Topics

اللہ تعالیٰ کی نشانیاں

وہ کون ہے جو آسمان سے اور زمین سے تمہیں روزی پہنچاتا ہے۔ وہ کون ہے تمہارا سننا اور دیکھنا جس کے قبضے میں ہے۔ وہ کون ہے جو نکالتا ہے زندگی کو موت سے، نکالتا ہے موت سے زندگی کو۔ پھر وہ کون سی ہستی ہے جو بیشمار زمینوں، آسمانوں، کہکشانی نظاموں اور کائناتی سسٹم کو نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے۔ یقیناً وہ اعتراف کرینگے کہ یہ ہستی اللہ تعالیٰ ہے۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم تم ان سے کہو کہ جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں پھر کیوں غفلت اور سرکشی سے نہیں بچتے؟ ہاں بیشک یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو تمہارا پروردگار ہے۔ اور جب یہ حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے۔ تم کہاں جا رہے ہو۔[سورۃ یونس آیت ۳۰ تا    ۳۲]

وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور جس نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سیرابی سے خوشنما باغ لگا دیئے۔ حالانکہ یہ بات تمہارے بس کی نہیں تھی کہ باغوں میں درخت لہلہاتے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرا معبود بھی ہے؟ مگر یہ لوگ ہیں جن کا شیوہ حجت اور کج روی ہے۔ [سورہ نمل آیت ۶۰]

اچھا بتاؤ وہ کون ہے جس نے زمین کو زندگی کا مستقر بنا دیا۔ اس میں نہریں جاری کر دیں اور پہاڑ بلند کر دیئے۔ دو دریاؤں میں دیوار حائل کر دی۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے؟ مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے۔ [سورہ نمل آیت ۶۱]
اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کی پکار سنتا ہے جب وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر اسے پکارتے ہیں اور ان کا دکھ ٹال دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا بھی کوئی معبود ہے؟ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پکڑو۔ [سورہ نمل آیت۶۲]
اچھا بتلاؤ وہ کون ہے جو صحراؤں اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے! وہ کون ہے جو باران رحمت سے پہلے خوش خبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اس شرک سے پاک ہے اور مُنَزہ   ہے کہ یہ جو لوگ اس کی معبودیت میں شریک ٹھہراتے ہیں۔ [سورہ نمل آیت ۶۳]

اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے؟ اور وہ کون ہے جو زمین اور آسمان سے تمہیں رزق دے رہا ہے۔کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو۔[سورہ نمل آیت ۶۴]
انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے۔ ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں پھر زمین کی سطح شق کر دیتے ہیں۔ پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کر دیتے ہیں۔ اناج کے دانے، انگور کی بیلیں، کھجور کے خوشے، سبزی ترکاری، زیتون، درخت کے جھنڈ، قسم قسم کے میوے، طرح طرح کا چارہ تمہارے فائدے کے لئے اور تمہاری جانوروں کے لئے ہے۔ [سورہ نمل آیت ۱۱]

دیکھو چوپاؤں میں تمہارے لئے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے۔۔۔۔۔۔ان کے جسم میں خون و کثافت سے دودھ پیدا کرتے ہیں جو پینے والوں کے لئے بہترین مشروب ہے۔۔۔۔۔۔کھجور، انگور، جس سے نشہ اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ بلاشبہ اس بات میں باشعور لوگوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔۔۔۔۔۔اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ پہاڑوں میں درختوں میں ان کی ٹہنیوں میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں کہ اپنے لئے گھر بنائیں، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے۔۔۔۔۔۔پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں سے کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو۔۔۔۔۔۔اس کے جسم سے مختلف رنگوں کا رس نکالتا ہے جس میں انسان کے لئے شفا ہے۔ بلاشبہ اس میں تم لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔ [سورہ نمل آیت ۶۵ تا ۶۹]

’’کیا تم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جو تم کاشت کاری کرتے ہو اس کو تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کر دیں اور تم صرف یہ کہنے کیلئے رہ جاؤ گے کہ ہمیں تو اس نقصان کا تاوان ہی نہیں دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنی محنت کے سارے فائدوں سے محروم ہو گئے۔ یہ بات بھی تمہارے سامنے ہے کہ جو پانی تم پیتے ہو اسے کون برساتا ہے۔ تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا کر دیں۔ کیا اس نعمت کیلئے ضروری نہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ یہ بات بھی تمہارے سامنے ہے کہ جو آگ تم سلگاتے ہو اس کیلئے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم کر رہے ہیں؟ اسے یادگار مسافر کیلئے فائدہ بخش بنایا‘‘۔(سورۃ الواقعہ۔ آیت 63-73)

دنیا کا کوئی انسان دنیا کی طرف سے اندھا ہو جائے لیکن اپنی غذا میں شامل پھلوں کی طرف سے وہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
آیئے تجربہ کریں:

