Topics

وحدت الوجود وحدت الشہود


جب نگاہ بالواسطہ دیکھتی ہے تو خود کو مکانیت اور زمانیت کے اندر مقید محسوس کرتی ہے اور جیسے جیسے بالواسطہ دیکھنے کی طرزیں گہری ہوتی جاتی ہیں اسی مناسبت سے کثرت در کثرت درجے تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں۔وحدت الوجود اور وحدت الشہود یا وحدت کی اصطلاحات، انسانی ذہن کی اپنی اختراع ہے۔ انسان اپنی محدود فہم کے مطابق یا اپنی محدود فکری صلاحیت کے مطابق جو کچھ بیان کرتا ہے وہ انسان کی اپنی فکر کے اندر محدود ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ وحدت الوجود وحدت باری تعالیٰ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس لئے اللہ کی وحدت کو یا اللہ کے کسی وصف کو انسانی شعور بیان کرنے سے قطعی کوتاہ اور قاصر ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی لفظ کے ذریعہ اللہ کی صفات کا مکمل اظہار ہو سکے۔





انسان کی محدود فکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات جس حد تک سمائیں اس نے اس کو لامحدودیت کا نام دے دیا تو اس کا مطلب یہ ہوا جب ہم اللہ کی وحدت کا تذکرہ کرتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی وحدت کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں۔ کہ ہم نے اللہ کی صفات کو اس حد تک سمجھا ہے۔

اللہ کا علم جب نزول کرتا ہے تو اس نزول کی پہلی حالت کا نام ادراک ہے۔ اللہ کا یہ علم جب ادراک بن کر ایک نقطہ پر کچھ دیر قیام کرتا ہے اور ا س کے بعد اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نگاہ بن جاتی ہے۔ ادراک میں جب تک گہرائی پیدا نہیں ہوتی، خیال کی کیفیت وارد نہیں ہوتی۔ ادراک اگر گہرا ہے اور خیال کی صورت میں موجود ہے تو کوئی چیز یا صورت سامنے نہیں آتی صرف احساس ہوتا ہے۔ یعنی ادراک جب خیال کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو کسی چیز کا ہلکا سا عکس پڑتا ہے اور جس چیز کا عکس پڑتا ہے اس چیز کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ خیال کی حدود میں احساس تو کام کرتا ہے لیکن اس کی حیثیت صرف فکر کی ہوتی ہے۔ جب احساس ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتا ہے تو اس نقطہ میں خدوخال اور شکل وصورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ خدوخال اور شکل و صورت اندرونی نگاہ کے سامنے آجاتے ہیں۔ نگاہ کے سامنے آنے والے ماورائی خدوخال یا ظاہری خدوخال جب ایک نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتے ہیں تو شئے گویا ہو جاتی ہے اور قوت گویائی اگر ذرا دیر اور اس نقطہ یا اس ایک فرد کی طرف متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینی پیدا ہو جاتی ہے اور نقطہ اپنے ارد گرد نیرنگی کا ایک ہجوم محسوس کرتا ہے ۔

 جب اس ہجوم پر روح کی مرکزیت کچھ دیر کے لئے قائم ہو جاتی ہے تو شعور میں کشش کی روشن لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ لہریں جسے دیکھتی ہیں محسوس کرتی ہیں، انہیں چھو دیتی ہیں۔ لہروں کے اس عمل کا نام ’’لمس‘‘ ہے۔

کوئی بھی مخلوق یا آدم زاد اوپر سے نیچے سیڑھی بہ سیڑھی اتر کر پیدا ہوتا ہے اور اس کی روح اپنے اظہار اور اپنی جلوہ نمائی کے لئے گوشت پوست کا ایک جسم تخلیق کرتی ہے۔ اس کے بعد فکر انسانی تنزل یافتہ شکل سے صعود کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور ہماری حس پیدا ہونے والی حس سے یا پہلے حواس سے دور ہونے لگتی ہے۔ دوری سے مراد یہ ہے کہ پیدا ہونے والا ایک  دن  کا بچہ جب دوسرے دن میں داخل ہوتا تو پہلا دن زندگی کے نزول کا رد عمل ہے۔ یہی رد عمل مکانیت اور زمانیت کا احساس دلاتا ہے۔ بچہ پیدا ہوا اس کی تمام صفات اس کے تمام اعضاء، اس کے تمام حواس ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہی تبدیلی دراصل زمانیت اور مکانیت کا پھیلاؤ ہے۔

بچہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کو سمجھ رہا ہے یا غیر اختیاری طور پر یہ بات اس کے شعور میں ریکارڈ ہو رہی ہے کہ میں اس ایک لمحے سے گزر کر دوسرے لمحے میں داخل ہو گیا ہوں۔ ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک ماہ اور ایک سال سے دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہوں۔ شعوری کیفیت میں درجہ بہ درجہ سیڑھی بہ سیڑھی حواس کا سفر کرنا ہی زمانیت و مکانیت ہے۔ پیدا ہونے والے بچے کے منٹ، گھنٹے، ہفتے، مہینے اور سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نقطہ جس کی حیثیت علم اور علیم کی ہے۔ علم نزولی سے دور ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ موت وارد ہو جاتی ہے۔ موت کے بعد روح ایک اور علم جدید سیکھتی ہے۔ جو علم مکانیت اور زمانیت میں بند ہو کر سامنے نہیں آتا۔ اس علم جدید میں انسان گوشت پوست کے جسم سے آزاد ہو جاتا ہے۔

کائنات کی ساخت پر غور کرنے سے یہ عقدہ کھلتا ہے کہ ساری کائنات اس میں انسان بھی شامل ہے روشنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ روشنی مستقل تین دائروں میں اوپر نیچے گھوم رہی ہے۔ پہلے دائرے میں کائنات سے متعلق غیب کی تمام معلومات نقش ہیں اور وہ رموز ہیں جن کے تحت کائنات تخلیق کی گئی ہے۔ انسان کے اندر پہلے دائرے میں وہ علم نقش ہے جو مصلحتوں اور اسرار کا علم ہے۔ ماورائی علم سیکھنے والا کوئی شاگرد جب اس مقام تک پہنچ جاتا ہے کہ اس کے سامنے پہلا دائرہ آ جاتا ہے تو وہ تجلیات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ جب تجلیات انسان کے مشاہدے میں آجاتی ہیں تو کائنات کے غیب سے متعلق ریکارڈ بھی اسی کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔

دوسرا دائرہ نور کا دائرہ ہے اس دائرے میں وہ احکانات نقش ہوتے ہیں جو علم کے بعد زندگی اور زندگی کا کردار بنتے ہیں۔

تخلیق سے متعلق تیسرا دائرہ روشنیوں کا دائرہ ہے۔ اس دائرے میں زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ جہاں تک زندگی کے عمل کے ریکارڈ ہونے کا تعلق ہے یہ صرف انسان اور جنات کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ کائنات میں موجود تمام مخلوق کے عمل کا ریکارڈ ہے۔ ہم جب دائروں کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ تصور ابھرتا ہے کہ دائرے کوئی الگ الگ چیز ہیں۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا دائرہ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ محض سمجھنے کے لئے یا الفاظ کی کمی کی مجبوری کے باعث ہے۔ ہم دنیا میں موجود الفاظ میں ریکارڈ زندگی کی پوری تشریح نہیں کر سکتے۔ یہ تینوں دائرے تین اوراق کے دو دو صفحات کی طرح ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے ہیں۔

تین دائروں میں پہلا دائرہ Energyبناتا ہے۔ دوسرا دائرہ اس انرجی کو استعمال کر کے زندگی کی طرزیں متعین کرتا ہے اور تیسرا دائرہ تمام کرداروں کو یکجا کرکے مظاہر کی صورت میں پیش کرتا ہے۔

 




Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