Topics

دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیےہمیں کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟

 

جنوری 2000 ء میں مائیکرو سوفٹ نیٹ ورک براڈ کاسٹنگ کی طرف سے ایک بین الاقوامی سروے ہوا۔اس سروے میں یہ طے کیا جانا تھا کہ ایک ہزارسال میں کون سی ہستی سب سے زیادہ محترن اور شخصیت ساز ہوئی ہے۔ متفقہ طور پر حضرت محمدﷺ کو ہزار مین تمام انسانوں میں عظیم انسان تسلیم کیا گیا ہو۔

مشرق و مغرب دونوں خطوں کے دانشوروں نے حضرت محمدﷺکے بعد کوئی ایسی ہستی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی جو حضرت محمدﷺ سے کسی بھی طور پر بڑھ کر ہو۔

ہندو ریسرچ اسکالر ڈاکٹڑپنڈت وید پرکاش اپادھیائے نے برس ہا برس کی تحقیق کے بعد ایک معرکۃ الآ را کتاب" کالکی اوتار" لکھی ہے۔ آٹھ عالم  فاضل پنڈتوں نے بغور مطالعہ کے بعد اس کتاب میں مسودہ کو ہر اعتبار  سے درست قرار دیا ہے۔ کتاب میں ہندو دھرم کی مقدس کتابوں سے  ثابت کیا گیا ہے کہ ہندو مت کے ماننے والےجس آخری اوتار کا انتظار کررہےہیں وہ چودہ سو سال پہلے اس دنیا میں تشریف لا چکے ہیں۔ آخری پیغمبر (حضرت محمدﷺ) کی نسبت ڈاکٹر پرکاش نے وضاحت کی ہےکہ قدیم صحائف میں درج کالکی اوتار کےوالد کے نام وشنو بھگت مطلب ہے" بھگوان کا غلام یا اللہ کا بندہ" اور والدہ سومتی کے نام کا مطلب "امن و سکون یا قرار" ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے والد محترم کا نام عبداللہ ہے جس کے معانی "اللہ کا بندہ" کے ہیں جبکہ والدہ محترمہ کا نام آمنہ ہے جو"امن" سے ماخوذ ہے۔ ڈاکٹر پرکاش نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ قدیم ہندو صحیفوں کے مطابق آخری پیغمبر (کالکی اوتار) کی پیدائش ایک جزیرہ پر ہوگی۔ کھجور اور زیتون ان کی بنیادی خوراک ہوگی اور اپنے علاقے میں سچے اور امین کے طور پر جانے جائیں گے۔ ویدوں کے مطابق آخری اوتار کی پیدائش اپنے عہد کے معزز تریب قبیلہ میں ہوگی اور خدا آخری اورتاکو ایک برق رفتار گھوڑے پر آسمانی سیر کرائے گا۔

مختصراً یہ کہ موجودہ ترقی یافتہ دنیا میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کو سب سے بڑا انسان اور آخری نجات دہندہ کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے نوعِ انسانی کی رہنمائی اور حقیقت کی انسپائریشن ہے ۔ انسپائریشن کو قبول کرنے والے خواتین وحضرات کے قلب و نظر کو وہ روشنی عطا ہو جاتی ہے جو انہیں حقیقت سے آشنا وہمکنار کر دیتی ہے۔

زمین پر فساد کی ابتداء ۔۔۔ اس وقت ہوئی جب حضرت آدم کے بیٹے قابیل نے ابلیس کے فریب میں آکر اپنے بھائی ہابیل کا خون کیا۔تب سے اب تک زمانہ نیکی و بدی کےنئے نئے تغیرات سے دوچار ہے۔

حضرت محمدﷺ کی تشریف آوری کے باعث اولادِ آدم شرف و احترام کے نئے تصورات سے واقف ہوئی۔ آپ ﷺ اللہ کی آخری کتاب قرآن کے ذریعہ انسان کو فلاح و کامرانی کے اصول اور طور طریقے سکھائے ۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سے انسان نے اس دنیا میں خود داری اور عزت و سر بلندی کے ساتھ جینا سیکھا اور آخرت میں سرخروئی کے رازوں سے واقف ہوا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف زمین پر امن و امان قائم ہوگیا۔

رسول اللہ ﷺ  کی تعلیمات ہمیں رہنمائی عطا کرتی ہیں کہ بندہ ایسی طرز فکر اختیار کرے جوراست بازی ، خیر اور تعمیر پر مبنی ہو۔

