Topics

کائنات ایک کنبہ ہے

عالمین کے تین رخ ہیں۔ ایک رخ نورانی عالم ہے۔ دوسرا رخ روشنی کا عالم ہے۔ تیسرا رخ تخلیط یا عالم ناسوت کا عالم ہے۔ نور کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہمارے اوپر مشیئت کا انکشاف ہوتا ہے۔ مشیئت میں داخل ہو کر اللہ کی ذات کا انکشاف ہوتا ہے۔

عالم ناسوت میں روح حیوانی کا عارف ورود، غنود یا مراقبہ میں یہ دیکھ لیتا ہے کہ روح حیوانی مکانیت میں بند ایک رخ ہے اور انسان پابند حواس میں قید ہے۔ روح حیوانی سے نکل کر جب انسان روح انسانی میں داخل ہوتا ہے تو یہ دیکھ لیتا ہے، سن لیتا ہے اور محسوس کر لیتا ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی صلاحیت موجود ہے جس کو استعمال کر کے وہ مکانیت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ انسان محض مکانیت کے خدوخال پر قائم نہیں ہے بلکہ ان خدوخال پر روشنیوں کا ایک غلاف چڑھا ہوا ہے او رجسمانی وجود روشنی کے تانے بانے پر بنا ہو اہے۔ اسے یہ بھی علم ہو جاتا ہے کہ انسان کی رفتار سفر اور رفتار پرواز روشنی کی رفتار کے برابر ہے۔



ارادہ الٰہیہ ’’کن‘‘ سے خالق کائنات کے ذہن میں جو کچھ جس طرح موجود تھا وجود میں آ گیا۔۔۔۔۔۔عالم ارواح
 کائنات میں حرکت کی یہ طرز متعین ہوئی کہ انواع اور ہر نوع کے افراد کی اجتماعی فلم بن گئی۔۔۔۔۔۔لوح محفوظ۔
اگلے مرحلے میں یکجائی پروگرام
حرکت کے اگلے مرحلہ میں یکجائی پروگرام نوعی اعتبار سے الگ الگ ہو گیا۔ عالم مثال / عالم برزخ۔
عالم مثال کی فلم انفرادی صورت میں زمین کی اسکرین پر نشر ہو رہی ہے۔ عالم ناسوت
عالم ناسوت شعوری دنیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے کے عالمین لاشعوری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالم ناسوت نزولی حرکت کی انتہا ہے۔ یہاں سے نزولی حرکت صعودی حرکت میں بدل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔عالم اعراف۔


کائناتی فارمولوں کو سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن نشین ہونا ضروری ہے کہ جب کائنات میں خدوخال ظاہر ہوتے ہیں تو زمان پردے میں چلا جاتا ہے اور جب کائنات کے اندر موجودات کی تصویریں خدوخال سے ماوراء ہو جاتی ہیں تو مکان، زمان میں پیوست ہو جاتا ہے۔ کائنات زمانیت میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے نزولی حرکت کہا جاتا ہے اور جب مکانیت پس منظر میں چلی جاتی ہے تو اسے صعودی حرکت کہا جاتا ہے۔ نزول و صعود کا پورا سلسلہ لوح محفوظ پر نقش ہے۔ لوح محفوظ اور عالم ناسوت کے درمیان ایک پردہ ہے۔ نزولی حرکت میں عالم ناسوت اور لوح محفوظ کے درمیان جو پردہ Screenواقع ہے اس کو برزخ کہا جاتا ہے۔ لوح محفوظ سے چلنے والی تصویریں جب عالم ناسوت میں خدوخال کے ساتھ مظہر بنتی ہیں اور مظہر بن کر لوح محفوظ کی طرف صعود کرتی ہیں تب بھی لوح محفوظ اور عالم ناسوت کے درمیان ایک پردہ Screenہے۔ جسے اعرف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لوح محفوظ سے تمام نزولی حرکات (مخلوقات) اور زمین کے درمیان ایک مرحلہ پڑتا ہے۔ یہ مرحلہ عالم برزخ ہے۔ زمین سے واپس لوح محفوظ کی طرف صعودی حرکات کے لئے درمیان میں ایک پردہ پڑتا ہے۔ اس پردہ کا نام اعراف ہے۔

