Topics

ناسوتی دنیا اور ماورائی دنیا



حضرت امام جعفر صادقؒ کی نظر میں علم کی تعریف یہ ہے

’’ہر چیز جو آدمی کو کچھ سکھائے علم ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

’’ہم نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘(سورۃ العلق۔ آیت 5)

کوئی بھی انسان جب علم کا تذکرہ کرتا ہے تو اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ کچھ سیکھا جائے اور کچھ سکھایا جائے۔ ہم جب لفظ کائنات بولتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہم علوم کے ہزاروں لاکھوں شعبوں کی نشاندہی کررہے ہیں کائنات کے لفظ کو اگر حرفوں میں تبدیل کیا جائے تو

ک۔۔۔۔۔۔۱۔۔۔۔۔۔ء۔۔۔۔۔۔ن۔۔۔۔۔۔ا۔۔۔۔۔۔ت۔۔۔۔۔۔کے حروف ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔
ک۔۔۔۔۔۔ک کی بساط پر تفکر کیا جائے تو ’’ک‘‘ مثلث کے تین الگ الگ ضلعوں کا انکشاف ہے۔

 

 

ک کے بعد ۱۔۔۔۔۔۔بھی مثلث کے ایک ضلع کا نقش ہے۔

ء۔۔۔۔۔۔آدھا دائرہ اور مثلث کے ایک ضلع پر مشتمل ہے۔

ن۔۔۔۔۔۔دائرے کی شکل پیش کرتا ہے۔

پھر ۱۔۔۔۔۔۔مثلث کا ایک ضلع ہے۔

ت۔۔۔۔۔۔مثلث کا دوسرا ضلع ہے۔

اب رہ گئی نقطے کی بات۔۔۔۔۔۔نقطے کی تشریح اس طرح کی جائے کہ نقطے چار زاویوں پر قائم ہیں جبکہ اگر نقطے میں کراس بنا دیا جائے تو حاصل چار مثلث ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

آدم کا پہلا ٹھکانہ جنت ہے۔۔۔۔۔۔جنت سے نکل کر اور مختلف مقامات سے گزر کر وہ اس دنیا میں آیا ہے۔ کوئی ایک فرد بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ آدم و حوا جب تک جنت میں تھے انہیں ماورائی علوم کا ادراک تھا اور جب وہ جنت سے نکل کر عالم ناسوت یعنی اس دنیا میں وارد ہوئے تو ماورائی علوم کے ادراک پر گہرے پردے پڑ گئے۔

۔۔۔۔۔۔اور یہ پردے بیک قلم۔۔۔۔۔۔بیک وقت۔۔۔۔۔۔یا ناگہانی حادثے کے طور پر حائل نہیں ہوئے۔۔۔۔۔۔بتدریج لاشعور پر شعور کا غلبہ ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔انسان کومل بچے کی صورت میں جب پہلی مرتبہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو سب جانتے ہیں کہ اس کے اندر شعور کی داغ بیل پڑ چکی ہے لیکن لاشعور غالب رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ بول نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔اس کی نظر میں ٹھہراؤ ہونے کی وجہ سے نظر کسی ایک حدف پر قائم رہتی ہے۔

پھر آہستہ آہستہ اس کی سوچ میں ارتقا ہوتا ہے۔ نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور فہم میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی بچہ جو شعوری اعتبار سے صفر کے برابر ہوتا ہے۔ ہفتوں اور ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ شعور کی سیڑھیاں چڑھتا رہتا ہے۔ تقریباً چھ ماہ کی عمر میں اسے بیٹھنا آ جاتا ہے اور اس کی پہچان کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے۔ دو سال کی عمر میں بچے کا شعوری ارتقا اتنا ہوتا ہے کہ وہ دو سال میں کم و بیش سو الفاظ سیکھ لیتا ہے۔ دو ڈھائی سال کے بچے کو نرسری کلاسوں میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ پہلے نرسری کلاسیں دو سال کی ہوتی تھیں اب تین سال میں پوری ہوتی ہیں۔ اس کے پیچھے تعلیم کو ذریعہ معاش بنانا بھی ہے۔ تین سال میں بچہ حروف تہجی 26(Alphabets) ABCD۔۔۔۔۔۔اور گنتی 1,2,3(100اعداد)۔۔۔۔۔۔مجموعی طور پر 126الفاظ سیکھ لیتا ہے۔

ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ماورائی دنیا سے نکل کر تین سال کے عرصے میں بچہ ڈیڑھ سو یا ڈھائی سو الفاظ پر عبور حاصل کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماورائی دنیا کا باسی بچہ دنیا میں جب آتا ہے تو دنیا کی زندگی کو کارآمد بنانے کے لئے 226الفاظ تین سال میں سیکھتا ہے۔ جیسے جیسے زندگی آگے بڑھتی ہے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور بچہ لڑکپن سے نکل کر جوانی کے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ 18سال کی عمر میں اسے باشعور سمجھا جاتا ہے۔

شعوری دنیا میں مقام حاصل کرنے کیلئے 6,570(چھ ہزار پانچ سو ستر) دن اور 1,57,680(ایک لاکھ ستاون ہزار چھ سو اسّی) گھنٹوں کی مسافت طے ہوئی۔

سمجھ لیجئے!۔۔۔۔۔۔میں 18سال کا ایک تنومند ذہین اور خوبصورت نوجوان ہوں۔۔۔۔۔۔میرے اعصاب مضبوط ہیں۔ سینہ بھرا ہوا کشادہ ہے۔ کمر سیدھی ہے۔ گردن میں خم نہیں ہے۔ آنکھیں روشن ہیں۔۔۔۔۔۔کانوں میں سننے کی Wavelengthاپنی مقدار کے مطابق پوری ہے۔

میں ایک دوراہے پر کھڑا ہوں۔۔۔۔۔۔ایک راستہ میرے پیچھے ہے۔۔۔۔۔۔اور ایک راستہ میرے آگے ہے۔۔۔۔۔۔سامنے والے راستہ پر مستقبل کا نشان لگا ہوا ہے اور پیچھے والے راستے پر(جس پر میں 18سال تک مسلسل چلتا رہا ہوں) ماورائی دنیا کا Signہے۔۔۔۔۔۔

    



 

 

 

فرض کیجئے۔۔۔۔۔۔چھ ارب انسانوں میں سے ایک انسان ماورائی دنیا کا سفر طے کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مستقبل کے Signوالے راستے پر چلنے سے مجھے کیا حاصل ہو گا؟

جو کچھ حاصل ہو گا!۔۔۔۔۔۔کیا وہ میرا ہے؟

کوٹھی، بنگلے، کاریں، فیکٹریاں، سب ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن میں مستقبل کی شاہراہ پر چلتے چلتے 60سال کی عمر میں پہنچتا ہوں تو مجھے اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں مجھ سے منہ کیوں موڑ لیتی ہیں۔ جن کے حصول کیلئے میں نے خون پسینہ ایک کر کے اپنی توانائی اور انرجی کو ایندھن کی طرح جلا دیا ہے۔۔۔۔۔۔ان میں سے کوئی ایک شئے میری وفادار نہیں ہے۔ نہ بینک بیلنس میرا وفادار ہے۔۔۔۔۔۔نہ چہیتی بیوی میرے ساتھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔نہ محبت کے دعوے کرنے والا شوہر بیوی کے ہمرکاب ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس ماں نے جنم دیا ہے۔۔۔۔۔۔جس ماں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ میری زندگی میں انڈیل کر مجھے پروان چڑھایا ہے۔۔۔۔۔۔وہ بھی میرے ساتھ نہیں جاتی۔۔۔۔۔۔

