Topics

مسافر شعور اور راستہ لاشعور ہے

تمام مخلوق ظہور میں آنے سے پہلے اللہ کے ارادے میں جس طرح محفوظ تھی اب بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ جہاں یہ محفوظ ہے اس کو ’’لوح محفوظ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب دراصل لوح محفوظ کا عکس ہے۔ یعنی لوح محفوظ اصل ہے اور اس اصل کا عکس ساری کائنات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نوع کی شکل و صورت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ اربوں کھربوں سال گزرنے کے بعد بکری بکری، بندر بندر، شیر شیر ہے، انسان انسان ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ زمانے کے انقلاب کے ساتھ یا حالات کی تبدیلی کی بنا پر انسان بکری بن جائے اور بکری انسان کا روپ دھارلے۔ بکری ہمیشہ بکری رہتی ہے ۔ انسان ہمیشہ انسان رہتا ہے۔ بکری دراصل لوح محفوظ میں موجود بکری کا عکس ہے اسی طرح جنات، انسان، فرشتے سب چیزیں اپنی اپنی اصلوں پر قائم ہیں اور ہر نوع اپنی اصل کا عکس ہے۔


مثال:

ہم ایک فلم بناتے ہیں ایک فلم سے ایک ہزار فلمیں تیار ہو جاتی ہیں۔ جب ہم ایک ہزار فلموں کو الگ الگ پروجیکٹروں پر دیکھتے ہیں تو پھر فلم میں ایک ہی طرح کی صورتیں نظر آتی ہیں۔ حالانکہ ہر فلم الگ ہے۔ فلمیں ایک ہزار ہوں یا ایک لاکھ چونکہ ان کی اصل ایک ہے اور اصل میں تغیر نہیں ہوتا اس لئے ہر فلم کے مناظر ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر فلم کی اصل میں ناک لمبی ہو جائے، کان بڑے ہو جائیں تو ہزاروں فلموں میں بھی ناک لمبی اور کان بڑے نظر آتے ہیں۔


قانون:

کسی چیز کو جاننے پہچاننے کا ذریعہ اس کا ہیولا اور مظاہراتی خدوخال ہوتے ہیں۔ اس مظاہراتی خدوخال کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے۔ جیسے چاند، سورج، ستارے، زمین ، آسمان میں بسنے والی مخلوقات فرشتے، زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق حیوانات، نباتات، جمادات، جنات زمین کے اندر بسنے والی مخلوق حشرات الارض وغیرہ۔

نام دراصل کسی شئے کا جسمانی مظاہرہ ہے۔ جب ہم چاند کہتے ہیں تو چاند کا نام ذہن میں آتے ہی ہمارے سامنے چاند کی شکل و صورت آ جاتی ہے۔ ہم کسی انسان کا نام زید، بکر یا محمود رکھتے ہیں۔ جب ہم زید کہتے ہیں تو دراصل ہم ان جسمانی خدوخال کا تذکرہ کرتے ہیں جو ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے ہے لیکن جب ہم بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ نام یا علامت کے اوپر فنا واقع ہو جائے یا گوشت پوست کا جسم دنیا سے مخفی ہو جائے تو زندگی برقرار نہیں رہتی۔ باالفاظ دیگر ہم کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو ہماری مراد اس شئے کا جسم ہوتا ہے۔ اس شئے کی زندگی یا روح نہیں ہوتی۔ نام یا جسم مفروضہ ہے۔ اس مفروضہ جسم میں دور کرنے والی زندگی حقیقت ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو ہماری مراد  قلم کی علامات نہیں ہوتیں۔ قلم دراصل اس حقیقت پر قائم ہے جو قلم کے مفہوم سے ہمارے ذہن کو مطلع کرتی ہے۔ مثلاً جب ہم قلم کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں قلم کا وصف آتا ہے۔ قلم کا وصف یہ ہے کہ قلم لکھنے کے کام آتا ہے۔ خیالات کو شکل و صورت دینے اور مفہوم کو تحریری شکل میں کاغذ پر منتقل کرنے والی چیز کا نام قلم ہے۔ قلم ایک جسم ہے۔ لیکن قلم کا وصف اس کی زندگی ہے۔ اسی طرح موجودات کے اندر جس قدر نوعیں ہیں ان نوعوں میں جس قدر افراد ہیں ان میں سے ہر فرد کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔

کائنات کی تمام نوعوں کو یکجا کرنے اور نوعوں کے افراد کو سمجھنے کے لئے ہر فرد کا نام ہم ذرہ رکھ لیں تو یہ ذرہ حرکت ہے۔ حرکت کا ایک رخ رنگین اور روشن ہے۔ رنگین اور روشن رخ مظہر یا جسم ہے۔ حرکت کا دوسرا رخ بے رنگ روشنی ہے جو دراصل زندگی، فطرت، کردار اور حقیقت ہے۔ فطرت کا ایک رخ زمان ہے اور دوسرا رخ مکان ہے۔ مکان مظہر، مفروضہ یا جسم ہے اور زمان حقیقت ہے۔

حرکت کا وہ رخ جو زمان ہے اس میں تغیر نہیں ہوتا اور حرکت کا وہ رخ جو مکان ہے اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے۔ جس رخ میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہے وہ خالق سے ہم رشتہ ہے اور جس رخ میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے وہ مخلوق ہے۔

پارہ تیس میں سورۃ اخلاص تخلیقی قدروں کی تفسیر ہے۔ نظریۂ رنگ و نور کی تشریحات ظاہر کرتی ہیں کہ مخلوق کی قدروں میں رد و بدل اور ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برعکس خالقیت تغیر و تبدل اور ٹوٹ پھوٹ سے ماوراء ہے۔


مثال:

ایک راستہ چلنے والا مسافر اپنے اندر کتنا ہی انہماک رکھتا ہو۔ تا ہم وہ راستے کے بغیر اپنی ہستی قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ کتنا ہی بے نیاز ہو جائے، کتنا ہی بے خبر ہو جائے وہ اپنی ذات سے کتنا ہی غافل ہو جائے یہ ناممکن ہے کہ کوئی مسافر راستے سے لاتعلق ہو جائے۔ مسافر اس وقت مسافر ہے جب وہ راستے پر چل رہا ہو۔ جب ہم مسافر کا نام لیتے ہیں تو ہمیں لامحالہ یہ ماننا پڑتا ہے کہ مسافر اور راستے میں کم ترین فاصلہ بھی نہیں ہوتا۔ مسافر کی تمام حرکات و سکنات، سارا کردار، زندگی کی طرزیں اور فکریں کسی بھی طرح راستے کی حدود سے باہر نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے راستے میں تغیر نہیں ہے اس کے برعکس مسافر کے لئے ہر قدم کے بعد دوسرے قدم میں تغیر ہے۔

نظریۂ رنگ و نور کے اصول و ضوابط انسان کی رہنمائی کرتے ہیں کہ انسانی زندگی میں راستہ لاشعور اور مسافر شعور ہے۔ شعور میں انہماک جتنا زیادہ ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے آدمی لاشعور سے دور ہو جاتا ہے۔ مسافر شعور اور راستہ لاشعور ہے کہ مطابق جتنا زیادہ وقت لاشعور کو دیا جاتا ہے اور زندگی اسی مناسبت سے لاشعور ی عمل کے راستے طے کرتی ہے اور جب فکر انسانی شعور قدروں سے ہٹ کر لاشعوری دنیا میں داخل ہو جاتی ہے تو شعور مغلوب اور لاشعور غالب ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مادی دنیا میں شعور غالب اور لاشعور مغلوب ہے۔

روحانی ڈائجسٹ کراچی(پاکستان) اور روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل(برطانیہ) میں نظریۂ رنگ و نور پر مضامین شائع ہوئے تو جناب طاہر جلیل صاحب (گوجرانوالہ) نے لکھا:

