Topics

تحقیق اور تلاش



کسی علم کی کنہ تک پہنچنے کے لئے گہرائی تک جانا ضروری ہے۔ سطحی سوچ سے کسی علم کی کنہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی علم ایسا نہیں ہے جس میں تحقیق، تجسس، تلاش اور گہرائی موجود نہ ہو۔ جیسے جیسے ہم کسی علم کے اندر تفکر کرتے ہیں اسی مناسبت سے اس علم میں ہمیں نئے نئے نقطے نظر آتے ہیں اور جب ہم ان نکات پر اور زیادہ گہری نظر سے تفکر کرتے ہیں تو علم کی بے شمار شاخیں بن جاتی ہیں۔ جس علم کے بارے میں جتنے زیادہ لوگ تفکر کرنے والے موجود ہوتے ہیں یا کسی ایک علم کی ریسرچ میں جتنے زیادہ باہوش دماغ شامل ہو جاتے ہیں وہ علم اسی مناسبت سے ترقی کرتا رہتا ہے اور مبسوط علم بن جاتا ہے۔ ایسا علم جس کا اپنا ایک نظریہ، ایک فلسفہ اور اپنا ایک طرز استدلال ہوتا ہے۔

موجودہ دور میں سائنسی علوم میں بھی یہی عمل کارفرما ہے۔ ایک سائنسدان نے علم کے کسی ایک شعبہ پر تفکر کیا اور تفکر کرتے کرتے وہ کسی مثبت نتیجے پر پہنچا اور مر گیا۔ دوسرے سائنسدان نے اس علم کو آگے بڑھایا اور نتیجے میں کچھ روشن پہلو اور نمایاں ہو گئے۔ اسی طرح زیادہ سے زیادہ عالی دماغ اس تحقیق میں شریک ہوتے رہے اور علم کی ایک حیثیت قائم ہو گئی۔ ایک تھیوری بن گئی۔ پھر یہ علم اور آگے بڑھا اور اس میں مزید باہمت، باذوق دماغ شریک ہوئے اور اس تھیوری کو پریکٹیکل کی صورت دیدی گئی۔ نتیجے میں ایک ایسا علم تشکیل پا گیا جس سے کوئی عقل کا اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہر شے علم کو علمی حیثیت دینے اور عوام الناس سے متعارف کرنے کے لئے اس علم کی مختلف طرزوں میں، مختلف پیراؤں میں، مثالوں سے اور نئی نئی ترغیبات اور تشبیہات سے تشریح کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے یہ تشریحات دماغ کے اوپر وارد ہوتی ہیں۔ شعور ان سے آشنا ہوتا رہتا ہے۔ نتیجہ میں شعور گہرائی میں سفر کرنے لگتا ہے۔ طالب علم جب شعور کی گہرائی میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کے سامنے لاشعور کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ جب کوئی روحانی مسافر، علم الٰہی کے راستے پر سفر کرتا رہتا ہے اور شعور کی گہرائی سے گزر کر لاشعور کی گہرائی میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر ورائے لاشعور کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ ورائےلا شعور ایسا علم ہے کہ جہاں انسان جان لیتا ہے کہ کائنات کس نے بنائی ہے، کس طرح بنی۔ کائنات کی تخلیق میں کون کون سی مصلحتیں کارفرما ہیں۔

اگر انسان کے اندر تفکر کی راہیں موجود ہوں تو تھیوری سے گزر کر پریکٹیکل میں داخل ہونا، کائنات اور کائنات بنانے والے کو جان لینا، اس سے ہمکلام ہونا آسان عمل بن جاتا ہے۔



Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