Topics
میں نے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔آپ بھی اس تجربے سے گزرے ہوں گے، چند مہینے کے بچے کے سامنے
اخبار پڑھتے وقت صفحہ الٹنے کی آواز سے بچہ چونک جاتا ہے اور اس کے معصوم کومل
چہرے پر خوف کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ آپ بچے کو اٹھاتے ہیں اس کا ماتھا ہونٹوں
سے چھوتے ہیں اور بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ آپ محبت بھرے
الفاظ بھی دہراتے ہیں۔۔۔۔۔۔میرا مُنّا!۔۔۔۔۔۔میرا چاند!۔۔۔۔۔۔اس عمل سے بچے کا
چہرہ شگفتہ ہو جاتا ہے اور خوف سے بھاگ جانے والی معصومیت دوبارہ چہرے کو اپنا
مسکن بنا لیتی ہے۔
میں
نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔آپ بھی سوچیں کہ اخبار کا
صفحہ پلٹنے کی آواز بچے کو کیوں ڈرا دیتی ہے؟؟۔۔۔۔۔۔
اس دنیا میں آنے سے پہلے بچہ کسی اور دنیا میں ہوتا ہے۔ اس دنیا کے بارے میں ہم
نہیں جانتے کہ وہاں کا ماحول کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔اس دنیا کے شب و روز کیسے
ہیں؟؟۔۔۔۔۔۔وہاں کوئی تمدن ہے یا نہیں ہے؟۔۔۔۔۔۔اگر وہاں معاشرہ ہے تو معاشرتی
آداب کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔وسائل کی تقسیم کا طریقہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔وہاں اگر دھوپ چھاؤں ہے
تو سورج مشرق سے نکلتا ہے یا مغرب سے؟؟۔۔۔۔۔۔سورج مشرق میں ڈوبتا ہے یا مغرب
میں؟۔۔۔۔۔۔کیا وہاں چوپائے ہیں؟۔۔۔۔۔۔اونٹ کے گلے میں گھنٹیاں بجتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔شمع
کے گرد پروانے رقص کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔بلبل کی صدا چمن زار کو مسحور کرتی ہے؟۔۔۔۔۔۔جب
ہم اس کو دنیا کہتے ہیں تو کیا وہاں دنیا کی طرح زمین ہے؟۔۔۔۔۔۔اُبلتے فوارے
ہیں؟۔۔۔۔۔۔آبشاریں جھرنوں کا سماں بناتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔رنگ رنگ پھول، پھولوں کے داغ
داغ پتے ہوا کو مخمور کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔گھٹائیں زمین میں برستی ہیں؟۔۔۔۔۔۔کیا اس دنیا
میں آسمان پر جگمگ کرتی قندیلیں ہماری نظر کو نور بخشتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔قطار در قطار
درخت اور پھلوں سے لدے ہوئے اشجار ہمیں دعوت نظارہ دیتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔درخت کے پتے
ہواؤں کے دوش پر جھولتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ٹہنیاں اس طرح رقص کرتی ہیں کہ فطرت وجد میں آ
جائے؟۔۔۔۔۔۔برسات کے ملے جلے روشنی اور اندھیروں میں کیف و سرور ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔
ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے؟۔۔۔۔۔۔اور جو لوگ جانتے ہیں وہ اس لئے خاموش ہیں
کیونکہ اس جاننے کا مشاہدہ عام نہیں ہے۔۔۔۔۔۔لوگ اس کا اعتبار نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔
اللہ
تعالیٰ نے ہر مخلوق میں ایک کمپیوٹر نصب کر دیا ہے۔ اس کمپیوٹر میں شماریات سے
زیادہ پروگرامز ہیں۔ دو کھرب Chipsہیں،
ہر Chipمیں کھربوں ذیلی پروگرامز
ہیں۔ کچھ پروگرامز کائنات کی ہر مخلوق میں مشترک ہیں۔ کچھ پروگرام حرکت کے تابع
ہیں اور کچھ پروگراموں پر حرکت کا دارومدار ہے۔ اس کمپیوٹر میں لاکھوں سال کا
اجتماعی ماضی ریکارڈ ہے اور کروڑوں سال کا اجتماعی مستقبل ریکارڈ ہے۔ اجتماعی
ریکارڈ کے ساتھ ساتھ ماضی، حال، مستقبل کی انفرادی زندگی بھی مرقوم ہے۔
اس
کمپیوٹر کا نام دماغ ہے!۔۔۔۔۔۔
دماغ
میں انفارمیشن کہاں سے آتی ہیں؟۔۔۔۔۔۔ہمیں نہیں معلوم!۔۔۔۔۔۔انفارمیشن کی کوئی شکل
و صورت ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھی۔ انفارمیشن کا کوئی وزن ہم متعین نہیں کر
سکے۔۔۔۔۔۔انفارمیشن کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔انفارمیشن خیال ہے!۔۔۔۔۔۔خیال ہمیں نظر نہیں آتا۔