حضرت محمد ﷺ نے قبیلوں میں منتشر اور خانہ جنگی میں مبتلا لوگوں کو ایک منظم قوم کی شکل دی۔ آپ کی انقلابی قیادت میں مدینہ کی ریاست محض دس سالوں کے اندر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے انقلاب کا مرکز بن گئی۔ نبی کریم ﷺ نے جو نظامِ زندگی عطا فرمایا اس پر عمل کرکے تھوڑے عرصہ میں ریاست کے پاس اس قدر وسائل آگئے کہ ریاست غریبوں کی کفیل بن گئی۔اس نظام پر عمل کرنے سے مملکت میں غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی ۔ خوشحالی میں اضافہ ہوا اور تاریخ گواہ ہے کہ وہ دن آگیا کہ زکوٰۃ دینے والوں کو مستحقین لوگ نہیں ملتے تھے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔چودہ سال پہلے کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ کیسے بنایا جائے؟ جبکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معیارات ( Life Standards ) میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ سفر کے لیے اونٹ ، بیل گاڑیاں اور دیگر چوپائے استعمال ہوتے تھے جبکہ آج مہینوں اور ہفتوں پر محیط مسافتیں دنوں اور گھنٹون میں طے ہو جاتی ہیں۔ معاش اور معاشرت کے لیے رابطے پہلے دقت طلب اور بہت سارا وقت صرف کے کے براہ راست ملاقاتوں پر منتج ہوتے تھے جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی بدولت انسان آج اس قابل ہو چکا ہے کہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر دنیا بھر کی خبر رکھ سکتا ہے، دوست احباب سے بالمشافہ گفتگو کر سکتا ہے، ایک بٹں دبا کر کاروباری لین دین کر سکتا ہے۔

حضرت محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ فضیلت دی ہے کہ آپ ﷺ انسانی فطرت کی تمام خوبیوں سے واقف ہیں چودہ سو سال سے اب تک دنیا بہت سے مدو جزر سے گزری ، بہت سے عروج و زوال کا مظاہرہ ہوا لیکن حضرت محمد ﷺ  کی تعلیمات ہر دور میں نوعِ انسانی کی رہنمائی کرتی رہیں۔

حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات جنگ ہو یا امن، خوشی ہو یا غمی ، غربت وہ یا امیری ، گمنامی ہو یا ناموری ، خسارہ ہو یا منافع تحقیق ہو یا تقلید، تدریس ہو یا تحصیلِ عمل ، مزدوری ہو یا تجارت۔۔۔غرض زندگی کے ہر پہلو، ہر انسانی رویئے، ہر طبقہ اورہر خطہ میں اپنی دائمی اساس پر قائم ہیں۔

اللہ کے محبوب ﷺ کے عہدمیں دس سال کے عرصے میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر لاکھوں انسانوں نے نہ صرف آپ ﷺ کی تعلیمات کو تسلیم کیا بلکہ اپنے علاقوں اور قبیلوں پر بحیثیت حکمران آپ ﷺ کی فرماں روائی بھی قبول کی۔ اس طرح تقریباً 274 میل روزانہ کے اوسط سے دس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان فتوحات میں دشمن کے ماہانہ اوسطاً دوسے بھی کم آدمی قتل ہوئے، جبکہ مسلمانوں کا جانی نقصان اس سے بھی کئی گنا کم رہا۔یہ دنیا میں سب سے پر امن انسانی نفوذ کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔کیونکہ حضرت محمد ﷺ کا اولین مقصد اللہ کے پیغام کو پھیلانا تھا، دلوں میں محبت کے دیپ جلانا تھا، اعلیٰ انسانی قدروں سے آراستہ معاشرہ کی تشکیل کرنا تھا۔

رسول اللہ ؐ  نے امن و آشتی کا پیغام عام کرنے کے ساتھ سا تھ  ایک زبردست علمی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کی بدولت مختصر سی مدت میں مسلمان قوم علم کی مورثِ اعلیٰ بن گئی۔ صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ ؐ نے جو ماحول تشکیل دیا وہ فطری تقاضوں اور اخلاقی معیار کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ تھا۔

خطہ  عرب میں باقاعدہ تعلیم کا پلا مرکز" صفہ" رسول اللہ ؐ نے مسجد نبویؐ میں قائم کیا۔ اس مرکز کی حیثیت مدینہ میں یونیورسٹی کی تھی جس کا بنیادی نصاب قرآن تھا۔ مسجد نبویؐ میں صفہ کی تعمیر سے علم و فن کے حصول کی راہیں متعین ہوئیں اور مظاہر قدرت میں غورو فکر اور تلاش جستجو کے احکامات پر مبنی قرآن ِ حکیم کی طرزفکر ذہنوں میں راسخ ہو گئی۔"صفہ" میں زیر تعلیم طالبات اور طلبہ میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔ باقاعدہ طالب علموں کے علاوہ کسب معاش کا فریضہ پوراکرنے کے بعد علم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالبعلموں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔ ہفتہ  میں ایک دن خواتین کے لیے مخصوص تھا۔

