Topics
طرز فکر
دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا تعلق براہ راست
طرز فکر سے ہے۔ ایک طرز فکر وہ ہے جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے سہے
اور ایک طرز فکر وہ ہے جس طرز فکر کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے قائم نہیں ہے۔ اللہ
تعالیٰ کی طرز فکر کا مشاہدہ ہر آن اور ہر گھڑی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی
قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’’ہماری نشانیوں پر غور کرو، تفکر کرو اور عاقل،
بالغ، باشعور، سمجھ دار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے
ہیں۔‘‘اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہر، حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم
ہر وقت مستفیض ہوتے رہتے ہیں وہ ہوا، پانی، دھوپ اور رنگ ہیں۔
یہ ساری چیزیں براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق
کردہ ہیں۔ ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں
آتی کہ ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشاء اور مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو
فائدہ پہنچے ایسا فائدہ کہ جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد، کوئی
لین دین اور کوئی کاروبار نہیں ہے۔
انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندے
کی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی طرف موڑ دیا جائے یعنی اگر بندہ انفرادی طور پر زندہ
رہتا ہے تو اس لئے زندہ نہ رہے کہ اس کو اس کی مرضی کے بغیر اللہ تعالیٰ نے پیدا
کیا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ وہ زندہ رہے اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے
اندر صلاحیتوں کا ذخیرہ جمع کر دیا ہے تو جب اللہ تعالیٰ اسے توفیق دیں اور وہ ان
صلاحیتوں کا استعمال کرے تو اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ میری صلاحیتوں کا اظہار
اس لئے ہو رہا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
اللہ کے دوست
آپ کسی نمازی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو نمازی
بن جا تے ہیں۔تاش کھیلنے والے کے ساتھ دو ستی کر نا چا ہتے ہیں تو تاش کھیلنا شروع
کر دیتے ہیں۔علیٰ ہذا لقیاس اگر ہم شیطان سے قربت کے خوگر ہیں تو شیطان کے اوصاف
پسند کر تے ہیں اور اگر ہم رحمان سے قربت چا ہتے ہیں تو رحمان کی صفات اختیار کر
تے ہیں۔
رحمان
کی صفات یہ ہیں کہ وہ اپنی مخلوق کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہے۔پس، اگر آپ اپنے
اللہ اپنے خالق سے متعارف ہو کر اس کی قربت اختیار کر کے کائنات پر اپنی حاکمیت
قائم کر نا چا ہتے ہیں تو اللہ کی مخلوق کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیجئے ۔بلا شبہ
اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنے والے لوگ اللہ کے دوست ہیں اور دوست پر دوست کی
نوازشات و کرامات کی ہمیشہ با رش ہو تی رہتی ہے۔
اللہ کی رضا کے حصول اور اس کے راستے کی طرف
دعوت دینے کا مؤثر ذریعہ مخلوق خدا کی بے لوث خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو خالص انسانی
قدروں اور خلوص و محبت اور خیر خواہی کے جذبات پر قائم ہو‘ نہ کہ بدلے اور گھٹیا
سودے بازی پر۔ اللہ کی مخلوق سے محبت کا تعلق استوار رکھنا اور اللہ کی مخلوق ہونے
کے ناطے سے ان کی خدمت کرنا خالق کی رضا اور خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
بغاوت
انسان سمجھتا ہے کہ مال و دولت کے انبار اس کی
ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ گن گن کر مال و دولت جمع کرتا ہے اور اس
