Topics
عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے بتایا کہ فکر انسانی کی تین طرزیں ہیں۔ فکر انسانی کی پہلی طرز یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کی حیثیت سے انفرادی طور پر انسان کے اندر پیدا ہونے والے تقاضوں کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے۔ جب نوع انسانی کا کوئی فرد صحیح طرزوں میں تقاضوں کو استعمال کرتا ہے تو اس کی ہر طرز نوع انسانی کے لئے اخلاص کا جذبہ ہوتی ہے۔ جب کسی فرد کے اندر نوع انسانی کے لئے خلوص کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے تو وہ ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اس کی فکر انفرادی تقاضوں سے ہٹ کر پورے نوعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتی ہے۔ نوع انسانی کا فرد انفرادی حیثیت سے نکل کر اجتماعی حیثیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اس کے اندر پیدا ہونے والے تقاضے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے۔ سوچ اور پورے تقاضے پوری نوع کو محیط ہوجاتے ہیں۔ انفرادی سوچ نوعی سوچ بن جاتی ہے۔ جب کسی فرد کے اندر نوع انسانی کے مجموعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت بیدار ہو جاتی ہے تو فکر ایسی وسعتوں میں داخل ہو جاتی ہے جہاں نوعی تقاضوں سے گزر کر کائنات کے مجموعی تقاضے اس پر منکشف ہو جاتے ہیں۔
تین طرزیں:
پہلی فکر: انفرادی سوچ یا انفرادی طرز فکر
دوسری فکر: نوعی سوچ یا نوعی طرز فکر
تیسری فکر: کائناتی سوچ یا کائناتی طرز فکر
نوع انسانی کا ایک فرد جس پر انفرادیت محیط ہے جب نوعی تقاضوں کے لئے اپنے انفرادی تقاضوں کو مغلوب کر دیتا ہے تو اس کے اوپر کائنات کے رموز اور کائنات کے مجموعی تقاضے منکشف ہو جاتے ہیں۔ وہ کائناتی تقاضوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ جب کوئی فرد ان تینوں طرزوں سے گزر جاتا ہے تو انسانی فکر ماوراء فکر بن جاتی ہے اور یہ ماوراء فکر، ماوراء کائنات کی حقیقت سے آگاہ کر دیتی ہے ۔ پہلی طرز فکر سے گزر کر دوسری طرز میں داخل ہونا نوعی طرز فکر بن جاتی ہے اور جب انسان نوعی طرز فکر سے گزر کر کائناتی طرز میں داخل ہوتا ہے تو کائناتی فکر بن جاتی ہے۔
مثال:
ہمارے سامنے گلاب ہے اس لمحے گلاب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ذہن میں گلاب ہونا اور نہ ہونا ہے۔ جب ہم گلاب کا تذکرہ کرتے ہیں تو سامنے محض گلاب کی ہستی کا اثبات ہے۔ ہماری فکر کا مرکز گلاب کے علاوہ دوسری شئے نہیں ہوتی۔ گلاب کی ہستی کا تذکرہ کرتے وقت گلاب کو اثبات میں بیان کرتے ہیں۔ اس خاص لمحے کو ساری کائنات کا ایک یونٹ شمار کرتے ہیں۔ یہ یونٹ وہ ہے جس کا نام گلاب ہے۔ جب تک اس یونٹ کا تذکرہ نہ کردیں جو لمحہ گلاب کا لمحہ ہے اس وقت تک دوسرے یونٹ سے رابطہ قائم نہیں کر سکتے۔ فکر انسانی میں جو کچھ ہے وہ لمحہ وار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لمحہ کتنا ہے اور لمحے کا وقفہ کتنا ہے۔ لمحہ کا وقفہ کروڑواں یا اس سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ لیکن ذہن ایک وقت میں ایک لمحہ میں کسی ایک چیز کا ادراک کر سکتا ہے۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایک لمحہ میں بہت ساری چیزیں دیکھ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں۔ لمحے کو الگ الگ تصور نہیں کر سکتے۔ لمحہ اتنا کم ہے اور لمحہ کی کسر اتنی کم ترین ہے کہ ہم اسے لمحہ بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ کروڑواں حصہ قرار دیتے ہیں۔ نظریۂ رنگ و نور یہ ہے کہ ایک وقت میں کسی شئے کے لئے ایک لمحہ ذہن کے لئے مرکز بنتا ہے۔ لیکن بہت زیادہ ہونے سے کم ترین کسر کو الگ نہیں کر سکتے۔ اس خاص فرد کے علاوہ کائنات کے افراد جب تک ساکت نہ ہو جائیں ہم ایک فرد کا احساس نہیں کر سکتے۔ بظاہر ہم آگے پیچھے اوپر نیچے دیکھتے ہیں۔ آگے پیچھے دیکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہمارا ذہن اس سمت میں مرکوز نہ ہو جائے۔