صفہ میں علمی نشستوں کا اہتمام اس طرح بھی ہوتا تھا کہ رسول اللہ ؐ سے قرآن اور قرآن میں بتائی گئی  حکمتوں کے بارے میں آپ ؐ کے ارشادات  سننے کے بعد صحابہ کرام  ٹولیوں میں بیٹھ کر ان ارشادات میں غورو فکر کرتے تھے اور اپنی اپنی رائے قائم کر کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تبادلہء خیال کرتے تھے۔ " صفہ" کا ایک حصہ طلباء کےلکھنے پڑھنے اور ابتدائی تعلیم دینے کے لیے مختص تھا۔دوسرے حصہ میں مختلف ممالک کی زبانیں سکھانے کا انتظام تھا۔ دوسرے ممالک کی سفارت پر جانے والے نبوی سفیر پہلے اُس ملک کی زبان سیکھتے تھے۔ کئی صحابہ کرام   ایک سے ذائد زبانیں جانتے تھے۔ حدیث شریف میں ہے کہ " جس نے دشمن کی زبان سیکھلی وہ دشمن کے شر سے محفوظ ہو گیا۔"

حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا،" اللہ تعالیٰ نے مجھے علم کے ساتھ مبعوث فرمایا اور علم کی مثال اس بارش کی طرح ہے کہ جو کسی جفہ برسی ، زمین کے اچھے حصہ نہ پانی جذب کیا اور وہاں خوب سبزہ اور گھاس اُگی۔ کچھ زمین بنجر تھی وہاں پانی جمع ہوا، اللہ نے اس لوگوں کو فائدہ پہنچایا، وہاں سے لوگوں نے پانی پیا، جانوروں کو پلایا اور اس سے فصلوں کو سینچا۔ جبکہ کچھ زمین ناہموار، چٹیل میدان کی شکل میں تھی جہاں پانی رکتا ہے نہ گھا س اُگتی ہے۔ ہلی مثال اس شخص کی ہے جس نے دنی میں کہارت حاصل  کی اور اللہ نے میری بعثت سے اُسے فائدہ پہنچایا چنانچہ اس نے خود سیکھا اور دوسروں سکھایا۔ جبکہ دوسری مثال اُس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین کی طرف توجہ نہیں کی اور جو  ہدایت دے کر مجھے مبعوث کی گیا ہے اس قبول نہیں کیا۔"

رسول اللہؐ صرف زبانی تعلیم ہی نہیں دیتے تحَ بلکہ خود عمل کرکے عملی تربیت کے مراحل بھی طے کراتے تھے۔ رسول اللہؐ کا ارشاد ہے، " علم پکارتا ہےعمل کو پس اگر عمل آجاتا ہے تو علم ٹھہر جاتا ہے۔۔۔ورنہ چلا جاتا ہے۔"

رسول اللہؐ کی خدمت میں ایک مرتبہ حضرت کلاہ  بن حنبل حاضر ہوئے اور سلام کئے بغیر محفل میں شریک ہو گئے ۔ رسول اللہ ؐ نے انہیں محفل میں مہذب طریقہ سے شامل ہونے کا طریقہ عملی طور پر یوں تعلیم کیا کہ انہیں حکم دیا کہ واپس لوٹ جاؤ، پہلے اسلام علیکم کہو اور پھر پوچھو کیا میں اندر داخل ہو سکتا ہےہوں۔

عام مشاہدہ ہے کہ عادتوں کو مستحکم کرنے میں تکرار کی بڑی اہمیت ہے۔ جب کوئی بار بار اور بکثرت کیا جاتا ہے تو عادت مستحکم ہو جاتی ہے۔ جدید تحرباتی تحقیق نے یادداشت اور تکرار کے درمیان مضبوط رشتہ ثابت کیا ہے۔ تکرار سے معلومات ذہن پر نقش ہو جاتی ہےاور فن میں پختگی آتی ہے۔ رسو ل اللہؐ جو بات بھی تعلیم فرماتے تھے اسے تاکیداً ایک سے زیادہ مرتبہ دہراتے تھے تاکہ سننے والے پوری طرح سمجھ جائیں اور اُن کے ذہن معانی کا احاطہ کر لیں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ جب کوئی بات سمجھاتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ لی جائے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ؐ سے قرآن کی دس آیات سیکھتے تھے اور اس کے بعد والی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے تھے اور اس کے بعد والی دس آیات اس وقت تک نہیں سیکھتے جب تک کہ پہلی دس آیات کے معنی کو اچھی طرح جان کر ان پر عمل نہ کر لیں۔