یقین کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ مرتے دم تک مال و دولت کے معاملے میں
ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس دوڑ میں وہ اپنے بھائیوں
کے حقوق کے اتلاف کی بھی پروا نہیں کرتا۔ قدرت نے اسے توانائیوں کے جو بیش بہا
خزانے کسی اور مقصد کے لئے عطا کئے ہیں وہ انہیں ہوس زر میں صرف کر دیتا ہے۔
انسان کہتا ہے جو کچھ میں کماتا ہوں وہ میرے
دست و بازو کی قوت پر منحصر ہے، اس لئے میں جس طرح چاہوں اسے خرچ کروں۔ کوئی مجھے
روکنے والا نہیں ہے اور یہی وہ طرز فکر ہے جو آدمی کے اندر سرکشی اور بغاوت کی تخم
ریزی کرتی ہے۔ جب یہ سرکشی تناور درخت بن جاتی ہے تو اللہ سے اس کا ذہنی رشتہ ٹوٹ
جاتا ہے۔ اور آدمی کا شمار ذریت قارون میں ہونے لگتا ہے۔
انفرادی حدود میں دولت پرستی کی بیماری آدمی
کی انا اور اس کی ذات سے گھن بن کر چپک جاتی ہے۔ اس کی انسانی صفات کو چاٹتی رہتی
ہے اور خالق کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتی ہے۔ آدمی کے باطن میں
ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑا ہو کر اس کی ذات کو اپنی
گرفت میں لے لیتا ہے۔ آدمی کی بہترین تخلیقی صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں ضائع ہو
جاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ میں پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے
کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔
دولت کے دو رخ
دولت کے دو رخ ہیں۔ دولت کا ایک رخ تو یہ ہے کہ
انسان کو دولت عذاب بن کر، جہنم بن کر خاکستر کر دیتی ہے۔ دولت کا دوسرا روپ یہ ہے
کہ دل و دماغ رنگینیوں، رعنائیوں، قناعت، مسرت اور شادمانیوں سے معمور ہو جاتا ہے۔
اس روپ کا دولت مند بیواؤں اور یتیموں کے لئے پناہ گاہیں تعمیر کرتا ہے، سینکڑوں
بپتاؤں اور مصیبتوں سے دوسروں کے لئے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ حیوان محض بن
کر زندہ نہیں رہتا۔ دل کی دنیا میں جگ مگ روشن قمقمے سجا کر دل کی دنیا کو آباد کر
لیتا ہے۔ وہ عقل کے لحاظ سے احمق اور آنکھوں کے لحاظ سے اندھا نہیں ہوتا۔ حیوانیت
سے دور ہوتا ہے اور اس عادت کو اپنا لیتا ہے جو عادت اللہ رب العالمین رازق کی ہے۔
قانون قدرت سرمایہ پرستی اور لالچ کو کبھی پسند
نہیں کرتا۔ وہ ایسی قوموں کو غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل دیتا ہے۔
قرآن پاک سرمایہ پرستوں کے اس اولین دعوے پر
کاری ضرب لگاتا ہے کہ ان کی کمائی اور ان کی دولت ان کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ رزق کا حصول اور اس کی پیدائش تمہارے زور بازو
کا نتیجہ ہے، ایک خام خیال ہے۔ فطرت کے قوانین اور اس کے وسائل خود تمہارے لئے
مسلسل رزق کی بہم رسانی میں مصروف ہیں۔ سمندروں سے پانی بخارات کی شکل میں زمین پر
برستا ہے اور زمین کی مردہ صلاحیتوں میں جان ڈال کر اسے وسائل کی تخلیق کے قابل
بنا دیتا ہے۔ زمین طرح طرح کی پیداوار کو جنم دے کر انسان کی پرورش کرتی ہے اور اس
کی زندگی کے قیام کے وسائل فراہم کرتی ہ ے۔ ہوا، سورج کی روشنی اور بہت سے دوسرے
عوامل اس دوران فصلوں کو بارآور کرنے میں سرگرم رہتے ہیں۔ اور بلا معاوضہ آدمی کی
خدمت کرتے ہیں۔ رزق اور وسائل کے حصول اور عمل میں انسان کی کوشش صرف ہاتھ بڑھا کر
روزی حاصل کر لینا ہے۔
تم نیکی اور اچھائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ
وہ چیز اللہ کی راہ میں نہ دے دو جو تمہیں عزیز ہے۔‘‘
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی حد کو وسیع کرتے
ہوئے کہا گیا کہ
’’اے نبیﷺ! وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ
کریں۔ کہہ دو کہ اپنی ضرورت سے زائد۔‘‘