ہم چھ سمتوں میں سفر کرتے ہیں۔ یا چھ سمتوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، آگے ، پیچھے۔ روحانی نقطہ نظر سے چھ سمتیں محض قیاس کی پیداوار ہیں۔ فی الحقیقت سمت وہی ہے جس سمت میں ہمارے ذہنی تقاضے سفر کر رہے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ زمانہ گزرتا رہتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ زمانہ ریکارڈ ہوتا ہے۔ آج جو فرد تیس سال کا ہے وہ بچپن سے تیس سال تک سفر کرتا رہا ہے۔ زندگی کے ریکارڈ ہونے کو ہی قرآن پاک میں کتاب المرقوم کہا گیا ہے۔ یہی کتاب المرقوم یا ریکارڈ زمانہ، علم الاسماء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ جو کچھ اللہ نے سکھایا وہ ریکارڈ ہو گیا۔ وہی ریکارڈ آدم سے لے کر آدم کی نسل کو منتقل ہو رہا ہے۔
کائنات ایک نقطہ ہے جسے اپنے ذہن میں فرض کرنا پڑتا ہے۔ یہی کائنات کی موجودگی کا راز ہے۔ ریاضی دانوں کی اصطلاح میں نقطہ نہ لمبائی رکھتا ہے ، نہ چوڑائی رکھتا ہے اور نہ گہرائی رکھتا ہے۔ وہ صرف شعور کی تخلیق ہے۔ یہی نقطہ شعور سے مسافرت کر کے ادراک بالحواس بنتا ہے۔ اس کے ادراک بالحواس بننے کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شعور فی نفسہ کیا چیز ہے۔ وہ خود کو قائم رکھتا ہے اور اپنی یاد دہانی میں مصروف رہتا ہے۔ شعور جس ریکارڈ پر قائم ہے اس ریکارڈ کو دہراتا رہتا ہے۔ آج جو بچہ پیدا ہوتا ہے جب بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے تو دراصل یہ شعو ر کے ریکارڈ کا دہرانا ہے۔ اگر شعور اپنے ریکارڈ کو نہ دہرائے اور شعوری یاددہانی میں مصروف نہ رہے تو بچہ جوانی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جوانی دراصل بچپن سے جوانی تک شعوری ریکارڈ کی یاددہانی ہے۔
بچپن میں جب ہوش و حواس کا دور شروع ہوتا ہے تو بچہ چاند سورج سے واقف ہوتا ہے۔ بچہ کو شعوری طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قلم ہے، یہ کتاب ہے۔ یہ شعوری ریکارڈ ہو گیا۔ یہی ریکارڈ وہ بڑھاپے سے موت تک استعمال کرتا رہتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بچہ کسی کتاب کو درخت کہے یا درخت کو کتاب کا نام دے۔ جو کچھ شعور میں ریکارڈ ہو گیا وہی شعور ہے۔ شعور اپنے ریکارڈ کو یاریکارڈ میں موجود نقوش کو یا ریکارڈ میں موجود تصویروں کو مختلف طریقوں میں استعمال کرتا ہے۔ طریقے بہت سے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ جو تمام نوعوں میں مشترک ہے نگاہ ہے۔ شعور اپنے ریکارڈ کو نگاہ کے ذریعے دیکھتا، استعمال کرتا اور دہراتا ہے۔ نگاہ ہمارے اندر کام کرتی ہے۔ وہ دو مرکزوں کو دیکھتی ہے ۔ نگاہ کاایک مرکزیت میں دیکھنا شعور اور دوسری مرکزیت میں دیکھنا غیب ہے۔ نگاہ کا دیکھنا شعور میں ہو یا غیب میں ہو، نگاہ کا دیکھنا انفرادی ہو، نگاہ کا دیکھنا اجتماعی ہو، درحقیقت دونوں مرکزوں میں ایک نگاہ کام کر رہی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے بادام کا ایک درخت ہو تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ پھر ہم نوع انسانی کے دوسرے فرد سے پوچھتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ ایک آدمی کے علاوہ ہم ہزاروں افراد سے یہی سوال کرتے ہیں تو ہر آدمی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ یہ بات اس کی شاہد ہے کہ دیکھنے والی نگاہ ایک ہے۔ اگر نگاہیں دو ہوتیں تو ہر نگاہ کا زاویہ مختلف ہوتا۔ جب ہم دو کہتے ہیں تو دراصل ایک سے دو ہونا مختلف ہے۔ ایک نگاہ کچھ دیکھتی اور دوسری نگاہ کچھ اور دیکھتی اس لئے لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شعور کی ایک سطح اجتماعی ہے جس میں کائنات مشترک ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