Topics
صبح کے 6 بجے ہیں لیکن دھو پ کی تما ز ت سے لگتا ہے
کہ سورج نصف النہا ر پر ہے جسم عرق آلو د
ہے ما تھا قطروں سے اس قدر بھیگا ہوا ہے جیسے کھولتے پا نی میں سے بھا پ کے قطر ے
بڑے پتیلے کے ڈھکن پر جمع ہو جا تےہیں ۔
بدن میں خلا ء ہے یا نہیں لیکن شا ید گر می سے
جسم پکتے پا نی یا کھو لتے خون کی دیگ بنا ہوا ہے لگتا ہے کہ جسم اسفنج ہے خیا لا
ت کی گر م لو سے جسم ایسا بن گیا ہے کہ جیسے اسفنج کو پا نی میں دھو کر نچوڑ دیا
جا ئے ۔۔۔
انسان
جو جنم دن سے ہی نا شکرا ہے گرمی کو برا کہتا ہے نا شکرا اس لئے کہ جب سردی
ہو تی ہے تو سر دی کی شکا یت کر تا ہے بے صبر ی کا مظا ہر ہ کرتا ہے یہ جا نتے ہو
ئے بھی کہ خالق بے صبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔۔۔۔
پرندے ہر ے بھر ے درخت کی شا خ کے گہرے سبز پتوں
کے سائے میں آنکھیں موندھے ' صا بر و شا کر بیٹھے ہیں وہ کو ئی شکو ہ شکا یت نہیں
کرتے گر می ہو' سر دی ہو یا کو ئی اور موسم ہو اس کا تعلق انسا ن کی ذاتی کیفیت سے
ہے اور انسا ن کی ذاتی کیفیا ت کا دارومدا ر خیا لا ت پر ہے خیا ل نہ ہو تو یہ سا
ری دنیا اور دنیا کی تما م دلچسپیا ں ختم ہو جا ئیں گی۔
میں ایک بندہ
بشر ہوں ' آنکھوں میں خو شی ہے مگر جوا نی کی چمک معدوم ہے بھنویں سفید ہیں
کمرا بھی جھکی تو نہیں ہے لیکن دونوں ہا
تھ بنیا دی دوستونوں کے اوپر رکھ کر اٹھنا پڑتا ہے ' چال ٹھیک ہے لیکن مستا نہ وار
شان نہیں رہی، زمین پر اکڑ کر چلنے کا دور اب ختم ہوگیا ہے ' بچپن جوا نی میں اور
جوانی بڑھا پے میں دفن ہو گئی ہے ۔۔۔۔
میں چا ہوں ۔۔۔۔ تو بھی ما ضی کے قبرستا ن سے
اسے با ہر نہیں نکال سکتا عجیب با ت یہ نظر آتی ہے کہ تقا ضے سب وہی ہیں جو بچپن
اور جوانی میں ہو تے ہیں ۔۔۔ پا نی پیتا ہوں تو سیرابی آجا تی ہے روٹی چا ول کھا
تا ہوں تو انر جی ملتی ہے میں خو د کو اتنا بڈھا نہیں سمجھتا لو گ بڑے بڑے القا ب
سے نواز کر مجھے بوڑھا ہو نے کا احسا س دلا تے ہیں بس میں سوا ر ہو تا ہوں حالا
نکہ میں تھکا نہیں ہو تا کھڑے ہو کر سفر کر سکتا ہوں لیکن بس میں بیٹھے ہو ئے مسا
فر کہتے ہیں بابا جی یہاں بیٹھ جا یئے میر ے انکا ر کے با وجود ہاتھ پکڑ کر مجھے سیٹ پر بٹھا دیتے
ہیں ان کے پرُ ادب رویئے سے مجھے یقین ہو جا تا ہے کہ میں بڈھا ہو گیا ہوں۔۔۔
یہ صورتحا ل اس وقت شروع ہو تی ہے جب کالے بال
چٹے ہوناشروع ہو تے ہیں ۔۔۔
ہم تین دوست ایک جگہ بیٹھے تو ایک دوست نے کہا
میں ساٹھ سال کا ہوں دوسرا بولا میں اٹھا ون سال گزار چکا ہوں میں نے خو ش ہو کر
کہا میری عم ایک کم ستر سال ہے پہلے دوست
نے منطقی انداز میں کہا۔۔ ۔ یا رو۔۔۔آوَ ۔۔۔ غور کریں کہ ہم نے کیا کھو یا ۔۔۔ اور
کیا پا یا۔
پہلا بو لا ۔۔۔ میں نے اس دنیا میں سب کچھ پا
لیا' جوان ہوا' منہ زور جوا نی کے بھر پو ر جذ با ت سے خو ب خو ب لطف اندوز ہوا
گھر بنا یا' شا دی کی' بچے ہو ئے بچوں کے بچے گود میں کھلا ئے دوسرا آدمی گویا ہوا
یہ سب توچرند، پرند، حشرا ت الارض بھی کر تے ہیں اس کا مطلب یہ نکلا کہ تجھ میں
اور حیوانا ت میں کو ئی فرق نہیں ہے ۔۔۔ چوپا ئے بھی یہی سب کرتے ہیں جس پر تو فخر
کر رہا ہے ۔
میر ی با ری آئی تو مجھے کچھ سجھا ئی نہیں دیا
