Topics
روحانیت اور تصوف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ
لکھا ہے، ایک گروہ کا خیال ہے کہ اکثر صوفیاء چونکہ اون کا لباس پہنتے تھے اس لئے
لوگ انہیں صوفی کہتے تھے۔ اون کو عربی میں صوف کہتے ہیں۔ وہ لوگ یہ لباس اس لئے
پہنتے تھے کہ صوف کا لباس پہننا اکثر نبیوں، ولیوں اور برگزیدہ ہستیوں کا معمول
رہا ہے۔ بعض حضرات کے خیال میں اصحاب صفہ کے ساتھ نسبت رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ
صوفی کہلاتے ہیں جبکہ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ صوفی صفاء سے مشتق ہے لیکن ان ساری
تشریحات سے دل مطمئن نہیں ہوتا۔
تصوف کے اصطلاحی معانی دراصل ’’نفس کا تزکیہ‘‘
ہے۔ تصوف اس جذبہ اخلاص کا نام ہے جو ضمیر سے متعلق ہے اور ضمیر نور باطن ہے۔ صوفی
اللہ کی معرفت سوچتا ہے۔ اس کی گفتگو کا محور اللہ ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے ساتھ جیتا
ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ مرتا ہے، اسی کا کلمہ پڑھتا ہے، اسی کے گن گاتا ہے اور
اسی کے عشق میں ڈوبا رہتا ہے۔ اللہ کو دیکھنے اور اللہ سے ملاقات کے شوق میں اپنا
سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔مظاہر فطرت، سمندر کی طغیانی اور سکون میں، اپنے آگے
پیچھے اوپر نیچے۔۔۔صوفی کو ہر طرف اللہ نظر آتا ہے۔
ہر دور میں فلسفی موشگافیاں کرتے رہے، جو فلسفی
اللہ کی ہستی کے قائل ہیں، وہ اللہ کو صرف کائنات کا صنعتکار قرار دیتے ہیں لیکن
ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ مخلوق کا اللہ سے رابطہ قائم نہیں ہوتا۔ اللہ کسی
انسان سے ہم کلام نہیں ہوتا۔
تفکر کیا جائے تو سائنسداں اور فلاسفہ کے بیان
میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ سائنس دان کہتا ہے کہ اللہ اس لئے نظر نہیں آتا کہ
اس کی موجودگی دلیل کی محتاج ہے اور انسان کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے
اللہ کو دیکھنا تسلیم کر لیا جائے۔سائنس کا عقیدہ ہے کہ کائنات حادثاتی مظاہرہ ہے۔
حالانکہ سائنس دان الیکٹرون کو تخلیق کی اکائی مانتا ہے۔ جو نظر نہیں آتی اور کبھی
نظر نہیں آئی۔ سائنس اور فلسفہ کی بنیاد عقل پر ہے جبکہ لاکھوں سال میں عقل کی
کوئی حتمی تعریف نہیں ہو سکی۔ سائنس اور فلسفہ کے برعکس مذہب کہتا ہے کہ صحیح
عقیدہ کی بنیاد وحی اور الہام ہے اور عقل کا وحی اور الہام میں کوئی دخل نہیں ہے۔
تصوف کے معنی ہیں صوفی ہونا اور صوفی کا مطلب
ہے: ظاہر سے زیادہ باطن کا خیال رکھنے والا۔ صوفی وہ ہے جو خود کو تنہا کر کے اللہ
سے متعلق رہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کا خلوص اور حقائق کے ادراک کی استعداد ہو۔ صوفی
کا یقین ہے کہ اللہ خود اپنا کلام کسی بندے پر نازل کرتا ہے اور انسان اس سے رابطہ
میں ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
کسی بشر کی قدرت نہیں کہ
وہ اللہ سے ہمکلام ہو۔ مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے۔ یا کسی قاصد کے
ذریعہ۔ یا اللہ جس طرح چاہے۔ (سورۂ شوریٰ آیت نمبر۵۱)
قرآن پاک میں یہ بھی ہے:
اگر تم پکارو گے تو میں
جواب دوں گا۔۔۔۔تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا۔۔۔۔میں تمہاری رگِ جان سے زیادہ
قریب ہوں۔۔۔میں تمہارے اندر ہوں، تم دیکھتے کیوں نہیں؟
جن لوگوں پر عقل کا غلبہ تھا انہوں نے اطاعت کو
کافی سمجھا اور جنت کو اپنا مقصد بنا لیا۔ لیکن جن لوگوں پر عشق کا غلبہ تھا انہوں
نے اطاعت کے علاوہ اللہ کے ساتھ تعلق اور محبت کو ضروری سمجھا اور اللہ کے دیدار
کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
روحانیت یا ’’تصوف‘‘ روح انسانی سے واصل ہونے
کا جذبہ ہے۔ تصوف اپنی انا کا کھوج لگانے کا علم ہے۔
تصوف اپنی انا کا کھوج لگانے کا علم ہے ۔تصوف من کی
دنیا میں ڈوب کر سراغ زندگی پا جانے کا نام ہے۔ علم روحانیت یہ حقیقت آشکار کرتا
ہے کہ ازل میں روح اللہ کو دیکھ چکی ہے، روحیں اللہ کی آواز سننے کے بعد ’’قالو
بلیٰ ‘‘ کہہ کر اس کی ربوبیت کا اقرار کر چکی ہیں۔ صوفی کہتا ہے اگر میری روح اللہ
کو نہ جان سکتی تو اللہ مجھے اپنی ذات سے محبت کا حکم نہ دیتا۔ صوفی پر اسرار و
رموز کا انکشاف ہوتا ہے۔
صوفی
کے اوپر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ روح ایک ایسی ہستی سے محبت کرنا چاہتی ہے جو اس کا
خالق ہے اور وہ کائنات میں حسین ترین ہستی ہے۔ صوفی کے یقین میں یہ بات راسخ ہوتی
ہے کہ اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ میری روح بھی اس سے محبت کرتی ہے۔۔۔روحانی بندہ
اللہ کی تلاش میں ارتکاز توجہ
(Concentration) سے
استغراق حاصل کر کے حقیقت الحقیقت سے واقف ہو جاتا ہے۔
دانشور پوچھتے ہیں کہ غیر صوفی کو وہ مشاہدات
کیوں نہیں ہوتے جن کا صوفی اعلان کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان روح سے واصل
نہیں ہونا چاہتا۔ اور جب اپنی انا یعنی روح سے واقف نہیں ہونا چاہتا تو روح کی
حقیقت اس کے لئے پردہ بن جاتی ہے۔
انسان مادی اور دنیاوی علوم کے لئے اپنی ساری
توانائی اور مال و دولت خرچ کرتا ہے۔ آدمی میٹرک پاس ہونے کے لئے 35600گھنٹے اور
کثیر سرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن روح کا عرفان حاصل کرنے کے لئے دن، رات میں 20منٹ
بھی یکسو نہیں ہوتا۔ اللہ کے پاس جانے کے خیال سے ہی دنیا دار کے اوپر مردنی چھا
جاتی ہے جبکہ اللہ کی ہر نعمت اسے اچھی لگتی ہے۔ہر فرد بشر جانتا ہے کہ موت کا ایک
وقت مقرر ہے۔ عام لوگوں کے برعکس اللہ کے دیدار کے لئے صوفی اس وقت کا شوق سے
انتظار کرتا ہے۔
احسان و تصوف کتاب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ
بالخصوص امت مسلمہ اور بالعموم نوع انسانی، اپنی پیدائش، حیات و ممات اور منصبِ
خلافت فی الارض کی حقیقت سے واقف ہو جائے اور یہ بات اس کے علم میں آ جائے کہ
کائنات میں ہر مخلوق باشعور ہے لیکن انسان واحد باشعور مخلوق ہے جو یہ جان لیتی ہے
کہ اس کو کس نے پیدا کیا ہے، کیوں پیدا ہوا، مرنے کے بعد کس دنیا میں چلا جاتا ہے
اور اس دنیا کے شب و روز کیا ہیں؟
تصوف پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہر کتاب
تصویر کا ایک نیا رخ پیش کرتی ہے۔ لوگوں نے تصوف کے اوپر بے پناہ اعتراضات کئے ہیں
اور تصوف کی فضیلت میں قصیدہ خوانی بھی کی گئی ہے۔ تنقید و تعریف کے انبار میں تصوف
کو ایک الجھا ہوا مسئلہ سمجھا جانے لگا۔ کوئی کہتا ہے کہ تصوف دنیا بیزار اور کاہل
الوجود لوگوں کا مسلک ہے۔ کسی نے کہا۔ گدی نشین حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور
مریدین سے خدمت لینے کا بہترین ذریعہ ہے۔کسی نے بتایا کہ یہ مسمریزم، ہپناٹزم اور
عامل معمول کا کھیل ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ’’نظریہ تصوف‘‘ گانے بجانے اور
دھمال ڈالنے کا اچھا طریقہ ہے۔
صاحب قلب و نظر افراد نے پروقار، پر اعتماد اور
سچائی کی عظمت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ قلبی مشاہدات اور روحانی کیفیات کا نام تصوف
ہے۔ صوفی کے دل کی ہر دھڑکن اللہ کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ
کہتے ہیں کہ:
