Topics

اہل روحانیت

یہ کائنات دو علوم پر مبنی اصول و قواعد پر تخلیق کی گئی ہے۔ دونوں علوم میں مشاہدہ اس علم کی حقیقت سے آگاہی کا ذریعہ ہے۔ جب کائنات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں مخفی حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے۔

۱۔ کائنات

۲۔ کائنات میں وجود اشیاء

۳۔ وجود اشیاء کی خاصیت و ماہیت

۴۔ وجود اشیاء کو تخلیق کرنے والی ہستی

۵۔ وجود کا منفی رُخ

۶۔ وجود کا مثبت رُخ

۷۔ وجود کا عدم سے ظاہر ہونا

۸۔ وجود کا عدم میں غائب ہونا

تاریخ عالم میں جتنے بھی علوم رائج ہوئے ہیں یا جتنے بھی نئے نئے علوم کا انکشاف ہوا ہے وہ بھی مثبت اور منفی رُخوں پر قائم ہیں۔
مثبت۔۔۔۔۔۔یعنی ’’ہے‘‘

منفی۔۔۔۔۔۔یعنی ’’نہیں‘‘

لیکن جو شئے ہے۔۔۔۔۔۔وہ نہیں کیسے ہے؟

اور جو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اس کا ہونا کیسے ممکن ہے؟

علماء کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ نے محض ’’وجود ہے‘‘ کے اوپر اپنی عمارت کھڑی کی ہوئی ہے۔دوسرے گروہ نے ’’کیوں ہے کہاں سے ہے؟‘‘ کے اوپر اپنے گروہ کا تعارف کرایا ہے۔علماء کا پہلا گروہ شئے اور شئے کی صفات سے بحث کرتا ہے اور علماء کا دوسرا گروہ شئے کی ماہیت اور حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ہم بہت قیمتی یا کم قیمت موٹر کار میں سڑک پر چلتے ہیں۔ چلتے چلتے ہمیں سرخ سگنل نظر آتا ہے۔ جس کو دیکھ کر ہم رک جاتے ہیں اور گرین سگنل کا انتظار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سرخ رنگ خطرے کی علامت ہے۔ جب ہم سرخ رنگ کا سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سرخ رنگ کا بلب یا سرخ رنگ کا شیشہ نہیں آتا کہ جس کے دیکھنے میں ہم مصروف ہو جائیں، سگنل کا سرخ رنگ دیکھ کر ہمیں خطرے کی اطلاعات فراہم ہوتی ہیں اور ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ہم نے اگر اس خطرے کے سگنل کو نظر انداز کر دیا اور ایکسلیریٹر پر سے پیر نہیں ہٹایا تو ہم ہلاک بھی ہو سکتے ہیں۔اس کے برعکس جب ہم گرین سگنل دیکھتے ہیں تو ہم گاڑی اسٹارٹ کر دیتے ہیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے کہ اب گاڑی چلانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جب ہم سرخ سگنل کا تذکرہ کرتے ہیں تب رنگ کی افادیت یا نقصان کے ساتھ ساتھ محل وقوع بھی زیر بحث آتا ہے۔۔۔۔۔۔
اگر لیٹر بکس سرخ رنگ کا ہے تو ہم اس رنگ کو دیکھ کر کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے بلکہ آپس میں بھائی چارہ اور تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اپنے پیاروں، اپنے محبوب اور اپنے بزرگوں سے تعلق خاطر قائم ہونے کا واسطہ جانتے ہیں۔
جب ہم سرخ سگنل دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر خطرات، حادثات اور ہلاکت سے بچنے کا جو علم ہے وہ متحرک ہو جاتا ہے۔ یعنی سرخ رنگ کے متعین محل وقوع نے ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ ہم خطرات سے محفوظ ہیں۔ یہ وہ طرز فکرہے جس طرز فکر میں ماہیت اور حقیقت کی تلاش اور جستجو ہے۔

اسی طرح جب کوئی انسان (جس کی فطرت ہی حقیقت و ماہیت کو تلاش کرنا ہے) اپنے آپ کو دیکھتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں اپنے دماغ اور اپنے اعضاء میں گم نہیں ہو جاتا۔ ہر انسان جب خود گہرائی میں مطالعہ کرتا ہے تو جسمانی وجود کے بجائے باطنی وجود میں اس کا ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔

نظام تخلیق ظاہر کرتا ہے کہ کائنات مسلسل تغیر پذیر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں تغیر نہیں ہے۔علمائے ربانی فرماتے ہیں:
’’وجود شئے میں تغیر ہے۔ حقیقت شئے میں تغیر نہیں ہے‘‘۔جب تک تغیر پذیری میں انسان گم رہتا ہے اس کے اوپر مصائب، پریشانی اور ادبار کا تسلط قائم رہتا ہے اور جب انسان حقیقت داردہ سے متعارف ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سے وسوسوں، بے ہودہ خیالات اور غم و آلام کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔

جو لوگ سطحی سوچ سے ماوراء گہری سوچ کے حامل ہیں۔ ان لوگوں کا ظاہر باطن کے تابع ہوتا ہے جو درجے میں محبوب حقیقی کو تلاش کرتے ہیں اور اس کے نظارے کیلئے ہمہ وقت متوجہ اور منتظر ہوتے ہیں۔وہ ظاہر کو باطن کی پہچان۔۔۔۔۔۔اور باطن کو ظاہر کی روح سمجھتے ہیں۔ ظاہری وجود دراصل ان کے لئے باطن تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰؓ اپنی ایک دعا میں فرماتے ہیں:
’’اے اللہ! میرے ظاہر کو اپنی اطاعت سے، میرے باطن کو اپنی محبت سے۔ میرے قلب کو اپنی معرفت سے، میری روح کو اپنے جمال کے مشاہدے سے اور میرے دل کی گہرائی کو اپنی حضوری سے منور فرما‘‘۔

 


 


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!