رسول اللہ ؐ کے دوران لوگوں کو متوجہ رکھنے ، ان کے ذہنوں میں غوروفکر کی طرزیں مستحکم کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف بھی بھر پور توجہ دیتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ آپ دوران گفتگو حاضرین سے سوالات کرتے تھے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر خطاب کے دوران آپؐ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا،" یہ کونسا مہینہ ہے؟  " حاضرین نےجواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول ؐ زیادہ واقف ہیں۔ رسول اللہ ؐ نےتوقف فرمایا، صحابہ کرام  فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ آپ ؐ کسی اور نام سے اس مہینہ کو پکاریں گے ۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول اللہ ؐ نے فرمایا،۔۔۔"کیا یہ زی الحج نہیں ہے؟" حاضرین نے یک زبان ہو کر عرض یا ، کیوں نہیں یہ ذی الحج ہی ہے۔ پھر رسول اللہؐ نے ستفسار کیا، " یہ کون سا شہر ہے؟" ۔کچھ توقف کے بعد آپ ؐ نے فرمایا۔۔" کیا یہ مکہ معظمہ نہیں ہے؟"  لوگوں نے عرض کیا، کیوں نہیں ۔ پھر رسول اللہ ؐ نے سوال کیا، " یہ کون سا دن ہے؟" کچھ دیر سکوت کے بعد آپ ؐ نے فرمایا،۔۔۔۔" کیایہ یوم النحر(قربانی کا دن ) نہیں ہے ؟" ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، جی ہاں بالکل ہے۔ اس طرح رسول اللہ ؐ نے پاک دن ، پاک مقام اور پاک مہینہ کی اہمیت واضح کرنے کے بعد فرمایا، ۔۔۔" بے شک تمہارا خون ، تمہارا مال اور آبرو ایک دوسرے پر اس طرح حرام ہےجس طرح تمہارے لیے یہ دن ، شہر اور مہینہ ۔"

علم و عمل کے ساتھ ساتھ شخصی تعمیر(Personal Growth) کے دیگرپہلوؤں کی طرف بھی رسول اللہؐ نے خصوصی توجہ دی ہے۔ شخصیت کی تعمیر یا ٹوٹ پھوٹ میں ہم نشینوں کی صحبت اور ان کے ماحول کا بڑا اثر ہے۔ مجموعی طور پر پاک طینت افراد کے درمیان رہنے کی تعلیم رسول اللہؐ کے اس ارشاد سے واضح ہے۔ " آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا اس لیے دیکھ لیناچاہئے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو ۔" اسی طرح قدسی نفسی برگزیدہ بندے کی تلاش اور قربت و صحبت اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے فرمایا، " جس نے زمانے کے امام کو ادراک قلبی سے تلاش نہیں کیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔"

ایک مرتبہ رسول اللہؐ صحابہ کرام  کے درمیان جلوہ افروز تھے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا،" تم مومن کو ہی اپنا ساتھی بناؤ"۔ ایک صاحب پوچھا "ہم نشین کیسے ہونے چاہئیں اور کن لوگوں کی قربت اختیار کی جائے؟رسول اللہؐ نے فرمایا ،۔۔۔۔"جن کو دیکھ کر خدایا آجائے۔۔۔جن کی گفتگو سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور ۔۔۔جن کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلادے۔ " ایک اور موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا، " چار باتیں آدمی کی خوش نصیبی کی علامت ہیں ۔ اس کی بیوی نیک ہو، اولاد فرمانبردار اور صالح ہو، اس کے ساتھی نیک ہوں اور اس کا رزق اپنے وطن میں ہو۔"

مالکِ ارض و سما نے رسول اللہؐ  کو عالمین کےلیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ ؐ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے معلم و ہادی ہیں اور امراض ظاہری و باطنی کے لیے طبیب کامل بھی۔ آپ ؐ نے روحانیت ، تہذیب و تمدن اور معاشرت کے اعلیٰ اصول دنیا کو بتائے ، پاکیزہ اور صحت بخش زندگی کے انمول فارمولوں کا فہم عطا کیا ور معمولاتِ زندگی کو بہتر طور پر جاری رکھنے کے لیے صحتمند تفریح اپنانے کی عملی تعلیم دی۔ یہ تعلیم نبویؐ کا اعجاز ہے کہ آج کے مہذب معاشرہ میں ان تمام انسانی ضروریات کا خیال رکھا جاتاہے جو ایک صحتمند اور فعال معاشرہ کے لیے لازمی ہے۔

اہل باطن کہتے ہیں کہ زمانہ کسی بھی نہج پر رواں دواں ہو ، حقیقت ہر دور اور ہر ماحول میں یکساں رہتی ہے۔ رسول اللہ ؐ کی حیات طیبہ میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے فرد کے لیے، زندگی کے ہر کردار کےلیے رہنما مثالیں موجود ہیں۔یہ رہنمائی اسقدر جامع اور مکمل ہے کہ زمانہ کی دست برداس  پر اثر اندا نہیں ہوتی ۔۔۔بلکہ یہ ہر دور اور ارتقاء کے ہر زینہ پر۔۔۔نوعِ انسانی کے لیے اس کا اتباع ۔۔۔کامیابی اور کامرانی کی ضمانت ہے۔

