Topics

بیٹی کا خط باپ کے نام


 

پیا رے ابا جی

   السلا م و علیکم

   اللہ کی ڈھیر سا ری عنا یتیں اور رحمتیں آپ کے  اوپر مزید ہوں مجھے یقین ہے کہ آپ خیر یت سے ہوں گے اس لئے کہ آپ ہم سب کے لئے ابر رحمت اور سایہ شفقت  ہیں ہما ری آنکھوں کی روشنی اور ہما رے دل کا قرار ہیں اتنے سارے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی بھلا کیسے مدہم ہو سکتی ہے اتنے سارے لوگوں کا سکو ن ' بے قرار ہو جا ئے تولوگ خو ف اور غم سے نڈھال ہو جا ئیں گے اور اللہ یہ نہیں چاہتا کہ اس  کی مخلو ق خو ف اور غم میں مبتلا ہو کر زندگی گزارے ۔

   ابا جی آپ میرے با پ ہیں لیکن ایک اور رشتہ یہ ہے کہ میں آپ کی روح کا ایک حصہ ہوں آپ کے اندر نورانی وجو د کا پر ت ہوں۔

   اللہ آسما نوں اور زمین کا نور ہے اور سار ی روشنی اللہ کے نو ر کا عکس ہے میں آپ کی بیٹی آپ کی روشنی کا عکس ہوں۔

   چا رمہینے پا کستان میں رہنے کے بعد زندگی کی روٹین بالکل ہی بدل گئی تھی یہاں پہنچ کر وقت مختلف لگتا ہے ایسا لگتا ہے زندگی جن لمحا ت پر رواں دواں  ہے ان میں سکو ت پیدا ہوگیا ہے کیفیا ت میں وقت ٹھہرگیا ہے ۔ رات کو دس بجے مغر ب ہو تی ہے صبح پتہ نہیں کب ہو تی ہے ۔ یہا ں تو مرغا بانگ بھی نہیں دیتا۔

   آپ نے دوران تعلیم مجھے بتا یا تھا ۔۔۔۔ ؟

   "ہم آئینہ کو نہیں آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔"

   اس کا مطلب یہ ہو ا کہ

   "آئینہ کے دکھا نے میں گڑ بڑا ور نقص ہے آئینہ ٹھیک ہو نا چاہئے ۔"

   میں نے آپ سے کہا تھا ۔

   "اگر آئینے کو دیکھنے کے بعد وہم ہو تا ہے یا وسوسہ دل میں داخل ہو تا ہے ۔ تو آئینہ کو توڑدوں"

   آپ لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا نہیں نہیں آئینہ کیوں توڑدیں، آئینہ ٹوٹ جا ئے گا توزندگی بکھر جائے گی آئینہ کو اس یقین کے ساتھ دیکھو کہ تمہا ری تصویر تمہیں متوازن نظر آجا ئے۔

   میں نے یہا ں آکر تجر بہ کیا اور سوچ لیا کہ میں ایک متوازن لڑکی ہوں لیکن آئینے کے سامنے جا کر اپ سیٹ ہو گئی۔

   ابا جی !

   مجھے یقین چا ہیے ایسا یقین جس کی روشنی میں مجھے ہرچیز روشن نظر آئے۔

   میں دبے قدموں  (کہ آپ بے آرام نہ ہوں) اور پر کی منزل میں آپ کے  کمرے میں آپ کو دیکھنے گئی تھی رات کا فی گزرچکی تھی آپ سو رہے تھے پتہ  نہیں کیسے آپ نے کروٹ بد لے بغیر کہا کون ؟  ہما بیٹی ہے؟ میں اپنی بھیگی آنکھوں کی پلکوں سے آپ کے تلووَں  کو چھوا آپ اٹھ بیٹھے اور میرے سر پر ہا تھ رکھا مجھے لگا کہ میرا وجود مرکر ی روشنی میں منتقل  ہو گیا ہے ۔

   آپ نے بتایا اگر نسمہ میں خراشیں پڑجا ئیں توجسم غیر متوازن ہو جا تا ہے نسمہ کی مفر د لکیروں کو متوازن کر دیا جا ئے  توجسم متوازن اور صحت مند ہو جاتا ہے میں گھنٹوں سوچتی رہی یہ نسمہ کی مرکب اور مفرد لکیروں کا کیوں اور کیسے تذکر ہ آگیا۔۔۔۔

   مجھے اس کا جواب یہا ں آکر مل گیا ہے ہر فرد بشر کو دوطر ح کے خیالا ت آتے ہیں متوازن اور غیر متوازن خیا لا ت میرے ذہن میں یہ خیا ل القا ء ہو اکہ لکیروں کومتوازن کر نے کے لئے لہروں اورشعاعوں کا سہا را لینا چا ہیے ۔

   ابا جی !

