Topics

محاسبہ


اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہر راولپنڈی اور دارالخلافہ اسلام آباد کے ہنستے کھیلتے، جیتے جاگتے، رواں دواں زندگی میں متحرک مکینوں نے اتوار ۱۰ اپریل سن ۱۹۸۸ کا دن خوف اور دہشت ، خاک و خون اور تباہی و بربادی کے آسمان کے نیچے گزارا۔ لوگوں پر ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی۔زمین لرز گئی، مکانوں کی چھتیں اُڑ گئیں۔اور محفوظ دفتروں کی آہنی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ پُر رونق سڑکیں ویران اور بھرے بازاروں میں موت رقصاں نظر آئی، لمحے طویل ہو گئے اورمختصر وقت میں زندگی نے اللہ کی مخلوق سے اپنا تشتہ توڑ لیا، ماؤں سے بچے بچھڑ گئے۔ اعضاء خس و خاشاک کی طرح اُڑ ے اورزمین پر بکھر گئے۔

راکٹوں، میزائلوں اور لانچرز کی تباہی اور بربادی کے آتشیں بوچھاڑ سے کسی نے اپنی شیر خوار بچی کو بچانا چاہا اور کوئی اپنی ضعیف اور بوڑھی ماں کا ہاتھ تھامے خالی ہاتھ محفوظ جگہ کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا، خوبصورت طویل و عریض گھر ان گھروں میں آرائشی سامان اور قیمتی سامان ٹوٹ پھوٹ کر زمین پر اس طرح بکھر گیا جیسے کوئی بے وقعت چیز ہے، خلاء سائنس آتش فشاں کے دھوئیں سے اس طرح بکھر گیا کہ زمین سورج کی کرنوں سے محروم ہو گئی، دیکھنے والوں نے قیامت کا جو منظر دیکھا ان کے دل ڈوب ڈوب گئے اور آنکھوں میں خون آنسو بن گیا، دل کی دنیا زیر و زبر ہو گئی۔

نوع انسانی کے دانشوروں، عقلمندوں اور بذات خود ہیومن رائٹس کا پرچار کرنے والوں نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے لئے زمین پر آتش فشاں مادے کا ایسا پہاڑ کھڑا کر دیا جس کے سامنے زمین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی، سائنسدانوں نے اپنی نوع کو برباد کرنے کے لئے ایسی ایسی اختراعات کیں کہ زمین کا کلیجہ چھلنی ہو گیا، نوع انسانی سے بزعم چند باشعور انسانوں نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے نوع انسانی پر ایسا جال پھینک دیا جس کا ہر سورس ایک مہلک ہتھیار ہے، نوع انسانی کے ان دانشوروں نے جو بلاشبہ اللہ کے دوست نہیں ہیں، نت نئے مہلک ہتھیاروں کی ایجاد سے خود اپنی پیشانیوں کو داغ دار بنا لیا ہے، ترقی یافتہ قوم کے باشعور افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں چالیس ہزار ایٹم بم موجود ہیں، دیگر چھوٹے اور بڑے اسلحوں کا کوئی شمار وقطارنہیں۔۔۔

 یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ لوگ ترقی کے نام پر زمین کو اجاڑ رہے ہیں۔


Maut O Zindagi

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ  (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