سیرت طیبہ کا مطالعہ یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے معاشرے میں نہایت عملی اور تعمیری کردار ادا فرمایاہے اور یاسی مثالیں قائم کی ہیں جو کہ ہر دور میں ہر فرد کے لیے قابل تقلید ہیں۔ آپ ؐ ایک مخلص شوہر تھے، آپ ؐ صاحبِ شفقت باپ تھے، فرمانبردار بیٹَ اور تابعدار بھتیجے تھے۔ خیر خواہ ہمسائے اور قابل بھروسہ ساتھی تھے۔ ہمدرد آجر(Employer) اور دیانتدار تاجر تھے۔ آپ ؐ رشتہ داروں کا خیال رکھنے والے اور عہد کا پاس کرنے والے تھے۔ خوش اخلاق، دانش مند، امانتدار اور رحمدل انسان تھے۔

گھر کے فرد سے لیکر خاندان کے سربراہ تک ، قریبی دوست سےلیکر دور کی قرابت داری تک یا روزگارِ حیات میں معمولی اجیر سے لیکر صاحب ثروت آجر تک غرض انسانی معاشرے کا کوئی بھی کردار ہو، رسول اللہؐ کی طرز فکر سے ہر کوئی اپنی استعدادکے لحاظ سے روشنی حاصل کر سکتا ہے۔ معاشرہ میں فرد چاہے کوئی بھی کردار ادا کر رہا ہے اگر خلوص نیت ، خیر خواہی ، محبت و اخلاص سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو معاشرتی فلاح و بہبود کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائیگا۔

معاشرے کےافراد بظاہر الگ الگ ہونے کے باوجودایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہؐ نے قطع تعلق کو ناپسند فرمایاہے۔ ارشاد نبوی ؐ ہے ، " تم میں سے کسی شخص کے لیے یہ روا نہیں کہ ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کر لے۔ تم میں سے بہتر وہ ہے جو صلح میں پہل کرے۔"

گھر معاشرے کا بنیادی یونٹ ہے۔معاشرے کی بہتری یا ابتری کا انحصار اس بنیادی یونٹ کے استحکام پر ہے۔اگر گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو اس کے افراد معاشرتی بگاڑ کا باعث بن جاتے ہیں۔ میاں بیوی اگر ایکدوسرے سے مخلص اور خیر خواہ ہوں ایک دوسرے کے حقوق کا بھر پور خیال رکھیں۔چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کر کے ایک دوسرے کا ادب احترام ملحوظ رکھیں تو یہ گھر ایک ایسا ادارہ (Institution)  بن جاتاہے جس کے افراد اوروں کے لیے قابل تقلید مثال ہیں۔

ایک سفر کے دوران رسول اللہ ؐ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ کا اونٹ  پیچھے رہ گیاتو وہ  رونے لگیں۔ رسول اللہ ؐ کو جب معلوم ہوا تو آپ ؐ اُن کے پاس گئے اورتسلی دی۔ اور اُنہیں چپ کرایا ۔ آپ ؐجس قدر تسلی دیتے وہ اس سے زیادہ روتیں تھیں۔ رسول اللہ ؐ اپنی چادر کے پلو سے اس وقت تک اُم المومنین حضرت صفیہ کے آنسو پونچھتے رہے جب تک ان کے آنسو بند نہیں ہو گئے۔

ایک مرتبہ اُم المومنین حضرت حفصہ  نے اُم المومنین حضرت صفیہؓ سے کچھ کہہ دیا کہ تم پہلے یہودی تھین جب کہ ہم آپ ؐ کی برادری سے ہیں ۔ام المومنین حضرت صفیہؓ  غمناک ہوگئیں۔رسول اللہ ؐ جب اُ ن کے پاس تشریف لائے تووہ رو رہی تھیں۔ صورت حال معلوم ہونے پر آپ ؐ  نے فرمایا،"اس میں رونے کی کون سی بات ہے۔ تم نے کیوں نہ کہا کہ میرا باپ ہارون ؑ ہے اور میرا چچا موسیٰ ؑ ہے جب کہ میرا شوہر محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام ہے پھر بھلا مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہے؟‘‘ اس تسلی آمیز جواب پر حضرت صفیہؓ کا دل خوش گئیں۔

ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کسی بات پرناراض ہوگئیں اوردوران گفتگو اُ ن کی آواز رسول اللہؐ  سے بلند ہو گئی۔اسی دوران حضرت ابوبکرصدیق ؓ تشریف لے آئے۔انہوں نے جب یہ دیکھا تو ہاتھ اُٹھا کر بیٹی کی طرف بڑھے۔رسول اللہؐ باپ بیٹی کے درمیان آگئے۔حضرت عائشہؓ سہم  کر  بیٹھ گئیں۔رسول اللہ ؐاُن کے پاس آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا،"دیکھاعائشہؓ ! میں نے کس طرح تمہیں بچایا؟ یہ سن کر حضرت عائشہؓ کا سارا غصہ اور خوف ختم ہو گیا اور وہ بھی  مسکرانے لگیں۔

ماں باپ اولاد کی پرورش جب اس طرزِ فکر کے تحت کرتے ہیں کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی  ایک نعمت اور ذمہ داری ہے جس کو احسن طریقہ سے پروان چڑھا کر ہم اللہ اور اس کے رسول اللہؐ کے حضور سرخرو ہونگے اور اس میں کوئی اور غرض و غایت شامل نہیں ہوتی ، تو ایسے ماں باپ کی اولاد سعید اور سعادت مند ہوتی ہے، اور وہ والدین کو اللہ تعالیٰ کا نعام اور رحمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

حضرت زینب  رسول اللہؐ کی صاحبزادیوں میں  سب سے بڑی تھیں ، کم سنی میں ہی ان کی شادی ابوالعاص بن ربیع سے ہوگئی تھی۔ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر ہوئی تو حضرت زینب  کے شوہر ابوالعاص بھی قریش کی جانب سے شریک  ہوئے اور جنگی قیدی بنے۔ مکہ والوں نے اپنے قیدی چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا ۔ حضرت زینب  نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے جہیز کا قیمتی عقیق کا ہار عمرو بن ربیع کو دے کر مدینہ بھیجا۔ قیدی اور فدیہ میں بھیجی جانے والی اشیاء رسول اللہ ؐ نے اپنے صحابہ کرامسے فرمایا ، " یہ ہار محمدؐ کی بیٹی زینب  کا ہے جو اس کی ماں خدیجہ  نے اسے جہیز میں دیا تھا ۔ میں نہیں چاہتا کہ ابوالعاص  کو فدیہ کے بغیر چھوڑ دیا جائے لیکن مناسب سمجھو  تو یہ ہار زینب کو واپس کردو اور ابوالعاص  کو کسی فدیہ کے عوض رہا کردو۔ تم خود سوچو کہ فدیہ کیا ہو۔ " صحابہ کرام نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ابوالعاص  کو کسی اور فدیہ کے عوض رہا کردو۔ تم خود سوچو کہ فدیہ کیا ہو۔ " صحابہ کرام  نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ابوالعاص کا فدیہ یہ ہے کہ مکہ جا کر رسول اللہ ؐ کی بیٹی کو حضرت زینب کو مدینہ بھیج دیں گے لہٰذا ہار واپس کر دیا جائے ۔ رسول اللہؐ  کو جب اس فیصلہ کی اطلاع ملی تو آپؐ کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا۔

رسول اللہ ؐ  کا معمول تھا کہ جب بھی سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے ملنے کے بعد آخر میں حضرت فاطمہ  کے پاس جاتے اور وہیں سے رخصت  ہوتے  اور جب واپس تشریف لاتے تو پہلے حضرت فاطمہ  کے گھر خیریت معلوم کرنے جاتے تھے۔ منبر نبویؐ  پر خطبہ دیتے ہوئے بارہا ایسا ہو اکہ نونہال حسن اور حسین  تیز دوڑتے ہوئے مسجد کے صحن می داخل ہوتے اور جلد سے جلد منبرتک پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ رسول اللہ   منبر سے اتر کر نواسوں کے پاس جاتے انہیں گود میں اُٹھالیتے اور منبر کے پاس انہیں لا کر سامنے بٹھا لیتے تھے۔

صحابہ کرام نے یہ بھی دیکھا کہ رسول اللہ ؐ   اُٹھ  کر کھڑے ہو گئے اور بیٹی کے گھر تشریف  لے گئے۔ حضرت زینب  نے بچہ  آپ کی گود میں ڈال دیا۔ نواسہ آخری ہچکیاں لے رہا تھا ، یہ دیکھ کر آپ ؐ  کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ساتھ آءے صحابہ کرام  میں سے حضرت سعد بن عبادہ  نے کہا یا رسول اللہ ؐ  آپ رو رہے ہیں ؟ آپ ؐ  نے ارشاد فرمایا ۔" یہ رحم ہے رحم ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے اور اللہ انہی بندوں پر رحم فرماتا ہے جو آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔"