میری والدہ، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت کی تمام نعمتیں انہیں حاصل ہوں۔۔۔۔۔۔نے ایک دفعہ فرمایا:
’’ایک ماں اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتی تھی۔ بیٹی بیمار ہو گئی۔ ماں نے جب حالت تشویش ناک دیکھی، اس نے کہا۔۔۔۔۔۔اے اللہ! اگر میری بیٹی کا وقت پورا ہو گیا ہے تو اس کی جگہ مجھے اٹھا لے اور میری زندگی میری بیٹی کو بخش دے۔۔۔۔۔۔آس پاس ملک الموت صاحب یہ بات سن رہے تھے۔ وہ اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔۔۔۔۔۔ماں ڈر گئی۔۔۔۔۔۔ملک الموت نے کہا۔۔۔۔۔۔ڈرو نہیں! ابھی تم مجھے یاد کر رہی تھی میں آ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔ماں نے فوراً انگلی سے اشارہ کیا اور کہا۔۔۔۔۔۔’’وہ۔۔۔۔۔۔وہاں کمرے میں پڑی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔

دوسرا راستہ جس کے Sign Boardپر لکھا ہے:

 

 

 

 

 

 

ماورائی دنیا کے بارے میں ہمیں جو علم ہے وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں سکون ہے۔۔۔۔۔۔راحت ہے۔۔۔۔۔۔خوشی ہے۔۔۔۔۔۔جھرنوں سے کل کل کرتا لطیف پانی ہے۔۔۔۔۔۔دودھ اور موتی رنگ آبشاریں ساز بجا رہی ہیں۔۔۔۔ یخ بستہ ٹھنڈے پانی کے چشمے ہیں۔۔۔۔۔۔دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔۔۔۔۔۔زمرد یاقوت اور سچے موتی کے محل ہیں۔۔۔۔۔۔چھتری نما درخت اس سلیقے سے کھڑے ہیں کہ درخت کی گولائی میں ایک پتا اِدھر اُدھر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔کوئی شاخ اوپر نیچے نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ مشروم کی طرح درخت اپنے تنے پر قائم ہیں۔ درخت ستون کی طرح ہیں اور ستون شیشے کا بنا ہوا ہے۔ اس میں درخت کی رگیں رنگ برنگی ٹیوب لائٹیں جیسی ہیں۔ ان ٹیوب لائٹوں میں سے گزر کر رنگ رنگ پانی اوپر جاتا ہے۔ ہر پتا ایک قمقمہ ہے اور ہر درخت کا پھل ایسا شیریں ہے، تنا خوشبودار ہے کہ دنیا میں کسی بھی طرح اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔۔۔۔۔۔اس ماورائی دنیا کے ایک ایک حصہ میں خوبصورتی منعکس ہوتی ہے۔ پھولوں کے تختے ہیں۔ کنول کے پھولوں سے اٹا اَٹ بھرے ہوئے تالاب ہیں۔۔۔۔۔۔پرندے نغمہ سرا ہیں اور ہوا مدحتِ شان الٰہی بیان کرتی ہے۔۔۔۔۔۔فضا خمار آلود ہے۔ ایسا خمار جس میں انسان خوشی کے علاوہ کچھ محسوس نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں خوف ہے نہ غم ہے۔۔۔۔۔۔حرص ہے نہ ہوس ہے۔۔۔۔۔۔دشمنی ہے نہ عداوت ہے۔۔۔۔۔۔بخیلی ہے نہ تنگ دلی ہے۔۔۔۔۔۔تنگ دستی ہے نہ مفلسی ہے۔۔۔۔۔۔بیماری ہے نہ عذاب ہے۔۔۔۔۔۔ہر روز روزِ عید ہے اور ہر شب شب برأت ہے۔۔۔۔۔۔بات پھر وہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس دنیا کیلئے عازمِ سفر ہونا چاہتا ہوں جہاں سکون ہے۔۔۔۔۔۔
قارئین!۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ اللہ میاں آپ کو سکون کی دولت سے نوازے۔ ڈپریشن سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سایۂ عاطفت میں جگہ عطا فرمائے۔
آپ سے سوال یہ ہے کہ میں اس دنیا میں کس طرح پہنچوں؟۔۔۔۔۔۔