’’کالم نظریۂ رنگ و نور میں آپ نے لکھا کہ روح کے ساتھ ایک جسم مثالی یعنی روشنیوں کا جسم ہوتا ہے اور اس کی حرکت ہی سے اشیاء(انسانوں، حیوانوں وغیرہ) میں حرکت ہوتی ہے۔ موجودہ سائنس میں ’’Kirlian Photography‘‘ سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انسانوں، حیوانات اور نباتات کے جسم کے اوپر روشنیوں کا ہالہ ہوتا ہے۔ آپ سے التماس ہے کہ آپ روحانی تشریح کے ساتھ اس تخلیقی Processپر روشنی ڈالیں کہ کس طرح اللہ کی ذات سے نور، روح بنتا ہے اور روح سے جسم مثالی بنتا ہے اور کس طرح جسم مثالی سے عالم ناسوت کی اشیاء وجود میں آتی ہے۔‘‘

جواب: اللہ چھپا ہوا خزانہ تھا اس نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، اس چاہت کو پورا کرنے کے لئے اللہ نے محبت کے ساتھ تخلیق کا ایک پروگرام بنایا۔ کائنات سے متعلق جو کچھ اللہ کے ذہن میں نقش و نگار موجود تھے ان کو وجود بخشنے کے لئے اللہ نے فرمایا ’’کُن‘‘۔

اللہ کے ارادے میں جو کچھ تھا وہ ’’کُن‘‘ کہنے سے تخلیق ہو گیا اور روحیں وجود میں آ گئیں۔ کائنات کے تمام اجزاء اور ذرات کو شکل وصورت مل گئی۔ اس کے بعد اللہ نے موجودات کو مخاطب کیا۔

’’الست بربکم‘‘ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟

روحوں نے کہا ’’بلٰیٰ‘‘ جی ہاں آپ ہمارے رب ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماعت اور بصارت کی منتقلی کے بعد روحوں کو اپنا ادراک ہوا اور انہوں نے خود کو خدوخال میں دیکھا اور محسوس کیا۔ روح تخلیقی پروسیس کے تحت عالم لوح محفوظ اور عالم برزخ سے نزول کرتی ہوئی عالم ناسوت میں آ گئی۔

باطنی نگاہ جب تخلیقی پروسیس کو دیکھتی ہے تو وجود چھ غلافوں میں بند نظر آتا ہے۔ ان میں تین غلاف روشنیوں کے ہیں اور تین غلاف نور کے ہیں۔

ان کے نام یہ ہیں۔

1۔ روشنی مرکب

2۔ روشنی مفرد

3۔ روشنی مطلق

4۔ نور مرکب

5۔ نور مفرد

6۔ نور مطلق

ہر چیز اللہ کی طرف سے آتی ہے اور اس کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو اللہ تھا۔ جب اللہ کو خیال آیا کہ میں پہچانا جاؤں تو اللہ نے کائنات کی تخلیق و تشکیل کا ایک پروگرام بنایا۔ چنانچہ بشکل کائنات اللہ کے ذہن میں جو کچھ موجود تھا اس نے پہلی کروٹ لی اور حرکت شروع ہو گئی۔

یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے (قیامت تک اور قیامت کے بعد ابدالاباد تک) جو پہلے سے وجود نہ رکھتی ہوں۔ جنت دوزخ قرون اولیٰ، قرون وسطیٰ اور قرون اخریٰ بھی پہلے سے موجود ہیں۔ خالق کائنات اللہ کہتا ہے کہ:

’’میں لوح محفوظ کا مالک ہوں جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں۔(ہر وعدہ ہے لکھا ہوا۔ مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور رکھتا ہے اس کے پاس ہے اصل کتاب) ۔(سورۃ رعد) 

لوح محفوظ کے نقوش عالم تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کا لباس قبول کر لیتے ہیں۔ عنصریت کا لباس کو قبول کرتے ہی مکانیت کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ مکانیت کا قیام زمانیت پر ہے۔



Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