رسول اللہ ؐ  اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ   کی خادمہ اُم ایمنکا بہت اداب و احترام کرتے تھے۔ آپ ؐ  اُن کے مکان پر تشریف لے جاتے اور فرماتے تھے،" میری دوسری ماں ہیں۔"

رسول اللہ ؐ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ  جب بھی تشریف لاتیں۔ آپ ؐ میری اماں کہہ کر احتراماً کھڑے ہو جاتے اور اپنی چادر اُتار کر اُن کے بیٹھنے کےلیے بچھا دیتے تھے۔ جب تک حضرت حلیمہ سعدیہ  بیٹھ  نہ جاتیں آپ ؐ  کھڑے رہتے تھے۔

قبیلہ بنو سعد کے بہت سے مرد اور عورتیں  ایک جنگ میں اسیر ہو گئے تو حضرت حلیمہ سعدیہ ان کی رہائی  کے لیے رسول اللہ  کے پاس آئیں۔ آپ ؐ  نے اُسی وقت اپنے اور اپنے خاندان کے حصہ کے قیدی رہا کر دیئے اور صحابہ کرام   سے فرمایا۔ " میری رضاعی والدہ حلیمہ  جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے میرے پاس آئی ہیں۔ میں نے پنا حصہ آزاد کردیا ہے تم بھی میری رضاعی والدہ کی قوم کو آزاد کر دو۔" چنانچہ بنو سعد کے تمام مرد اور عورتیں رہا کر دیئے گئے۔

قبیلہ ہوازن کی جنگ کے بعد جنگی قیدی جب رسول اللہ ؐ  کی خدمت میں پیش کئے گئے تو اُن میں آپ ؐ  کی رضاعی بہن حضرت شیما  بھی حضرت شیما بھی تھیں۔ حضرت شیما نے اپنا تعارف کرایا اور آپؐ  کی رضاعی بہن  حضرت شیما بھی تھیں۔ حضرت شیما نے اپنا تعارف  کرایا اور آپ ؐ  کو وہ زمانہ یاد دلایا کہ جب وہ آپ کو گود میں لیکر یہ گیت گاتی تھیں، " اے محمد ؐ کو جیتا رکھ کہ ہم اپنی آنکھون سے ان کو جوان  اور ایک معزز  سردار دیکھیں ۔ ان سے حسد کرنے والے دشمن ذلیل اور سر نگوں ہوں۔خدایا ! تو انہیں ایسی عزت عطا کر جو ہمیشہ ہمیشہ رہے۔ " خدا کا شکر ہے کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔ یہ کہتے ہوئے حضرت شیما کی آنکھوں میں  خوشی سے آنسو رواں ہو گئے۔بچپن کی باتی سن کر اور رضاعی بہن سے مل کر رسول اللہ ؐ  کی آنکھیں بھی بھیک گئیں۔ آپؐ نے عزت سے بہن کو بٹھایا اور کہا، " اگر تم میرے پاس رہنا چاہو تو خوشی سے یہاں رہو، اور اگر اپنے قبیلہ میں واپس جانے کا رادہ ظاہر کیا۔ رسول اللہ ؐ نے انہیں تین غلام، ایک کنیز، بکری اور کچھ نقد رقم دیکر عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردیا۔

حضرت فاطمہ کسی بات ناراض ہو کر رسول اللہؐ کے پاس آئیں اور حضرت علی کے سخت رویہ کی شکایت کرتے ہوئے رونے لگیں۔ حضرت علی انہیں لینے آئے  لیکن باپ بیٹی کو گفتگو کرتا دیکھ کرانہیں رسول اللہؐ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔چہیتی بیٹی کو روتا دیکھ کر رسول اللہؐ مغموم ہوئے لیکن عزیز داماد کےخلاف کوئی بات کہنے کی بجائے آپؐ نے شفقت سے حضرت فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا، " بیٹی ! تمہارا نکاح اس شخص سے کیا گیا ہے جو قریش کے جوانوں میں افضل ہے اور اسلام لانے میں جس نے پہل کی ہے۔ میاں بیوی میں ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تم دونوں کو خوش اور آباد رکھے اور میں تم دونوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں۔"

غزوۂ بدر کے قیدیوں کے ہاتھ پیر رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ حضرت عباس  کی رسیاں اتنی سخت بندھی ہوئی تھیں کے درد سے کراہ رہے تھے۔ رسول اللہ ؐ کے کانوں تک حضرت عباس کے کراہنے کی آواز پہنچی تو آپ ؐ بےقرار ہو گئے اور بے چینی سے کروٹی بدلنے لگے۔ رسول اللہؐ کی بیقراری کی وجہ چند جاں نثار صحابہ کرام سمجھ گئے۔ انہوں نے فوراً جا کر حضرت عباس  کی رسیوں کی گرفت ڈھیلی کر دی۔ کراہیں بند ہو گئیں تو رسول اللہؐ کو بھی آرام ملا اور آپؐ سو گئے۔

