں چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔مرنے کے بعد کی دنیا غیب ہے۔۔۔۔۔۔یعنی ماضی ہے۔۔۔۔۔۔

اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی اصل غیب ہے، انسان ہر لمحہ غیب سے نکل کر غیب میں داخل ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔غیب سے آنے کے بعد اور غیب بن جانے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ ایک سفر ہے۔۔۔۔۔۔کہیں قیام نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

اس سفر کا آغاز اس لمحہ ہوا جب اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد فرمایا الست بربکم۔۔۔۔۔۔میں تمہارا رب ہوں۔۔۔۔۔۔مخلوق نے جواباً عرض کیا جی ہاں! ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں۔۔۔۔۔۔
کوتاہ عقل والا بندہ بھی اس بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخاطب کیا تو مخلوق کے کان میں آواز پڑی جیسے ہی سماعت سے آواز ٹکرائی مخلوق کی نظر اٹھی اور مخلوق نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔دیکھنے کے بعد مخلوق فوراً پکار اٹھی کہ جی ہاں ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں۔

مخلوق کے کان میں پہلی آواز اللہ تعالیٰ کی پڑی اور مخلوق کی نظر نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔سماعت نے پہلی جو آواز سنی وہ اللہ تعالیٰ کی آواز تھی۔۔۔۔۔۔دیکھنے کی بنیاد یہ بنی کہ نظر نے جس چیز کو پہلی بار دیکھا وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے!۔۔۔۔۔۔
کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں، اجتماعی طور پر سب نے اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا۔۔۔۔۔۔اجتماعی شعور حاصل ہونے کے بعد دوسری چیز جو مخلوق کو حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ مخلوق کو اپنا ادراک حاصل ہو گیا۔۔۔۔۔۔یعنی مخلوق نے اس بات کو سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تخلیق کیا ہے۔

تخلیق کی بنیادی حیثیت پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ آدم زاد اللہ تعالیٰ کی سماعت سے سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی بصارت سے دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی فہم سے سوچتا ہے۔۔۔۔۔۔

جو بندے اللہ تعالیٰ کی قربت کیلئے جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، ان کی کوشش اس لئے کامیاب ہوتی ہے کہ انسان جس نظر سے دیکھ رہا ہے وہ نظر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نظر ہے، جس سماعت سے وہ سن رہا ہے فی الواقع وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سماعت ہے۔



 


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!