خیال کوئی وزنی اور ٹھوس شئے نہیں ہے لیکن جب خیال میں کچھ کھو جانے کا اندیشہ
شامل ہو جاتا ہے تو دماغ پر منوں ٹنوں وزن محسوس ہوتا ہے اور جب خیال میں سبک روی
ہوتی ہے، سکون کی لہریں ہوتی ہیں، تسکین کا احساس ہوتا ہے تو خیال کا کوئی وزن
نہیں ہوتا، نہ صرف یہ کہ وزن نہیں ہوتا، آدمی خوش آگیں خیال سے خود کو لطیف محسوس
کرتا ہے!۔۔۔۔۔۔ہم نہیں جانتے کہ خوشی کیا ہے!!۔۔۔۔۔۔
ہم
اس سے بھی واقف نہیں ہیں کہ ناخوشی اور غم کیا بلا ہے؟۔۔۔۔۔۔ہم صرف اتنا جانتے ہیں
کہ خیالات میں اگر طلب کے بغیر ترک ہے تو وہ خیال ہمیں پریشان کر دیتا ہے اور اگر
خیال میں خود غرضی کا عنصر غالب نہیں ہے تو یہ خیال ہمیں خوش کر دیتا ہے!۔۔۔۔۔۔
ہمیں نہیں معلوم کہ ہم خوش کیوں ہوتے ہیں؟ ہمیں اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے کہ ہم
خوش کیوں نہیں ہوتے؟۔۔۔۔۔۔ایک معمول کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں کوئی
سروکار نہیں کہ عامل کون ہے اور ہم کیوں اس کے معمول بنے ہوئے ہیں؟۔۔۔۔۔۔
گھپ اندھیری رات میں آسمان پر نظر اٹھتی ہے تو وہاں روشن قندیلیں نظر آتی ہیں۔
ستاروں کی ایک انجمن ہے ستارے ایسے چمکتے ہیں کہ جس کی تشبیہہ دینے کیلئے ہمارے
پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہم روز دیکھتے ہیں کہ آسمان پر جگمگ کرتے ستاروں نے،
آسمان پر چراغاں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن ہم نہیں جانتے کہ ستارے کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔
اسی
طرح ہم یہ نہیں جانتے کہ چند مہینے کا بچہ اخبار کی آواز سے کیوں چونکتا
ہے؟۔۔۔۔۔۔کیا اخبار کی آواز اس کے دماغ میں دھماکہ کر دیتی ہے؟۔۔۔۔۔۔آپ بے خبر سڑک
پر چلے جا رہے ہیں پیچھے سے کوئی پٹاخہ پھوڑ دیتا ہے اور اس پٹاخے میں بم جیسا
دھماکہ ہوتا ہے تو آپ چونک جاتے ہیں، گِر بھی سکتے ہیں، یہ ممکن ہے کہ ہوش و حواس
غائب ہو جائیں۔ یہ کیوں ہوا؟؟۔۔۔۔۔۔
اس
لئے ہوا کہ دماغ بے شمار Frequenciesسے
مرکب ہے، اس میں ایک فریکوئنسی آواز کی ہے اور یہ فریکوئنسی گھٹتی بھی ہے، بڑھتی
بھی ہے اور انسان کے اندر آواز سننے کی سکت بھی بڑھاتی ہے۔۔۔۔۔۔چند مہینے کا بچہ
اخبار کی آواز سے اس لئے چونک جاتا ہے کہ ابھی اس کے دماغ میں آواز کی فریکوئنسی
سیٹ نہیں ہوئی۔ یہی بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو بڑے سے بڑا دھماکہ اسے بچے کی طرح
متاثر نہیں کرتا۔
جس
طرح آواز کی فریکوئنسی آدمی کو پریشان کرتی ہے، خوش کرتی ہے، مست و بے خود کر دیتی
ہے۔ اسی طرح زندگی میں کام کرنے والی ہر فریکوئنسی انسان کو متاثر کرتی رہتی ہے۔
موجودہ دور جس کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے، دراصل آواز کی اس Pollutionکا
دور ہے جس میں اضطراب ہے، جس میں بے چینی ہے، کرختگی ہے! چیخ ہے!۔۔۔۔۔۔اور جس میں
دھماکہ ہے!۔۔۔۔۔۔آواز دراصل ایک Vibrationہے۔
وائبریشن کی مقداریں اگر اعتدال سے ہٹ جائیں تو زندگی کو قائم رکھنے والا وائبریشن
زلزلوں کا روپ دھار لیتا ہے۔ فائٹر جہازوں کی گڑگڑاہٹ بن جاتا ہے، بلڈنگوں کو تہس
نہس کر دیتا ہے۔ تین سے سات منٹ میں ایک سو دس منزلہ آہنی عمارت کو زمین دوز کر
دیتا ہے۔
ہمیں
یہ سوچنا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔۔چند منٹوں میں ہزاروں آدمی کیوں پیوند
زمین ہو گئے؟۔۔۔۔۔۔
قرآن سورۂ الشوریٰ میں رہنمائی کرتا ہے:
’’اور
تم پر جو مصائب آتے ہیں وہ تمہارے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں اور اللہ تو بہت خطاؤں
سے درگزر کرتا ہے‘‘۔(الشوریٰ۔ آیت 30)
اور
قرآن اس کا علاج بھی بتاتا ہے:
’’اور
تم سب مل کر خدا کی طرف پلٹو، اے مومنو! تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘۔(سورۃ النور۔ آیت 31)