اللہ بصیر ہے، خبیر ہے، علیم ہے، محبت کرنے والا ہے، اللہ کا ذہن بھی ہے۔ خالق کائنات کے ذہن میں یہ بات آئی کہ اپنے تعارف کے لئے ایسی تخلیق عمل میں لائے جس تخلیق میں حافظہ بھی ہو، فکر بھی ہو، بصیرت بھی ہو، علوم سیکھنے کی تمام تر صلاحیتیں بھی موجود ہوں۔ تا کہ مخلوق اپنے خالق کو پہچان لے۔ تمثیلاً ہم اس بات کو اس طرح بیان کرتے ہیں اللہ ایک ذات ہے اس کے ذہن میں بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ ایسی کائنات بنانی چاہئے جو مکمل ہو اور اس کائنات کے افراد میں ایسے منتخب افراد ہوں جو مجھے پہچان سکیں اور ان افراد کا میرے ساتھ تعلق بھی قائم ہو۔ جب اللہ نے ارادہ کیا تو اللہ کے ذہن میں جو کچھ جس طرح موجود تھا عمل میں آ گیا۔ پروگرام کا پہلا مرحلہ عالم ارواح عمل میں آیا۔ عالم ارواح کے بعد دوسرا عالم ’’لوح محفوظ‘‘ وجود میں آیا۔ لوح محفوظ پر کائنات کی ہر حرکت، کائنات کا ہر ہر لمحہ اور کائنات کے اندر جتنی نوعیں ہیں اس نوع کے ہر ہر فرد کی اجتماعی فلم بن گئی۔ پھر اس پروگرام کو حرکت کے ساتھ مظاہراتی شکل و صورت دے دی گئی۔ جس عالم میں کائنات نے نوعی اعبتار سے مظاہراتی خدوخال اختیار کئے یعنی فلم کا یکجائی پروگرام نوعی اعتبار سے الگ الگ ہوا۔ اس عالم کو عالم مثال یا برزخ کہتے ہیں۔ عالم مثال کی فلم جب انفرادی صورت میں ظاہر ہوئی اور جہاں نوعی پروگرام انفرادی صورت میں نشر ہو رہا ہے یہ عالم ’’عالم ناسوت ‘‘ ہے۔




ارادہ الٰہیہ ’’کن‘‘ سے خالق کائنات کے ذہن میں جو کچھ جس طرح موجود تھا وجود میں آ گیا۔۔۔۔۔۔عالم ارواح کائنات میں حرکت کی یہ طرز متعین ہوئی کہ انواع اور ہر نوع کے افراد کی اجتماعی فلم بن گئی۔۔۔۔۔۔لوح محفوظ۔
اگلے مرحلے میں یکجائی پروگرام
حرکت کے اگلے مرحلہ میں یکجائی پروگرام نوعی اعتبار سے الگ الگ ہو گیا۔ عالم مثال ؍ عالم برزخ۔
عالم مثال کی فلم انفرادی صورت میں زمین کی اسکرین پر نشر ہو رہی ہے۔ عالم ناسوت
شعوری دنیا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے کے عالمین لا شعوری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔
عالم ناسوت نزولی حرکت کی انتہا ہے۔ یہاں سے نزولی حرکت صعودی حرکت میں بدل جاتی ہے۔۔۔۔۔۔عالم اعراف۔

تشریح:
ہر شئے اگر ایک طرف نزول کر رہی ہے تو دوسری طرف صعود کر رہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی ہر شئے لامحدودیت میں آ کر اس بات کا تعارف کراتی ہے کہ اللہ کی ذات غیر محدود ہے۔ لامحدودیت اللہ کی ذات ہے اور محدودیت مخلوق ہے۔ مخلوق یا محدودیت ہی دراصل کائنات ہے۔ کائنات تین دائروں پر مشتمل ہے۔
کائنات کا پہلا دائرہ ’’مادیت ‘‘ ہے۔
کائنات کا دوسرا دائرہ ’’حیوانیت‘‘ ہے۔
کائنات کا تیسرا دائرہ ’’انسانیت‘‘ ہے۔
خارجی دنیا اور خارجی دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان کی حرکات و سکنات ایک میکانیکی عمل کے تحت جاری و ساری ہیں اور اس Mechanismکی بنیاد مادیت ہے۔ مادیت جس میکانیزم پر جاری ہے اس میکانیزم کے نتیجے میں جمادات، نباتات بنتے ہیں۔ دوسرے محدود دائرے سے حیوانات، بشمول انسان کی تعمیر کا آغاز ہوتا ہے۔ کائنات کے تین دائرے نزول سے صعود اور صعود سے نزول میں رد و بدل ہو رہے ہیں۔ ہر دائرہ تحلیل ہو کر دوسرا دائرہ بن رہا ہے۔
بندہ جب اللہ سے متعارف ہوتا ہے تو متعارف ہونے کی دو طرزیں قائم ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفات سے متعارف ہوتا ہے۔ دوسری طرز یہ ہے کہ وہ ذات سے متعارف ہوتا ہے۔ جب کوئی بندہ صفات سے متعارف ہوتا ہے تو وہ اللہ کو اللہ کی صفات میں دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی بندہ اللہ کو اللہ کی ذات میں دیکھتا ہے تو دراصل وہ محض اپنی فکر وجدانی سے اللہ کی قربت کو محسوس کرتا ہے۔
کائنات کی ساخت اور اس ساخت میں مختلف مقداریں اور ان مقداروں سے ترتیب پا کر مختلف نوعیں او ر ہر نوع میں مخصوص خدوخال، مخصوص صفات اور پھر ایک نوع سے دوسری نوع کا علمی اور صفاتی اشتراک ہر نوع کے الگ الگ افراد اور افراد کا آپس میں رشتہ، ایک نوع کے افرادکا دوسری نوع کے افراد سے باہمی رشتہ ہر ذی عقل اور ذی فہم آدمی کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ کائنات ایک کنبہ ہے اور اس کنبہ کا کوئی سرپرست اعلیٰ ہے وہ کائنات میں کوئی بھی نوع ہو یا کسی بھی نوع کا کوئی بھی فرد ہو وہ پوری کائنات سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتا۔ وہ کائنات میں موجود نوعوں یا اجرام سماوی کے علوم سے واقفیت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو لیکن باہمی اور مخفی رشتہ ہر حال میں قائم ہے۔




Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