’’یار دم بدم و بار بار می آید‘‘
اہل عقل و دانش نے فلسفیانہ استدلال، منطق اور
عقلی توجیہات سے تصوف کو اس قدر الجھا دیا ہے کہ تصوف ایک علم چیستان بن گیا ہے۔
انہوں نے اس علم کو یہودی، عیسائی، ویدانت اور
بدھ ازم کا لباس پہنا دیا ہے۔
قوم کے ہمدرد اور مخلص حضرات و خواتین نے تصوف
کے اعلیٰ ذوق کو اختیار کر کے توکل، قناعت اور استغناء کی روشن مثالیں قائم کی
ہیں۔ انہوں نے عملاً اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تصوف ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر
انسان دنیا اور دین کی بھلائی حاصل کر لیتا ہے۔۔۔تصوف کے پیروکار راہب نہیں ہوتے،
وہ محنت مزدوری کر کے، حقوق العباد پورے کرتے ہیں اور شب بیدار ہو کر اللہ کے حضور
حاضر ہوتے ہیں۔
میری دانست میں تصوف کی تعریف یہ ہے کہ:
تصوف ایک ایسا School of Thoughtہے جس میں انسان کو انبیاء علیہم السلام کی طرز
فکر کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے۔۔۔انسان تعلیم مکمل کر کے جب اس اسکول سے نکلتا ہے
تو وہ آدم سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتا ہے۔ اور اس کے اندر خاتم النبیین صلی اللہ
علیہ و آلہ و سلم کی طرز فکر نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کو پکارتا
ہے اور اللہ کو دیکھنے اور اس سے قریب تر ہونے کی آرزو کرتا ہے۔
ایک علم ظاہری ہے۔ دوسرا علم باطنی علم ہے۔
ظاہری علم معیشت و معاشرت کا علم ہے اور باطنی علم تصوف ہے۔ تصوف کا آغاز اس وقت
ہوا جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا ’’میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
آدم علیہ السلام کو علم الاسماء سکھانا۔باطنی علوم کے زمرہ میں آتا ہے۔ باطنی اور
آسمانی علوم بنی نوع آدم کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کا ورثہ ہے۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ تصوف کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس طرح نوع انسانی میں
حضرت آدم علیہ السلام پہلے صوفی ہیں۔
پیغمبروں کی تعلیمات رہنمائی کرتی ہیں کہ ہر
پیغمبر نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آگاہ کیا ہے اور خود اس پر
عمل کر کے بامقصد زندگی گزارنے کا درس دیا ہے۔پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق واحد
ذات اللہ کی پرستش نہ ہو تو وہ ہرگز تصوف نہیں ہے۔۔۔ انبیاء علیہم السلام بتاتے
ہیں کہ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں بھائی
چارہ چاہتے ہیں۔ اپنی مخلوق کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ مخلوق کا بے سکون رہنا اللہ
کو پسند نہیں ہے۔
اللہ مخلوق کو خوش دیکھنے کے لئے مخلوق کی
ضروریات کی کفالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے راستے پر چلنے کو اپنا
راستہ قرار دیتے ہیں۔ پیغمبروں کی زندگی پر تفکر کیا جائے تو ان میں صراط مستقیم
پر قائم رہنے اور صراط مستقیم پر دعوت دینے کا بھرپور عزم ہوتا ہے۔ پیغمبر عفو و
درگذر سے کام لیتے ہیں، حق تلفی نہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ہر پیغمبر کی تعلیمات کا مقصد توحید پرستی ہے۔
یہی سب باتیں پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والا صوفی
بتاتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے۔
یہ اعتراض کہ تصوف رہبانیت کی طرف آمادہ کرتا
ہے اور صوفی کاہل الوجود ہوتے ہیں۔ نہایت مضحکہ خیز بات ہے۔۔۔صوفی کے علاوہ جو لوگ
کام نہیں کرتے ہڈ حرام ہوتے ہیں۔ بچوں کے حقوق پورے نہیں کرتے، بیویاں دن بھر کام