ان احکام خداوندی کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ کی
مخلوق کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیجئےمعذور لوگوں کے لئے پناہ گاہ
بنوائیے یتیم اور لا وارث بچوں کے لئے اسکول کھولئے نادار بچیوں کی شادی کرائیے،
بیواؤں کی مدد کیجئے بے ہنر بچوں کو ہنر سکھائیے اور اجتماعی اور انفرادی طور پر
لوگوں کو علم سکھائیے یہ کام سب سے پہلے اپنے مستحق رشتہ داروں سے شروع کیجئے اور
پھر اس میں دوسرے ضرورت مندوں کو بھی شامل کر لیجئے۔
یاد رکھیئے! جو کچھ آپ اللہ کے لئے خرچ کریں وہ
محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو۔ اس میں کوئی غرض، بدلہ یا شہرت کا حصول پیش نظر نہ
ہو۔
ضرورت مندوں کی امداد پوشیدہ طریقے سے کریں تا
کہ آپ کے اندر بڑائی یا نیکی کا غرور پیدا نہ ہو۔ اور نہ ان کی عزت نفس مجروح ہو۔
کسی کو کچھ دے کر احسان نہ جتائیں اور نہ نمود و نمائش کا اظہار کریں۔
آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔
اللہ کی دی ہوئی دولت کو دوسروں پر خرچ کرنے کے بعد غریبوں کی خودداری کو ٹھیس
لگانا اور ان سے اپنی برتری تسلیم کرانا، احسان جتا کر ٹوٹے ہوئے دلوں کو دکھانا
بدترین گھناؤنے جذبات ہیں۔ وہ اللہ جس نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ دوسروں کی مدد
کریں، فرماتا ہے:
’’مومنو! اپنے صدقات اور خیرات کو احسان جتا جتا کر اور غریبوں کا دل دکھا کر اس آدمی
کی طرح خاک میں نہ ملا دو جو محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے۔‘‘
اس انعام کا شکر ادا کرنے کے لئے کہ خدا نے
اپنے فضل و کرم سے ہمیں آسانی اور سہولت دی ہے اور ہمیں دنیاوی آسائشیں عطا کی
ہیں،
کبھی کبھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور
مساکین کو کھانا، پیسہ اور کپڑا وغیرہ بھی دلوایئے تا کہ ان کے اندر غریبوں کے
ساتھ سلوک، سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ ان کے منہ
میں نوالے دیجئے۔ ان سے بھی کہئے کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔
اس عمل سے حقوق العباد کا احساس اور انصاف کے تقاضے اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ
قالب انسان میں نمو پاتے ہیں۔
گرم لہریں
اللہ کی مخلوق کی ذہنی تربیت اس نہج پر کریں کہ
ان کے اندر آپس میں بھائی چارہ ہو، ایثار ہو، خلوص ہو اور لوگ ایک دوسرے سے محبت
کریں۔
جس معاشرے میں محبت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ
معاشرہ ہمیشہ پُر سکون رہتا ہےوہ معاشرہ ہمیشہ پر سکون رہتا ہے اور جس معاشرے میں
بیگانگی اور نفرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اس معاشرے کے افراد ذہنی خلفشار اور عدم
تحفظ کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔
محبت سراپا اخلاص ہے ، نفرت مجسم غیظ و غضب اور
انتقام کے خدوخال پر مشتمل ہے ۔ غصہ بھی نفرت کی ایک شکل ہے ۔ قرآن کہتا ہے ’’جو
لو گ غصہ کو کھاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں ، اللہ ایسے احسان کر نے والے بندوں سے محبت کر
تا ہے ۔ ‘‘ نفرت کا ایک پہلو تعصّب بھی ہے ۔ رسول اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے
کہ جو شخص تعصّب پر جیا اور مراوہ مجھ سے نہیں ہے ۔ تعصّب کر نے والا بندہ رسول اللہ (ﷺ) کی شفاعت
سے محروم رہتا ہے ۔
محبت پرسکون زندگی اور اطمینان قلب کا ایک
ذریعہ ہے ، کو ئی انسان جس کے اندر محبت کی لطیف لہریں دوڑ کر تی ہیں وہ مصائب و
مشکلا ت او رپیچیدہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے ۔اس کے چہرے میں ایک خاص کشش پیدا
ہو جا تی ہے ۔اس کے بر خلاف نفرت کی کثیف ،شد ید اور گر م لہریں ا نسانی چہرہ کو
