Topics
کائنات ایک گروہی تقسیم ہے۔ یہ گروہی تقسیم ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر
گروہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہے۔ گروہی تقسیم سے مراد کائنات
میں مختلف النوع مخلوقات ہیں۔ ہر مخلوق شکل و صورت، خدوخال، مزاج اور عملی
کارکردگی کے اعتبار سے گو کہ مختلف نظر آتی ہے لیکن سسٹم کی اکائی سے کوئی مخلوق
فرار اختیار نہیں کر سکتی۔
ہر مخلوق اس کی حیثیت کچھ بھی ہو، اجتماعی ذہن رکھتی ہے۔ یہ اجتماعی ذہن
تقسیم ہو کر کسی مخلوق کا انفرادی عمل بنتا ہے۔
زمین پر لاکھوں کی
تعداد میں مخلوقات موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حیوانات کی اقسام دس لاکھ سے بھی
زیادہ ہیں۔ زمین پر پودوں کی بھی تعداد کئی لاکھ ہے۔ اسی طرح اشجار کی تعداد بھی
کئی سو ہزار سے زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ پانچ لاکھ قسم کے پرندے زمین پر
موجود ہیں۔ سمندر کے اندر موجود مخلوق لاکھوں قسموں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اسی
طرح زمین پر رینگنے والے کیڑے اور حشرات الارض کی قسمیں شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔
تمام مخلوقات کروڑوں اور اربوں سالو سے زندہ ہیں۔ اور زندہ رہنے کے لئے
خوراک حاصل کرتی ہیں۔ ایسی مخلوقات بھی بیشمار ہیں جو خود اپنی اصناف کو کھا کر
زندہ رہتی ہیں۔ اس کے باوجود کہ یہاں ہر مخلوق دوسری مخلوق کے لئے غذائی ایندھن بن
رہی ہے، مخلوق ختم نہیں ہوتی۔ مخلوقات جب ایک دوسرے کوکھا رہی ہیں تو یہ بات حیران
کن ہے کہ زمین پر اتنی بڑی تعداد میں جاندار کس طرح زندہ ہیں۔ ہر مخلوق چاہے وہ
کتنی بھی کمزور ہو، چھوٹی ہو، نادیدہ ہو، اپنی نسل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
مردم شماری کے مطابق انسان زمین پر چھ ارب ہیں۔ ہر انسان دن میں تین مرتبہ
کھانا کھاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے ہوا کہ زمین کے دسترخواں پر ہر روز تقریباً اٹھارہ
ارب انسان کھانا کھاتے ہیں۔
دیمک چیونٹی سے چھوٹا ایک کیڑا ہے۔ سائنس بتاتی ہے کہ دیمک دوسرے حشرات کی
طرح انڈے دے کر اپنی نسل بڑھاتی ہے۔ ایک دیمک عام طور پر ایک ہزار سے دو ہزار انڈے
دیتی ہے۔ دیمک کی ایک دوسری قسم ایک وقت میں بیس لاکھ انڈے دیتی ہے۔ تحقیقات سے یہ
ثابت ہوا ہے کہ یہ انڈے بہت سارے دوسرے حشرات کے لئے بے حد لذیذ اور مرغوب غذا
ہیں۔ ان بیس لاکھ انڈوں میں سے پانچ سو انڈے بچ جاتے ہیں اور اس طرح دیمک کی نسل
چلتی رہتی ہے۔
کارخانہ حیات پر اور کارخانہ حیات کی قدرت پر غور کیا جائے تو انکشاف ہوتا
ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے دوسری شئے کے لئے خوراک بن رہی ہے۔ اس کے باوجود نسلی
سلسلہ قائم ہے۔ مخلوقات کے ذریعہ حیات کی ترسیل کا خدائی نظام موجو دہے۔
ایک خاص قسم کا الو اپنی مخصوص جگہ پر حرکت کئے بغیر بیٹھتا رہتا ہے۔ اپنے
انر سے ایک برقی شعاع خارج کرتا ہے جس کے اثر سے ایک چڑیا اس کے سامنے آ کر بیٹھ
جاتی ہےا ور الو اسے پکڑ لیتا ہے۔
راقم الحروف کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جب ماربل کی سل کو آرے سے چیرا گیا تو اس
کے اندر سبز رنگ کا زندہ کیڑا موجود تھا۔
سائنس بتاتی ہے کہ:
چلتے ہوئے آتش فشانوں سے بہنے والے لاوے غار بن جاتے ہیں چونکہ غاریں گرم
لاوے سے وجود میں آتی ہیں جس کا درجہ حرارت دو سو سے تین ہزار سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
ان غاروں میں نئی زندگی کی تخلیق کے ممکنات پر تحقیق کرنے والی ایک ٹیم نے ایک غار
میں سانپ سے ملتی جلتی ایک مخلوق کا سراغ لگایا۔ پہلے تو انہیں خیال آیا کہ یہ
باہر کی دنیا کا ایک سانپ ہے مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس مخلوق کا سانپ کی
نسل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ وہ ایک دیو ہیکل کیڑا تھا جو تقریباً دو میٹر
لمبا تھا۔ مگر اصل حیرت اس وقت ہوئی جب اس کا معائنہ لیبارٹری میں کیا گیا۔ اس
کیڑے میں نہ تو نظام ہضم تھا اور نہ ہی نظام تنفس تھا۔ اس مخلوق میں صرف دل تھا۔
یہ انکشاف ایک معمہ بن گیا۔ یہ کس طرح زندہ رہتا ہو گا؟ کیسے کھاتا ہو گا؟