کھلے ہاتھ ہتھیلی پر یہ ایک دانہ گندم ہے۔ دانے کے بیچوں بیچ ایک خط ہے۔ یہ خط یا ہلکا سا شگاف اس طرف رہنمائی کرتا ہے کہ دو پرت آپس میں اس طرح جڑے ہیں کہ آنکھ ان دونوں پرتوں کو ایک پرت دیکھتی ہے۔ اب ہم عام نگاہ سے ہٹ کر باطنی خوردبین نگاہ استعمال کرتے ہیں۔ گندم کا یہ حقیر سا دانہ ہمیں اب Base Ballکے برابر نظر آ رہا ہے۔ اس میں بے شمار رنگین روشنیاں محوری گردش کر رہی ہیں۔ رنگین روشنیوں کو مختلف گیسز حرکت دے رہی ہیں۔ گیسز کیمیکل Changesکی بنا پر ٹوٹ رہی ہیں اور بکھر رہی ہیں۔ کیمیکل Changesکا عمل رطوبت و برودت پر ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے گندم کی شریانوں میں روئیدگی دوڑ رہی ہے۔ اس روئیدگی میں مٹھاس بھی ہے، نمکیات بھی ہے اور زمینی عناصر بھی موجود ہیں۔ اس Base Ballجتنے بڑے گندم کے ارد گرد ایک ہالہ ہے۔ ہالے کے چھ سمتوں میں آکسیجن ہے، ہوا ہے، خشکی ہے، تری ہے اور بے شمار گیسز ہیں۔ ان بے شمار گیسوں میں کوئی ایک گیس بھی بے رنگ نہیں ہے۔

اب ہم اس دانے کو زمین کے پیٹ میں ڈالتے ہیں۔ زمین اس دانے کو اپنے بطن میں اس طور سمیٹ لیتی ہے جس طرح ماں شکم مادر میں بچے کے پہلے قطرے کو قبول کرتی ہے۔ زمین میں جتنے بھی عناصر ہیں وہ سب اس دانہ گندم کو اپنی آغوش میں لے کر خود اس کے اندر سرائیت کر جاتے ہیں اور گندم کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ نتیجہ میں گندم کے اوپر پہلے سے موجود شگاف کھل جاتے ہیں اور اس میں سے نہایت باریک موٹے بال کی طرح ایک تنا نمودار ہوتا ہے۔ جس کے اوپر گندم کے دونوں پرت لگے ہوئے ہوتے ہیں یعنی عناصر نے گندم کو اپنے اندر جذب کرنے کے بعد زمین کے اوپر نشوونما پانے کے لئے دوبارہ لوٹا دیا ہے۔ اب یہ ننھا سا کومل معصوم تنا ہوا، آکسیجن، دھوپ اور چاندنی کے اشتراک عمل سے بتدریج نشوونما پاتا ہے اور درخت بن جاتا ہے۔ گندم کے ایک بیج میں سے دس شاخیں یا دس تنے یا دس بالیاں نکلتی ہیں۔ ایک صحت مند بالی میں چھیاسٹ(۶۶) گندم کے دانے ہوتے ہیں۔ گندم کے ایک بیج سے ہمیں جو گندم حاصل ہوتی ہے اس کی تعداد چھ سو ستر(۶۷۰) ہے۔ اگر زمین اچھی ہو، صحیح کھاد دی جائے تو اسی (۸۰) یا نوے(۹۰) دانے فی بالی نکلتے ہیں یعنی ایک دانہ گندم سے انسانی غذا کے لئے قدرت ۹۲۰ دانے فراہم کرتی ہے۔

اگر زمین میں ایک من یا سوا من بیج بویا جائے تو انسانی غذا کے لئے چالیس سے پچاس من گندم حاصل ہوتا ہے۔ یہ حال ہماری اس غذا کا ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر استعمال ہوتی ہے۔ ساری دنیا میں پہلے نمبر پر جوغذا کھائی جاتی ہے وہ چاول ہے۔آیئے! اب فروٹ کے اوپر غور کرتے ہیں۔ یہ ایک صحت مند اور خوبصورت بڑی نارنگی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کی کوئی چیز بے رنگ نہیں۔ چھلکے کے اوپر کا بنا ہوا حصہ خوش رنگ اور چمکدار نارنجی ہے۔ چھلکے کے اندر کا حصہ سفید ہے۔ چھلکے سے بنا ہوا غلاف کھول کر دیکھیں تو اندر ہمیں آپس میں جڑی ہوئی قاشیں ملتی ہیں۔۔۔۔۔۔ہر قاش کے اوپر ایک پردہ ہے۔ یہ پردہ بھی رنگین ہے۔ اسی پردے کے نیچے ٹشوز ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں۔ یہ بھی رنگین ہیں Tissuesکے درمیان بیج ہے یہ بیج بھی دو رنگوں سے مرکب ہے۔
کوتاہ عقل انسان کتنا بے شعور ہے کہ رنگین چیز کو ’’نارنگ‘‘ کہتا ہے۔

ایک صحت مند نارنگی میں نو یا دس پھانکیں ہوتی ہیں۔ ایک پھانک میں تین سو تیرہ(۳۱۳) رس سے بھری ہوئی تھیلیاں ہوتی ہیں۔ جب ہم کینو سنگترہ یا نارنگی سے شوق فرماتے ہیں تو دراصل ۳۱۳ رس کی بھری ہوئی تھیلیوں کا رس پیتے ہیں۔
’’اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے اور وہ کون ہے جو زمین اور آسمان سے تمہیں رزق عطا کرتا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ان سے کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو اور عقل و بصیرت کی اس شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اپنی دلیل پیش کرو‘‘۔(سورۃ النمل۔ آیت 64)



Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!