  رسول اللہؐ عید کی نماز کے لیے جارہے تھے۔ عید کی چہل پہل تھی۔راستے میں  آپؐ نے ایک بچے کو دیکھا جو پرانے کپڑے افسردہ وہ غمگین ایک طرف کھڑا تھا اور کھیل کود میں دوسرے بچوں کے ساتھ شریک نہیں تھا۔ رسول اللہؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا، " بیٹے کیوں نہیں کھیل رہے ہو؟ تم نے کپڑے بھی نہیں بدلے، اتنے افسردہ کیوں ہو؟ " ہمدردی کے دو بول سن کر بچے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اس نے سر اُٹھا کر ایک نظر اس  مہرباں ہستی پر ڈالی جو اس کے سر پر دستِ شفقت رکھنے آیا تھا اور بولا، " میرا باپ ایک جنگ میں اللہ کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا ہے، میری ماں نے دوسری شادی جس شخص سے کی ہے اُس نے ناراض ہو کر مجھے نکا ل دیا ۔ میرا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ بچے کی دکھ بھری داستان سن کر رسول اللہؐ نے اسے سینے سے لگایا اور فرمایا، " کیا بچے کی دکھ بھری داستان سن کر رسول اللہؐ  نے اسے سینے سے لگایا اور فرمایا، " کیا تم پسند کرو گے کہ محمدؐ تمہارے باپ ہوں اور عائشہ تمہاری ماں ہوں۔ علی تمہارےچچا ہوں اور حسن اور حسین  تمہارے بھائی ہوں۔ " بچہ یہ  سن کر خوشی اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں رسول اللہ ؐ کا چہرہ اقدس تکنے لگا  اور بولا۔ " مجھ سے زیادہ خوش نصیب  کون ہوگا کہ مجھے اللہ کے رسول اللہؐ کا خاندان مل رہا ہے۔ " یہ بچہ آخر وقت تک رسول اللہ ؐ کے پاس رہا ۔

  تجارت رسول اللہؐ کا ذریعہ معاش تھا۔ آپ ؐ معاملہ اسقدر راست باز تھے کہ مکہ کے تاجر اس انتطار میں رہتے کہ آپؐ تجارتی قافلہ لیکر جائیں اور وہ بلا خوف وخطر اپنا مال آپؐ کے سپرد کردیں آپؐ نے جب بھی تجارتی سفر کیا تاجروں کو اچھا نفع ملا اور کسی کو آپ ؐ سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ حضرت خدیجہ جو کہ مکہ کی ایک متمول تاجرہ تھیں، ان سے تعارف اور تعلق کا ذریعہ بھی آپؐ کی یہی کاروباری صداقت اور امانت داری تھی۔

  ایک مرتبہ رسول اللہؐ کا گزر بازار سے ہوا۔ ایک بدو غلہ بیچ رہا تحا ۔ آپ ؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور غلہ کے ڈھیر میں دستِ مبارک ڈالا جس سے انگلی تر ہوگئی۔ آپ ؐ نے غلہ والے سے پوچھا ، "یہ کہا ہے؟اس نے عذر پیش کیا کہ بارش کا پانی لگ گیا تھا۔ آپؐ نے سرزنش فرمائی، "تم نے اس کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ خریدنے والا اس کو دیکھ سکے" پھر ارشاد فرمایا،" جو شخص دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔"

  طارق بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم چند افراد کھجوریں خریدنے مدینہ گئے ہمارے پاس ایک سرخ اونٹ تھا۔ مدینہ کے نواح میں ایک صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے اونٹ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تو ہم نے کھجور کے بدلے میں اونٹ کا سودا طے کیا۔ ول صاحب اونٹ کی مہار پکڑ کر شہر کی جانب روانہ ہو گئے اور کہا کہ کھجوریں بھجواتا ہوں۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں خیال آیا کہ ایک اجنبی کو اونٹ دے دیا۔ ہمارے سردار کی بیوی نے کہا، تم لوگ ذرا بھی فکر نہ کرو۔ اونٹ کے خریدار کا چہرہ چودہویں کے چاند سے زیادہ روشن ہے، یہ شخص دھوکہ نہیں دے سکتا۔ کچھ دیر کے بعد شہر کی جانب سے ایک شخص تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ہمارے پاس آیا، اور مطلوبہ مقدار سے زیادہ کھجوریں دیتے ہوئے کہا؛ اللہ کے رسول اللہ ؐ نے تم سے جو سودا کیا ہے یہ اس کی کھجوریں ہیں۔ اضافی کھجوریں مہمانداری کے لیے ہیں۔"




Maut O Zindagi

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ  (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