کرتی ہیں، شوہر گھر میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ کیا یہ سب بھی صوفی ہیں؟
صوفی روحانی صلاحیت اور باطنی استعداد کو متحرک
کرنے کے لئے جب خانقاہ میں داخل ہوتا ہے۔ چند سال تک خانقاہ کے ہاسٹل میں رہتا ہے۔
تو اسے مخالفین راہب اور تارک الدنیا کہتے ہیں۔ اور جب کوئی طالب علم دنیاوی علم
حاصل کرنے کے لئے کارپینٹر کا کام سیکھنے کے لئے، ملازم حکمران کی اطاعت کیلئے،
مزدور مزدوری کیلئے، اجیر فیکٹری میں کام کرنے کیلئے جب سالہا سال گھر اور وطن سے
دور رہتا ہے۔ تو کوئی نہیں کہتا یہ تارک الدنیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ راہب
ہے۔
سالک خانقاہ میں رہ کر اپنی باطنی کیفیات کا
مشاہدہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے۔ اللہ کا
عرفان حاصل کرتا ہے۔ بلاصلہ و ستائش اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے کے لئے خود کو اہل
بناتا ہے۔ اللہ کا دوست بن کر خوف اور غم سے نجات حاصل کر لیتا ہے۔ تو اسے راہب
اور دنیا بیزار کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔
تصوف مذہب کی روح ہے اور اسلام کے اصولوں پر اس
کی تدوین ہوئی ہے۔ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ دوسرے علوم کی طرح روحانی طالب علم
شب و روز محنت کر کے، وقت لگا کر یہ علم سیکھتا ہے اور جب علم کی تکمیل ہو جاتی ہے
تو گوشہ نشینی یا ہوسٹل کی رہائش ترک کر دیتا ہے اور دنیا کے سارے کام پورے کرتا
ہے۔
سالکین کے اوپر یہ الزام ہے کہ وہ تارک الدنیا
ہوتے ہیں۔ کیا ہم لاہور میں مقیم حضرت داتا گنج بخشؒ اور ملتان میں موجود حضرت
بہاؤ الدین زکریاؒ کو تارک الدنیا کہہ سکتے ہیں۔داتا صاحبؒ کا مزار مرجع خلائق ہے
جہاں ہزاروں انسان روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔ کیا ہم اس دعوتِ عام کو ترکِ دنیا کا
نام دے سکتے ہیں؟
اعتراض کیا جاتا ہے کہ صوفی کا لفظ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں رائج نہیں تھا اس لئے قابل قبول نہیں ہے۔ ہم
سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ صحابۂ کرام کے زمانہ میں اہل حدیث، اہل قرآن، دیو
بندی، بریلوی، وہابی، شیعہ، سنی وغیرہ کے الفاظ بھی رائج نہیں تھے۔ حکیم الامت،
علامہ، مولانا، مولوی کے الفاظ کا ذکر بھی نہیں ملتا۔ کسی نے مولائیت یا مولویت کے
الفاظ کا اشتقاق کیوں تلاش نہیں کیا۔ کیا صحابہ کرامؓ کے زمانے میں کوئی بزرگ
مولوی ابوہریرہؓ، مولانا معاض بن جبلؓ یا ملا ابن مسعود یا علامہ ابن عباس، حکیم
الامت ابن عمر، مولانا ابوبکر، مفتی عثمان غنی کے نام سے مشہور تھے؟
بحث و مباحثہ کا سارا زور لفظ ’’صوفی‘‘ کیوں
ہے؟۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ صوفی یہ کہتا ہے کہ قال کے ساتھ حال ضروری ہے۔ ظاہر کے ساتھ
باطن ضروری ہے۔ ظاہر کے ساتھ اگر باطن نہیں ہو گا تو عبادت کو قبولیت کا مژدہ نہیں
ملے گا۔اگر اسلام کے ساتھ ایمان نہیں ہو گا تو اسلام کی تکمیل نہیں ہو گی۔ نماز
میں اگر حضور نہیں ہو گا تو نماز معراج المومنین نہیں بنے گی۔ حقوق اللہ پورے نہیں
کئے جائیں گے تو شرک سے نجات نہیں ملے گی۔ اللہ وحدہ لاشریک کو دیکھ کر اس کا
عرفان حاصل نہیں کیا جائے گا تو تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔صوفی کا پیغام یہ
ہے کہ:
’’ہر شخص کی زندگی روح کے تابع ہے ،
اور روح ازل میں اللہ
کو دیکھ چکی ہے ،
جو بندہ اپنی روح سے
واقف ہو جاتا ہے ،
وہ اس دنیا میں اللہ
کو دیکھ لیتا ہ
دنیاوی علوم کی طرح سلاسل طریقت اور خانقاہی