اس لئے کہ مجھے برا لگا کہ میرا شما ر چوپا ئیوں میں ہو میں اپنے اندر گم ہو
گیا ایک دنیا نظر آئی جو ایک آنکھ سے حسین
نظر آتی ہے اور دوسری آنکھ سے نہا یت بدصورت اور ڈراوَنی میں نے جلدی سے
حسین دنیا کی طر ف قدم بڑھا یا اور بدصور
ت دنیا میرے راستے میں مزا حم ہو گئی بدصورت دنیا نے نحوست آثا ر چہرے پر بکھر ی
زلفوں کو اٹھا یا ' غیض و غضب اور سرخ رنگ آنکھوں سے مجھے اس طر ح دیکھا کہ میرے
اوپر دہشت طا ری ہو گئی میں سارے کا سارا جل گیا۔۔۔۔ میر ی خوبصورت کھال جو میرے وجود پر مونڈھی ہو ئی ہے سیا ہ ہو
کر سکڑ گئی اب میں نے خو د کو بد صور ت اور کریہہ شکل دیکھا اور خو د سے خو ف کھا
کر لرزنے لگا لطیف احساسات پر کثا فت کی دھند چھا گئی وجود کا ہر خلیہ پتھر کی طرح
بھا ری ہو گیا دوسرا قدم اٹھا یا تو ایک پیر من بھر کا لگا۔
۔۔۔ میں نے اپنے من کو آواز دی اور اس سے مدد چا
ہی۔۔۔؟
میرے من' میرے ضمیر نے راہنما ئی کی اور مجھے
بتایا کہ بدصورت اور ڈراوَنی دنیا سے تیرے
نفس کو وہ کھوٹ ہے جو تو عمر بھر جمع کر تا رہا میں نے دہا ئی دی اس کھوٹ میں مجھے ملوث نہ کیا جا ئے۔
من نے کہا!
یہاں
کسی کو کھوٹ میں ملوث نہیں کیا جاتا آدمی جب زمین پر پہلا قدم رکھتا ہے تو وہ پھول کی طر ح خوبصورت اور کلیوں
کی طر ح معصوم ہو تا ہے ۔ پھول میں خوشبو
اس لئے ہو تی ہے کہ پھول لطیف خیالا ت کو کثیف معنی نہیں پہناتا۔۔۔۔
آدمی اس لئے بد صور ت ہو جا تا ہے کہ لطیف اور
پا کیزہ خیا لا ت پر تہہ در تہہ کثا فت کے ڈھیر جمع کردیتا ہے۔۔۔
میرے من نے مجھے بتا یا۔۔۔ کہ ۔۔۔ بھو لے بادشا
ہ آدمی ! ۔۔۔ تو خو د کو انسا ن کہتا ہے
جبکہ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ زندگی کا ایک عمل بھی خیا ل کے حلقہ سے با ہر نہیں
ہے تیری عمر ایک کم ستر سال ہے ایک کم ستر سال کی عمر میں انسا نی ہونے کا دعویٰ
کر نے والے آدمی تونے چودہ کروڑ پچا س لا کھ پینسٹھ ہزا ر چھ سو خیا لا ت قبو ل
کئے اور یہی تیری زندگی ہے اے نادان بشر ! کیا تو بتا سکتا ہے کہ 145,056,600 اعمال میں کو
ئی ایک عمل تونے خیال آئے بغیر کیا ہے ؟
ہر گز نہیں۔۔۔ بلا شبہ ہر گز نہیں ۔۔۔۔ خیا ل کے
علا وہ نہ تو پا نی پی سکتا ہے ۔۔۔ نہ تو روٹی چاول کھا سکتا ہے تجھے تو یہ بھی
نہیں پتہ کہ خیا ل کیا ہے اور کہا ں سے
آتا ہے ۔۔۔
اے محدود شعور میں بند آدمی ۔۔۔۔ دنیا نہ
خوبصورت ہے اور نہ بد صور ت ہے تونے خیال
میں جیسے معا نی پہنا دیئے وہی تیر ی دنیا ہے تیرے اندر ہی سب کچھ ہے جب تیرے اندر کا انسا ن تجھ سے روٹھ جا
تا ہے تو خو د تو بد صورت اور گندگی کا ڈھیر بن جا تا ہے میں نے ڈرتے ہو ئے لرزتے
ہو ئے نحیف و نزار مردہ آواز میں اپنے دوستوں کو بتا یا۔۔۔۔
میرے عزیز دوستو!
سنو جو آدمی اس دنیا میں آتا ہے نہ کچھ ساتھ
لاتا ہے اور نہ کچھ ساتھ لے جا تا ہے دراصل انسا نی زندگی خیا لا ت میں خو بصورت
یا بد صورت معانی کا ریکا رڈ ہے۔
"جو شخص دنیا میں ذرہ برابر نیکی کر ے گا
وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برا بر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے
گا۔"(سورۃ الزلزال)
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