اور کس طرح سانس لیتا ہو گا؟ اس مخلوق کی جلد پر تحقیق نے یہ معمہ حل کر دیا۔ اس
کی جلد پر رہنے والے خوردبینی جراثیم (بیکٹیریا) سے خوراک مہیا کرتے تھے۔ انہیں کے
ذریعے یہ مخلوق آکسیجن حاصل کرتی تھی۔ سوچنے کی یہ بات ہے کہ یہ کیڑا اس غار میں
پیدا ہوا جسے آتش فشاں کی بے پناہ آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا تھا۔ یہ پیدا کیسے
ہوا؟ زندہ کیسے رہا؟ نشوونما کیسے ہوئی؟ دو میٹر لمبا کس طرح ہو گیا؟ اور اس کا
ارتقاء کس طرح ہوا؟
کروڑوں اربوں پرندے زمین کی فضا میں موجود رہتے ہیں۔ یہ پرندے کھانا کھاتے
ہیں، پانی پیتے ہیں اور حیات و ممات کے سلسلے میں دوسرے تمام گروہوں کے ساتھ قدرے
مشترک رکھتے ہیں۔ انسانی زندگی ہو، حیوانی زندگی ہو، حشرات الارض کی زندگی ہو یا
پرندوں کی زندگی ہو سب ایک زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں، حیات و ممات کی زنجیر سے
زمین پر موجود کوئی بھی مخلوق آزاد نہیں ہے، آزاد نہیں ہو سکتی، آزاد نہیں تھی،
حیات و ممات ایک مسلسل حرکت ہے اور حرکت توانائی کے بغیر ممکن نہیں اور توانائی کے
لئے غذا کا ہونا ضروری ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرندے کہاں سے کھاتے ہیں؟ اتنی بڑی تعداد اگر
کھیتی باڑی سے حاصل شدہ گندم یا چاول کھانے لگے تو انسان بھوکا مر جائے گا، کارساز
حیات کی قدرت پر قربان جایئے کہ آسمان پر پرندوں کے غول اڑتے ہیں اور انہیں پرواز
کے لئے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے اور توانائی کے لئے غذا کا حصول ضروری ہے۔ پرندے
فضاء میں سے زمین پر اترتے ہیں اس سے پہلے کہ ان کے پنجے زمین پر لگیں وہاں ان کے
لئے غذا موجود ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’کتنے ہی
جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق
بھی وہی ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
(العنکبوت۔ ۶۰)
زمین، فضاء، خلاء اور آسمان پر تفکر کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات میں
جتنی بھی اشیاء یا مخلوقات ہیں وہ سب اپنا ایک تشخص رکھتی ہیں ان کی اپنی انفرادیت
ہے اور ان کے اندر ایثار ہے کہ وہ دوسری مخلوق کے کام آئیں۔
ہم زمین پر بیج بوتے ہیں، بیج مخلوق کی ایک قسم ہے، بیج ایک گروہ ہے، اس
بنیاد پر گروہ ہے کہ آم بیر نہیں ہوتا، بیر انجیر نہیں ہوتا، انجیر کیلا نہیں
ہوتا، کیلا شہتوت نہیں ہوتا، جس طرح بیج کی قسمیں الگ الگ ہیں اسی طرح درختوں کی
قسمیں یا گروہ الگ الگ ہیں، آم کے درخت کے پتے شہتوت کے درخت کے پتوں کی طرح نہیں
ہیں، بادام کے درخت کے پتے بیری کے پتوں سے مختلف ہیں، امرود کے درخت کے پتوں اور
انار کے درخت کے پتوں میں نمایاں فرق ہے، نہ صرف یہ کہ گروہی اعتبار سے پتوں کے
خدوخال جدا جدا ہیں درختوں میں سے پیدا ہونے والے پھل بھی الگ الگ ہیں۔
انار، امرود، انجیر، جامن، آم، چیکو، شریفہ اور سینکڑوں قسم کے پھلوں کو
ایک ٹرے میں سجایئے اور غور کیجئے کہ یہ سب ایک ہیں؟ ہرگز ایک نہیں ہیں۔ سب الگ
الگ ہیں، رنگ الگ ہے، ذائقہ الگ ہے، شکل و صورت الگ ہے، خوشبو الگ ہے لیکن اس کے
باوجود درخت درخت ہے جس طرح انسان انسان ہے، پودے پودے ہیں، جس طرح گھاس گھاس ہے
لیکن نظام قدرت اور کائناتی گروہی نظام یہ ہے، ہر گروہ دوسرے گروہ کے کام آ رہا ہے
اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے لئے غذا بن رہا ہے، ہر گروہ دوسرے گروہ سے نہ تو متصادم
ہے اور نہ ایک گروہ دوسرے گروہ میں تحلیل ہو رہا ہے اس کے باوجود ہر شئے دوسرے شئے
کے لئے کسی نہ کسی عنوان سے غذا بن رہی ہے، اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ وجود
کس طرح قائم ہے ؟ وجود کے قیام میں یہ اسرار ہے کہ تمام مخلوق پر حاکمیت ایک ہستی
کی ہے، اگر ایک ہستی کی حاکمیت نہ ہوتی تو ہر گروہ ہر نوع، نوع کی ہر قسم ایک
دوسرے سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہو جاتی، واحد ہستی اللہ کی بنائی ہوئی لوح محفوظ میں
تمام مخلوقات کا ریکارڈ محفوظ ہے جسے ایک کمپیوٹر کی طرح کوڈ کیا گیا ہے۔ لوح
محفوظ میں یہ بات محفوظ ہے کہ کس طرح مخلوق مخلوق کے کام آئے گی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