Topics

آدم۔خلاء۔روح

موجودہ سائنسدان روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل  فی سیکنڈ بتاتے ہیں۔یعنی ایک سیکنڈ کے اندر جو کچھ افعال و اعمال سرزد ہوئے یا ایک سیکنڈ کی مکانیت میں جو حوادث رونما ہوئے ان کی رفتار سفر ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل ہے۔ ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سوبیاسی میل جس مکانیت پر مشتمل ہیں اس کی مکانیت میں جتنے حوادث رونما ہوئے وہ ایک سیکنڈ کے اندر واقع ہوئے اور ایک سیکنڈ کے اندر ہی ایک سیکنڈ کی مکانیت کے تمام افعال سرزد ہوئے۔ اگر کسی طرح ان افعال کا شمار ممکن ہو جائے تو یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ایک سیکنڈ کتنا طویل ہے اور سیکنڈ کی مکانیت میں کتنی وسعت ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ جب ہم ایک سیکنڈ کی مکانیت ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل تسلیم کرتے ہیں تو ایک سیکنڈ میں رونما ہونے والی کائناتی حوادث یا کائناتی افعال و اعمال تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔

کائنات میں تین زمانے متعارف ہیں۔

1۔ زمان حقیقی

2۔ زمان متواتر

3۔ زمان غیر متواتر

کائنات جو قدم اٹھاتی ہے وہ ایک لمحے کا پابند ہے۔ ساری کائنات لمحات میں بند ہے۔ ایک لمحہ ہو یا دوسرا لمحہ ہو۔ دونوں لمحات اس بات کے پابند ہیں کہ وہ لمحے کے اندر موجود رہیں۔ لمحات میں ہی ان کا ظہور ہے۔ کائنات میں کسی وقت ٹھہراؤ نہیں ہے۔ کائنات کا ہر لمحہ متحرک ہے۔ کائنات کا سفر ایک نقطے سے دوسرے نقطے کے بعد تیسرے نقطے میں تغیر پذیر ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ ایک تغیر ہے۔ دوسرا لمحہ دوسرا تغیر ہے۔ ہر لمحہ الگ الگ وجود رکھتا ہے۔ ہر لمحہ کے حوادث جدا ہیں۔ چونکہ ہر لمحہ کے حوادث جدا ہیں اس لئے لمحات زمانے کی جداگانہ وحدتیں ہیں اور ہر وحدت کے درمیان فصل ہے۔

خالق کائنات کا ارشاد ہے۔

’’میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔ اسے علم اشیاء عطا کیا۔ آدم کو خلاء سے بنایا اور اس خلاء میں اپنی روح پھونکی۔‘‘

روح پھونکنے کے بعد آدم کو علم شئے عطا کیا۔ ایک روح الٰہی اور دوسرا علم شئے۔ علم اشیاء حاصل ہونے کے بعد یہ علم ہوا کہ اشیاء کیا ہیں۔ اشیاء کی ماہیت اور حیثیت کیا ہے۔ خود علم اشیاء کیا ہے۔

Equation

روح الٰہی۔ عالم اشیاء۔ عالم فطرت (زمان متواتر)

روح الٰہی۔ روح کے اندر علم اشیاء (تکوین کائنات) =آدم

روح +علم اشیاء =آدم

تشریح ایکویشن

آدم بجتی مٹی (خلاء) ہے۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لئے روح پھونکی گئی۔ جب روح پھونکی تو روح کو علم اشیاء عطا ہوا۔ علم اشیاء عطا ہونے کے بعد آدم کو زندگی گزارنے اور تکوین کائنات سے متعلق جو علوم حاصل ہوئے ان علوم سے قوانین فطرت کو تلاش کرنا عالم فطرت ہے۔انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ خلاء سے نکل کر روح میں داخل ہو اور اس روح معرفت علم اشیاء حاصل کرے اور علم اشیاء حاصل کرنے کے بعد غیب کا کھوج لگائے۔

Equation

آدم خلاء ہے۔ خلاء میں روح ہے۔ روح میں علم اشیاء ہے علم اشیاء میں عالم فطرت(زمان متواتر)ہے۔

زمان متواتر۔ زمان غیر متواتر پر قائم ہے۔ زمان غیر متواتر ہی عالم غیب ہے۔



Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