   میں نے لیمپ کے اوپر نیلے رنگ کا سیلوفین پیپر لگا کر منہ میں شعا عیں ڈالنے کا عمل شروع کیا لہروں اور شعا عوں کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی گئی اس عمل سے میر ے اندر یقین فوارہ بن کر ابل پڑا مجھے یا د آیا آپ نے کہا تھا ۔۔۔۔

   یقین سے پہاڑ بھی نہ صرف ہل جا تے ہیں بلکہ ریزہ ریزہ ہو جا تے ہیں میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ یقین کر نے سے میرے وجود میں بشری تقا ضو ں کے تحت جو کمزوریاں ہیں کیا وہ دور ہو جا ئیں گی؟

   آپ نے کہا تھا ۔۔۔ ہاں دور ہو جائیں گی۔

   روشنیوں کو ان ہیل کر نے سے ایک مضمون ذہن میں آیا ہے۔

   قرآن بتاتا ہے ۔

   انسا ن کی تخلیق' روشنیوں کی وہ معین مقداریں جو جسما نی ساخت کو ایک خا ص حر کت اور پروسیس کے تحت خصو صی اعداد و شما ر سے قا ئم رکھتی ہیں ۔ جسما نی اعضا ء دراصل لاکھوں، کروڑوں خلیا ت کا ایسا وجودی عمل ہیں جیسے ہما رے منہ میں 32 دانت ہیں ہر اس شخص کے منہ میں جس کے 32 دانت ہیں ایک ہی طر ح کی حرکت ہو گی 32 ایک مرکب ہندسہ ہے  جو 2 اور 3 سے مل کر بنا ہے سولہ 16 کی جمع 32 ہے ۔

   دو کا نصف ایک ہے یعنی آخری عدد ایک ہوا  2=1+1 دراصل ایک ہی کا ہندسہ یا عدد ہے جو اپنے اندر بے شما ر ہندسوں کو تخلیق کر رہا ہے ایک کا ہندسہ  ایک لکیر ہے اس لکیر کی آڑھی تر چھی شکلیں ہی دوسرے اعداد یا ہندسہ کی شکل ہیں  لکیر کے جتنے زاویئے بنتے رہیں گے اعداد بھی بنتے رہیں گے لکیر کو اگر لہر تسلیم کر لیا جا ئے جیسے کہ لکیر لہر ہے تو با ت سمجھ میں آجا تی ہے لہروں کی تقسیم  اگر درست ہے اور لہروں میں مقداریں متوازن ہیں تو آدم زاد متوازن ،صحت مند اور خوب رو ہے لہروں میں مقداریں متوازن نہیں تو آدمی غیر متوازن ،بیما ر اور بد صورت ہے ۔

   آپ نے کہا تھا ۔۔۔۔

   نسمہ کی مفر د لکیروں کو متوازن کردیا جا ئے تو جسم متوازن اور صحت مند ہو جا تا ہے ۔

   ابا جی!

   آپ نے چند جملوں میں علم کا دریا بہا دیا ہے میں نے آپ کی بات پر جب اور زیا دہ غور کیا تو یہ عقد ہ کھلا کہ ہر انسان اپنے آپ کو اپنے چہرے کی مناسبت سے دیکھتا ہے جب وہ چہرے میں توازن نہیں پا تا تو عدم توازن کا شکا ر ہو جاتا ہے  خو د کو ٹھیک کرنا کو ئی مشکل مر حلہ نہیں ہے۔۔۔

   32  ایسی تصویریں جو آپ کو ہر لحا ظ سے خوش شکل نظر آئیں جمع کرلیں لیکن سب تصویریں ہنستی ہو ئی ہونی چا ہییں ان 32 تصویروں کو دن رات میں دو' تین اور پا نچ مرتبہ دیکھ لیا کریں میں نے مشا ہدا تی تجر بہ کیا ہے کہ نسمہ کی لکیروں اور زندگی بخشنے والی لہروں میں توازن  پیدا ہو جا تا ہے  اپنے اندر یقین کی روشنیا ں بیدا ر اور متحر ک ہو جا تی ہیں آخر میں یہ دعا ہے ۔

   اللہ تعالیٰ ہر عظیمی بہن بھا ئی کو ہمیشہ مسکراتا رکھے آمین پیا رے ابا جی !

   صلبی رشتہ سے آپ کی شفقت آپ کی دعاوَں اور روحا نی رشتہ سے نظر کر م کی محتا ج ہوں ۔

   میری خوشدامین صاحبہ حضر ت سعیدہ  خاتون عظیمی نے مجھے ما ں کا پیا ر دیا ہے ان کے اعلیٰ درجا ت کے لئے آپ سے توجہ کی درخواست ہے۔

   آپ  کی بیٹی

   ہما فاران شہزا د عظیمی

   سالفورڈ انگلینڈ


Maut O Zindagi

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ  (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