آپ یہ کہیں گے کہ بات سادہ اور آسان ہے۔۔۔۔۔۔اس میں کون سی مشکل بات ہے، جس رستے پر ماورائی دنیا کا Signہے اس راستے پر چل پڑو۔۔۔۔۔۔جب راستے پر آدمی چلتا ہے۔ چلتے چلتے اسے مقام مل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
میرے عزیز دوستو! میرے بچو! میں آپ کی بات سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔اور اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔مجھے یہ کرنا ہے کہ میں اپنا رُخ مستقبل کے اَن دیکھے راستے سے موڑ کر دیکھے ہوئے ماضی کے راستے پر کر لوں یعنی
About Turnہو جاؤں۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ جب تک About Turnنہیں ہوں گا ماورائی راستہ جو میرے پیچھے ہے میں اس پر نہیں چل سکتا۔۔۔۔۔۔
بالکل صحیح ہے!۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی مرحلہ نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔لیکن اب دوسرا سوال یہ ہے کہ میں 18سال تک ماورائی دنیا کے متضاد راستہ پر چلتا رہا۔۔۔۔۔۔کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے ماورائی دنیا میں پہنچنے کیلئے 18سال تک
Reverseچلنا ہو گا؟۔۔۔۔۔۔
میرے بچو!۔۔۔۔۔۔مجھے بتاؤ۔۔۔۔۔۔جب میں
Reverseچلوں گا تو میری زندگی کے 70یا 80سال جس کو میں نے مستقبل کا نام دیا ہے وہ کیسے پورے ہوں گے؟۔۔۔۔۔۔

میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بات ڈالی ہے کہ انسان کی زندگی کے دو رُخ ہیں۔۔۔۔۔۔ ایک رخ اسے Reverseزندگی میں چلاتا رہتا ہے اور دوسرا رُخ اسے مستقبل کی زندگی کے لئے متحرک رکھتا ہے۔
ماورائی دنیا میں
Time & Spaceنہیں ہے۔ ناسوتی دنیا میں Time & Spaceکے بغیر گزارہ نہیں۔۔۔۔۔۔
پیارے بچو!۔۔۔۔۔۔اصل بات یہ ہے کہ زندگی پابندی اور آزادی میں رد و بدل ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو پابند زندگی میں سانس لیتے ہیں اور جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے حواس آزاد ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اگر ہم اس قانون کے تحت نصف زندگی جو ہماری آزاد زندگی ہے اس کو اپنے اوپر غالب کر لیں۔۔۔۔۔۔ناسوتی دنیا میں رہتے ہوئے بھی ہم ماورائی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس کا آسان اور سہل طریقہ یہ ہے کہ ہم اس زندگی میں داخل ہو جائیں جو ماورائی دنیا سے نکل کر ہمارا پہلا مقام۔۔۔۔۔۔یعنی معصومیت اور بچپن ہے۔۔۔۔۔۔جب ہم وقت مقرر کر کے اپنے بچپن کو یاد کریں گے تو ہمارے قدم از خود
Reverseہو جائیں گے اور ہم ماورائی دنیا کے دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ ہمیں یہ علم ہے کہ ہم بچے تھے۔۔۔۔۔۔اور بچپن ہمارے اندر محفوظ ہے۔۔۔۔۔۔ریکارڈ ہے۔۔۔۔۔۔بچپن کے خصائل اور عادتیں ہمارے حافظے میں نقش ہیں۔۔۔۔۔۔جب ہم اس نقش کو یاد کریں گے۔۔۔۔۔۔جتنا یاد کریں گے اسی مناسبت سے ماورائی دنیا کے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔ وہاں یہ علم حاصل ہو گا کہ یہ ساری کائنات حرفوں اور لفظوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔سارے حروف Triangleاور Circleپر قائم ہیں۔
غالب
Triangleناسوتی دنیا ہے اور غالب Circleماورائی دنیا ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارے اندر ماورائی دنیا کے حواس کام کرتے ہیں اور جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو ہمارے اوپر شعور کا غلبہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔شعور کے غلبے کو کم کرنے کیلئے اور لاشعوری دنیا میں داخل ہونے کیلئے بہترین عمل ’’مراقبہ‘‘ ہے۔۔۔۔۔۔


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!