نظام میں بیعت (شاگردی اختیار کرنا) بنیادی عمل ہے۔ بیعت فرض نہیں ہے لیکن دنیا
میں بہت سارے کام ایسے ہیں جو فرض نہیں ہیں۔ مثلاً کہیں نہیں لکھا ہے انجینئر بننا
فرض ہے، بڑھئی کا کام سیکھنا فرض ہے، ڈاکٹر بننا لازم ہے۔ لیکن بہرحال تعلیم حاصل
کرنا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے بیعت کے فوائد بیان
کئے ہیں۔
’’اے پیغمبر! جو لوگ آپ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں، اللہ کے ساتھ
بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہوتا ہے‘‘
(سورۃ فتح۔ آیت ۱۰)
جس طرح دنیاوی علوم سیکھنے کے لئے اسکول، کالج
اور یونیورسٹیوں کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح علم طریقت، تصوف یا روحانی علوم سیکھنے
کے لئے درسگاہیں (خانقاہی نظام) ضروری ہے۔جب سے خانقاہی نظام پر قدغن لگائی گئی
ہے۔ اسی وقت سے انسان بے سکون، بے چین، پریشان، ایڈز اور کینسر جیسے موذی مرض کا
شکار بن گیا ہے۔ اس لئے کہ انسان کا مادی وجود سڑاند اور تعفن کے علاوہ کچھ نہیں
ہے۔ سڑاند اور تعفن میں امراض ہی پیدا ہو سکتے ہیں۔
دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ قرآن پاک اور احادیث
کی تعلیم کے مطابق جسمانی وجود کو زندہ رکھنے والی، سہارا دینے والی، روح کا ادراک
ضروری ہے اور روح کے ادراک کیلئے بیعت یعنی روحانی استاد کی شاگردی ضروری ہے۔ تصوف
کا اصل اصول یہ ہے کہ روح (انسان کی اصل) نور اور روشنیوں سے بنی ہوئی ہے۔ جب تک
روشنیوں کا انسان مادی جسم کو اپنا معمول بنائے رکھتا ہے انسان زندہ رہتا ہے اور
جب روشنیوں کا انسان مادی عناصر سے بنے ہوئے جسم کو چھوڑ دیتا ہے تو آدمی مر جاتا
ہے۔
روحانی استاد، عرف عام میں جسے مرشد کہا جاتا
ہے اس قانون سے واقف ہوتا ہے اور یہ علم اسے اپنے مرشد اور سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوتا ہے۔
روحانی شاگرد یا مرید جب مرشد کے حلقہ میں آ
جاتا ہے تو مرید کے اندر Positiveاور
Negativeروشنیوں
کا نظام بحال ہو جاتا ہے۔ مرید کی روشنیوں میں مراد کی روشنیاں شامل ہو جاتی ہیں۔
اس عمل سے بتدریج تعفن کم ہوتا رہتا ہے۔ جس مناسبت سے تعفن کم ہوتا ہے اسی مناسبت
سے لطیف روشنیوں کا ذخیرہ ہوتا رہتا ہے۔
مرید ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ شیخ کی زندگی کے
احوال و اعمال سے مرید مطمئن ہو اگر مرید اور مراد میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو تو
مرید کرنا یا مرید ہونا دونوں باتیں عقل و شعور کے خلاف ہیں۔مختصراً اس کا مطلب یہ
ہے کہ جب تک مراد اور مرید دونوں کے مزاج میں، عادات و خصائل میں، نشست و برخاست
میں، وضع داری میں، طریقت و شریعت میں پوری طرح مطابقت نہیں ہو گی بیعت کا فائدہ
نہیں ہو گا۔
روحانی علم دراصل ورثہ ہوتا ہے۔ جس طرح صُلبی
باپ اولاد کی بہترین تربیت کرنا اپنا مقصد زندگی سمجھتا ہے اسی طرح مرشد بھی شب و
روز روحانی اولاد کی تربیت میں مشغول رہتا ہے۔ بڑی اذیتیں تکلیفیں اور پریشانیاں
برداشت کر کے اپنے شاگرد کے اندر روحانی طرز فکر منتقل کرتا رہتا ہے۔ شاگرد کی
کوتاہیوں پر صبر کرتا ہے۔ اس کی غلطیوں کو معاف کرتا ہے۔ مرشد اپنے شاگرد کے لئے
مکمل ایثار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق انسان کی تخلیق کا
مقصد خود کو پہچان کر اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصل یعنی
روح سے واقف ہونے کی توفیق دے۔
آیئے!جدوجہد کریں کہ ہمیں اللہ کا قرب نصیب ہو جائے اور ہم سب اس
طرح اللہ سے قریب ہو جائیں جس طرح اللہ چاہتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