جھلس دیتی ہیں اور دماغ کو اتنا بو جھل اور تا ریک کر دیتی ہیں کہ زندگی میں کام
آنے والی لہریں مسموم اور زہر یلی ہو جاتی ہیں اس زہر سے انسان طرح طرح کے مسائل
اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔
نفسیات داں یہ بات جانتے ہیں کہ ہر انسان روشنیوں
سے مرکب ہے اور روشنی کی یہ لہریں انسان کی ہستی سے غیر محسوس طریقے پر نکلتی رہتی
ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے ایسا آتا ہے کہ ہم اس چہرہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں
اور جس ہستی کا یہ چہرہ ہے ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ کوئی چہرہ ہمارے سامنے
ایسا بھی آتا ہے کہ ہم اس چہرے میں سے نکلنے والی لہروں سے بیزار ہو جاتے ہیں اور
چاہتے ہیں کہ جلد از جلد وہ چہرہ ہماری نظروں سے دور ہو جائے۔
جن لوگوں کے دل اللہ کے نور سے معمور ہوتے ہیں
اور جن لوگوں کے دماغ میں خلوص، ایثار، محبت، پاکیزگی اور خدمت خلق کا جذبہ ہوتا
ہے ایسے لوگوں کے چہرے بھی خوش نما، معصوم اور پاکیزہ ہوتے ہیں۔ ان چہروں میں ایسی
مقناطیسیت ہوتی ہے کہ ہر شخص قریب ہونا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے لوگ جو احساس
گناہ اور اضطراب میں مبتلا ہیں، ان کے چہروں پر خشونت، خشکی، پیوست، بے آہنگی اور
کراہت کے تاثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ تاثرات دوسرے آدمی کے دل میں دور رہنے کا
تقاضا پیدا کرتے ہیں۔قانون فطرت یہ ہے کہ انسان کے ہر عمل کی فلم بنتی رہتی ہے اور
ہر آدمی کی اپنی اس فلم کے لئے اس کا اپنا چہرہ اسکرین ہے۔ کراماً کاتبین کی بنائی
ہوئی فلم انسانی چہرے پر چلتی رہتی ہے۔
حقوق العباد
قرآن پاک نے ہم پر حقوق اللہ کے ساتھ حقوق
العباد یعنی بندوں کے حقوق پورا کرنا لازم و ملزوم کر دیا ہے اور اس کی بہت تاکید
کی ہے۔
حقوق العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع
ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولین
فریضہ ہے۔ اہل و عیال کے لئے حلال رزق کا حصول اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی
حقوق العباد میں سے ہے۔ اس کے بعد دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسی کا نمبر آتا ہے۔ آخر
میں تمام انسان حقوق العباد کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔
حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے اور اخلاقی حق
بھی۔ قرآن پاک نے جا بجااس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جزو قرار دیا
ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق
اور مغرب کی طرف کر لو لیکن نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور قیامت
کے دن پر اور فرشتوں پر اور آسمانی کتابوں پر اور نبیوں پر اور مال دیتا ہو اللہ
کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال
کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے میں۔ (البقرہ)
اگر ہم اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ مالی لحاظ سے
کسی کی مدد کر سکیں تو خدمت کے اور بھی ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف
صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ہم ان صلاحیتوں سے لوگوں کی خدمت کریں۔
اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس
کے لئے برائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ خیر خواہی کے لئے محض مالی حالت کا اچھا ہونا
ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی کی غیبت
نہ کرنا اور نہ سننا، اللہ کی مخلوق سے حسن ظن رکھنا، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر
دینا، کسی ضعیف یا بیمار کو سڑک پار کرا دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، سڑک پر
پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹا دینا حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔
دنیا کا ہر آدم زاد آپ کا بھائی ہے۔ میں آپ کا
بھائی ہوں، آپ میرے بھائی ہیں، وہ میری بہن ہے، میں اس کا بھائی ہوں۔ ان سب بہن
بھائیوں میں من حیث القوم پہلے قرابت داروں کا حق زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب
یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اوپر نوع انسانی کے حقوق عائد نہیں ہوتے۔ کنبہ، برادری،
ملک و قوم اپنی جگہ ہر آدم زاد کا دوسرے آدم زاد پر حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ایک
باپ آدم اور ایک ماں حوا کے رشتے سے ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دعوت حق دیں۔
دعوت حق قبول کرنے والا کسی علاقے کا ہو، کسی رنگ اور نسل کا ہو، وہ کوئی بھی زبان
بولتا ہو، آپ کا اس سے تعارف ہو یا نہ ہو آپ اس کے ساتھ خلوص اور محبت کا اظہار کریں اس کو بتائی کہ مادی
جسم عارضی ہے اس میں اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے اس انسان اس کی روح ہے اور
جسمانی تمام حرکات روح کے تابع ہیں روح جسم سے نکل جاتی ہے تو مادی وجود کو کوئی
حیثِت نہیں رہتی۔
ماورائی کیمرہ
طرز گفتگو میں آدمی کی شخصیت کا عکس جھلکتا ہے۔
خوش آواز آدمی کے لئے اس کی آواز تسخیر کا کام کرتی ہے۔ جب بھی کسی مجلس میں یا
نجی محفل میں بات کرنے کی ضرورت پیش آئے وقار اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کیجئے۔ یہ
بات بھی ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ ریکارڈ ہوتا ہے۔
آدمی جو بات بھی منہ سے بولتا ہے فرشتے اسے ماورائی کیمرے میں محفوظ کر لیتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے، نرمی کے ساتھ، میٹھے لہجے اور
درمیانی آواز میں بات کرنے والے لوگوں کو اللہ کی مخلوق عزیز رکھتی ہے۔ چیخ کر
بولنے سے اعصاب میں کھنچاؤپیدا ہوتا ہے اور اعصابی کھنچاؤ سے بالآخر آدمی دماغی
امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مخاطب یہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر رعب ڈالا جا رہا ہے
اور وہ اس طرز کلام سے بد دل اور دور ہو جاتا ہے، اس کے اندر خلوص اور محبت کے
جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔
شیریں مقال آدمی خود بھی اپنی آواز سے لطف
اندوز اور سرشار ہوتا ہے اور دوسرے بھی مسرور و شاداں ہوتے ہیں۔ اچھی، میٹھی اور
مسحور کن آواز سے اللہ میاں بھی خوش ہوتے ہیں۔
دعا
تمام لوگوں میں خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ
آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے۔ اور نفع پہنچانے والا کوئی
بندہ بلا تخصیص مرد و عورت نوع انسانی کا دوست ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو خدا کا دیدار ہوا خدا نے اپنے پیارے نبی سے کہا " مانگئیے"
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا مانگی۔
اے خدا! میں تجھ سے نیک کاموں کی توفیق چاہتا
ہوں اور بُرے کاموں سے بچنے کی قوت چاہتا
ہوں اور مسکینوں کی محبت چاہتا ہوں اور یہ کہ تو میری مغفرت فرمائے اور مجھ پر رحم
فرمائے اور جب تو کسی قوم کو عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے اس حال میں اٹھا لے
کہ میں اس سے محفوظ رہوں اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی
محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی توفیق چاہتا ہوں جو
تیرے قُرب کا ذریعہ ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